وضاحت
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا وضاحت کی جاتی ہے کہ خاکسار نے جو پہلا بیان دیا تھا کہ ایم کیو ایم کے استعفے منظور ہونے چاہئیں اور اب وزیراعظم نے دوسرے کام پر لگا دیا ہے تو اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیاستدان کا کوئی بیان آخری نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا اپنا آخری وقت نہ آ جائے۔ نیز‘ ایم کیو ایم سے بات کر کے استعفے واپس کروانے کا جو ٹاسک خاکسار کو دیا گیا ہے تو اس سے بڑا گناہِ بے لذت اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ اپنے مؤقف کے الٹ بھی کام کرنا پڑے اور اس میں سے یافت بھی کچھ نہ ہو کہ ایم کیو ایم نے اپنا سارا پیسہ باہر بھجوا رکھا ہے اور حکومت پرلے درجے کی کنجوس مکھی چوس واقع ہوئی ہے اور کسی کو حق الخدمت تک ادا کرنے کو تیار نہیں‘ اور اگر حالت یہ ہو تو ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے کہ اس کی ترقی معزز ارکان اسمبلی ہی کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے‘ جو جتنی بھی ہو جائے کم ہے۔
المشتہر: فضل الرحمن عفی عنہ
اپیل برائے دعا
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا ہر خاص و عام سے اپیل کی جاتی ہے کہ دعا کریں‘ بات بن جائے اور ایم کیو ایم دوبارہ اسمبلیوں میں چلی جائے کیونکہ معمول کے برعکس اب اس ہدایت کو واپس بھی نہیں لیا جا سکتا کیونکہ یہ کوئی ایسا بیان نہیں ہے کہ جس کی حسب معمول تردید کی جا سکے اور اصل خطرہ بھی یہی ہے کہ جس طرح
زرداری صاحب کے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی بے اثر ثابت ہوئی تھی اور وہ جلدی ہی ریں ریں کرنے لگ گئے تھے‘ اسی طرح خاکسار کا یہ دبکا بھی رائیگاں ہی جاتا نظر آتا ہے کیونکہ آئینی طور پر استعفیٰ واپس بھی نہیں لیا جا سکتا لیکن ملک عزیز میں پہلے کون سا کام آئین کے مطابق ہو رہا ہے جو یہ نہ کیا جا سکتا ہو اور اسی لیے نوبت دعا تک آ پہنچی ہے کہ پارٹی کے لیے ویسے بھی ایک عرصے سے دعا ہی کا مقام چلا آ رہا ہے۔ اس لیے امید ہے کہ وزیراعظم اس کا کوئی باعزت حل نکال لیں گے؛ تاہم کارکن دعائوں پر زور جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کارساز ہے۔
المشتہر: الطاف حسین عفی عنہ
ہدایت
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا سکیورٹی اداروں کو پُرزور ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ یوم آزادی کے موقع پر فول پروف انتظامات کو یقینی بنائیں یعنی بے وقوف لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں جو زیادہ تر حکومتی ارکان ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو فول ثابت بھی کر چکے ہیں کہ ویسے بھی یہ اللہ لوک ہیں اور اپنے نان و نفقے کے لیے وفاقی وزیر خزانہ کے ہاتھوں کی طرف دیکھتے رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ حکومت کافی عرصے سے ایماندار ہو چکی ہے اور خود ایسا کوئی کام نہیں کرتی جس پر انگلی اٹھائی جا سکے کیونکہ میٹروبس اور دیگر ایسے ہی منصوبوں کی وجہ سے اسے ایسا اور کوئی کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور اسی سے دو وقت کی روٹی پوری ہو جاتی ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ عزت کی روٹی کھا رہے ہیں کہ اس درویشی میں بھی بڑا مزہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شروع سے طبیعت بڑی مستغنی پائی ہے اور کبھی لالچ نہیں کیا۔
المشتہر: محمد شہبازشریف عفی عنہ
آوارہ شاعری
اور‘ اب آوارہ شاعری کے کچھ نمونے جو ہمیں گھر بیٹھے ہی دستیاب ہو جاتی ہے:
کتنے خواب سمیٹے کوئی کتنے درد کمائے گا
پیمانے کی حد ہوتی ہے آخر بھر ہی جائے گا
آدھے گھر میں میں ہوتا ہوں آدھے گھر میں تنہائی
کون سی چیز کہاں رکھ دی ہے کون مجھے بتلائے گا
پیار اک ایسا کاسہ ہے جس کی گہرائی مت پوچھو
جتنے سکے ڈالو گے اُتنا خالی رہ جائے گا
ہم ایک ساتھ اٹھا لائے تھے یہ ہجر کی آگ
خدا کرے ترے حصے کی آگ ٹھنڈی ہو
پکارتا ہے مجھے کیوں ابھی سے دوسرا عشق
ابھی تو فکر ہے پہلے کی آگ ٹھنڈی ہو
(رانا عامر لیاقت‘ ظفر وال‘ ضلع نارروال)
اُس سمت لگی ہوئی ہیں آنکھیں
جس اور گزر نہیں ہمارا
دنیا میں جگہ نہیں ہماری
اس خواب میں گھر نہیں ہمارا
ہم خاک ہوئے یہیں کہیں پر
یہ باغ مگر نہیں ہمارا
گھڑے میں تسبیح کرتا پانی
وضو کی خاطر اُچھل رہا تھا
دعائیں کھڑکی سے جھانکتی تھیں
میں اپنے گھر سے نکل رہا تھا
ضعیف انگلی کو تھام کر میں
بڑی سہولت سے چل رہا تھا
(حماد نیازی‘ تلہ گنگ‘ ضلع چکوال)
بے قصور
بچے بنکاک میں بھی رُلتے ہیں
جسم نیویارک میں بھی تُلتے ہیں
قتل وینس میں اتنے ہوتے ہیں
ریپ پیرس میں جتنے ہوتے ہیں
دو سو چوراسی کتنے ہوتے ہیں؟
ڈیڑھ دو لاکھ تو حضور نہیں
جو ہُوا سب خدا کی مرضی تھی
کیا کریں جب خدا کی مرضی تھی
اور خدا ڈیرے سے تو دُور نہیں
ہاں! کسی کا کوئی قصور نہیں
(ادریس بابر)
آج کا مقطع
چل بھی دیے دکھلا کے تماشا تو‘ ظفر ہم
بیٹھے رہے تادیر تماشائی ہمارے