تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     15-08-2015

داستانِ ’’آزادی‘‘…(2

اسی دوران مئی 1946ء میں کانگریس کی صدارت مولانا ابوالکلام آزاد سے جواہر لال نہرو کو منتقل ہو چکی تھی۔وائسرائے لارڈ ویول کو اس موقع کی مناسبت سے قائداعظم محمد علی جناح کا مطالبہ ماننا پڑا کہ عبوری کیبنٹ میں مسلمان نمائندوں کی نامزدگی صرف مسلم لیگ کے اختیار میں ہو گی۔ 
کانگریس کی قیادت کیبنٹ کمیشن کی تجاویز کو ماننے یا مسترد کرنے کا کوئی متفقہ فیصلہ نہ کر پائی۔ مختلف اطراف سے پڑنے والے دبائو کے تحت کانگریس نے کیبنٹ پلان مشروط طور پر قبول کر لیا لیکن وائسرائے کی جانب سے عبوری حکومت میں شامل ہونے کی دعوت مسترد کر دی۔ انہیں اندازہ تھا کہ کانگریس کی شرکت کے بغیر قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں عبوری کیبنٹ کی تشکیل لارڈ ویول کے لئے کم و بیش ناممکن ہو گی۔ ایسا ہی ہوا۔ 16جون کو ویول نے اپنی پیشکش واپس لے لی۔ قائداعظم محمد علی جناح کے لئے یہ بڑا دھچکا تھا۔ نہرو اپنے حریف کی اس ناکامی پر بہت خوش تھا۔ 7جولائی کو پارٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں نہرو کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی نے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا رکھ دیا۔ نہرو نے بیان دیا کہ کانگریس نے صرف آئین ساز اسمبلی میں شمولیت پر رضا مندی ظاہر کی تھی،مزید یہ کہ مذکورہ اسمبلی کیبنٹ مشن کے' آئینی ایوارڈ‘ میں رد و بدل کرنے کی مجاز ہے اور کیبنٹ مشن کی مجوزہ تین ذیلی فیڈریشنز کو یکسر منسوخ بھی کیا جاسکتا ہے۔دلیپ ہیرو اپنی کتاب 
''طویل ترین اگست‘‘ میں برصغیر کا بٹوارہ کروانے میں نہرو کے فیصلہ کن کردار کے بارے میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ''نہرو کی جارحانہ بیان بازی نے متحدہ آزادہندوستان کے ممکنات کا قتل کر دیا۔ اس کے جواب میں قائداعظم محمد علی جناح نے آئینی ایوارڈ کی حمایت واپس لے لی۔ یہ واقعہ بڑے واقعات کے سلسلے میں آخری تھا۔کانگریس پارٹی کے سخت گیر موقف نے برصغیر کی تقسیم کی راہ ہموار کی۔‘‘
مولانا آزاد ان واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب India Wins Freedom میں لکھتے ہیں کہ ''یہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس پیش رفت (تقسیم) کی زیادہ ذمہ داری جواہر لال پر عائد ہوتی ہے۔ نہرو کے اس بدبخت بیان نے کہ کانگریس کیبنٹ مشن پلان کو تبدیل کر سکتی ہے، مذہبی تعصب کو پھر سے ہوا دے ڈالی۔ مسٹر جناح نے نہرو کی غلطی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پلان کے لئے لیگ کی حمایت ختم کر دی۔‘‘
مذکورہ بالا کتاب میں ہی برصغیر کی تقسیم میں گاندھی کا کردار بیان کرتے ہوئے آزاد لکھتے ہیں کہ ''جب میں گاندھی سے دوبارہ ملا تو مجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا لگا۔ وہ تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ اگرچہ اب بھی کھلے عام تقسیم کے حق میں نہیں تھا لیکن اب اس کی مخالفت پر بھی زیادہ زور نہیں دے رہا تھا۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ سردار پٹیل کے دلائل ہی دہرا رہا تھا۔ میں نے دو گھنٹے تک اس کی منت سماجت کی لیکن کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔‘‘
برصغیر کی سیاست میں مذہب کا زہر گھول کر حالات کو اس نہج تک لے جانے والے گاندھی صاحب تقسیم کے خونریز ایام میں ایک عالیشان محل 'بِرلا ہائوس‘ میں آرام فرما رہے تھے۔ یہ محل ٹیکسٹائل سے وابستہ ارب پتی سرمایہ دار گھنشیام داس برلا کی ملکیت تھا جو گاندھی کا پرانا مالی سرپرست تھا۔ مذہبی فسادات نے پنجاب اور بنگال کو خون میں ڈبو دیا۔ نہرو ان حالات کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ''ہندوستان سمندر کے بیچوں بیچ کھڑا بارود سے بھرا بحری جہاز ہے جسے آگ لگ چکی ہے۔‘‘ریڈکلف لائن کے اس طرف گورنر جنرل محمد علی جناح صاحب لاہور کے دورے پر تھے۔ مہاجرین کی بحالی کے وزیر میاں افتخارالدین اور پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مظہر علی خان کے ہمراہ فضائی جائزہ لیتے ہوئے نیچے کے مناظر دیکھ کر محمد علی جناح حیران رہ گئے۔ 
1946ء کی انقلابی تحریک کی شکست کے بعد تقسیم نا گزیر ہو چکی تھی۔ برطانوی سامراج ایک متحدہ ہندوستان کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا کیونکہ آزادی کی جدوجہد قومی حریت کے مرحلے سے آگے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی ڈاکہ زنی سے آزادی کی طرف بڑھ سکتی تھی۔ مقامی حکمران طبقات کے اپنے مفادات تھے۔برصغیر کے حکمران 68سال بعد بھی ویسی ہی سیاست کر رہے ہیں جیسی 1947ء میں کر رہے تھے۔ یہ کیسی آزادی ہے؟ یونیسف کے رپورٹوں کے مطابق خطے میں صحت اور دوسرے سماجی شعبوں کے حالات برطانوی راج کے عہد سے بھی بدتر ہیں۔برصغیر میں دنیا کی 20فیصد آبادی اور 40فیصد بھوک پلتی ہے۔ دونوں ایٹمی طاقتوں کے نصف بچے نامکمل ذہنی و جسمانی نشوونما (Stunted Growth)کا شکار ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے حکمران چھ دہائیوں بعد بھی جدید صنعتی قومی ریاست کی تعمیر اور قومی جمہوری انقلاب کے تاریخی فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آج دنیا کے سب سے قدیم مذہب کی بنیاد پرستی برسر اقتدار ہے۔ 
تقسیم کے بعد بھی خطے کے عوام نے سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی استحصالی ڈھانچے کے خلاف کئی بغاوتیں کی ہیں۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے محنت کش اور نوجوان نسلی تعصبات کو مسترد کر کے طبقاتی یکجہتی کے تحت جبر و استحصال کے خلاف تاریخ کے میدان عمل میں اترے ہیں۔ مارکسی قیادت کی عدم موجودگی ان تحریکوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ رہی ہے۔ روایتی قیادتوں نے محنت کش عوام کے ساتھ ہر بار غداری کی ہے‘ لیکن جب تک طبقات موجود ہیں طبقاتی کشمکش بھلا کیسے مٹ سکتی ہے؟ طبقاتی جدوجہد کی لہریں آج پسپا ہیں لیکن طوفان بن کر ایک بار پھر ابھریں گی۔ کسی ایک ملک میں کامیاب انقلاب پورے خطے میں ناگریز طور پر سرایت کر جائے گا۔ انقلابات کسی سرحد اور تقسیم کو نہیں مانتے۔ 1577ء میں کابل سے رنگون تک، برصغیر ایک یکجا ریاست تھا۔ سامراج اور اس کے مقامی گماشتوں کے تاریخی جرائم، ظلم اور نسل در نسل کے استحصال کا انتقام اسی راستے پر چل کے لیا جاسکتا ہے۔
فیض نے 15اگست 1947ء کو جو نظم تحریر کی تھی اس کے آخری اشعار آج بھی ''یوم آزادی‘‘ کا پیغام ہیں: 
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی!
(ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved