ہمارا گھرانہ پانچ افراد پر مشتمل ہے۔ میرے علاوہ میری بیوی، بیوہ بہو، آٹھ سالہ پوتا اور چار سالہ پوتی شامل ہیں۔ ٹیلی ویژن پر بچے عام طور پر کارٹون دیکھتے ہیں اور بڑے خبریں وغیرہ دیکھ لیتے ہیں ۔کل میں اندرونِ ملک سفر سے رات دیر گئے واپس گھر پہنچا ۔ میں نے ٹیلی ویژن کا ریموٹ ہاتھ میں لیا کہ کچھ تازہ خبریں اور ٹِکر وغیرہ دیکھ لوں ، تو میری بیوی نے کہا کہ کچھ دنوں کے لیے ٹی وی بند کردیں اور ریموٹ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں ۔ میں نے پوچھا :''کیا بات ہے؟‘‘ انہوں نے بتایا کہ آٹھ سالہ پوتا آج پوچھ رہا تھا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کیاہوتی ہے؟۔ یہ اس لیے ہو ا کہ ضلع قصور کے ایک گاؤں میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے ہفتہ بھر سے ٹیلی ویژن چینلز میں سنسنی خیزی کا مقابلہ چل رہا ہے اور کسی طور ختم ہونے میں نہیں آرہا ۔
یقینا ہمارے میڈیا کے مالکان اور کارکنا ن کے علاوہ پاکستان کے کروڑوں گھرانوں میں آٹھ سے بارہ سال تک کے بچے ہوں گے اور رگوں میں خون کو گرمانے والی ان خبروں کو وہ بھی سنتے اور دیکھتے ہوں گے اور ان کے ذہنوں میں بھی طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہوں گے ، کیونکہ گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹ عام طور پر کامن روم یا نشست گاہ میں ہوتا ہے اور سب چھوٹے بڑے بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے ہیں اور بالخصوص کرنٹ افیئرز یعنی حالاتِ حاضرہ سے متعلق خبریں دیکھتے ہیں ۔ بعض مؤقر کالم نگاروں نے لکھا ہے کہ فحاشی کے مناظر کی جو تصاویر بنائی گئیں ہیں، ان کے ذریعے متاثرہ خاندانوں کو بلیک میل کیا جاتا رہا ہے اور ان تصاویر کے عالمی فحاشی کی مارکیٹ میںمنہ مانگے دام ملتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ لوگ اتنے بااثر اور عالمی روابط کے حامل تھے ؟
حال ہی میں پیمرا نے ٹیلی ویژن چینلز کے نام ایک ہدایت نامہ جاری کیا‘ اس کی دفعہ نمبرچھ میں لکھا ہے: '' جرائم کے پروگراموں کی منظر کشی جو کہ جرم کی تشہیر کا باعث ہوں (نہ دکھائے جائیں)‘‘۔ ظاہر ہے کہ پیمرا ہدایت نامہ تو جاری کرسکتا ہے، لیکن اپنے ہدایت نامے پر عمل نہیں کرا سکتا۔ انسانیت کے مجرموں کو قرار واقعی بلکہ عبرت ناک سزا دینا ضروری ہے اور اس طرح کے تمام مطالبات درست ہیں ، لیکن ''اشاعتِ فاحشہ ‘‘اور سنگین اخلاقی و قانونی جرائم کی تشہیر کے نوخیزاور ناپختہ ذہنوں پر مرتب ہونے والے اثرات کے سد ّ ِ باب کی بھی کوئی تدبیر ہونی چاہیے۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیامیں اس کا کوئی اہتمام نہیں ہے اور اہل ِ اقتدا ر کی بے حِسی اور بے بسی کا تذکرہ گزشتہ کالم میں کیا جاچکا ہے ۔ نئی نسل سگریٹ ، شیشہ ، ہیروئن اور مشروباتِ خبیثہ کی وبا میں اسی طرح تو مبتلا ہوتی ہے کہ ابتداء میں یہ جاننے کے لیے کہ ان چیزوں کے اثرات کیا ہوتے ہیں یا ان میں کشش کیوں ہے ؟ پہلا کشَ یا پہلا گھونٹ لیا جاتا ہے اور جر م کے ارتکاب کا یا مجرم بننے کا ارادہ نہیں ہوتا ، لیکن بد قسمتی سے یہ وہ بند گلی ہے کہ جس میں داخلے کا راستہ تو ہے، واپس بچ کر نکلنے کا راستہ نہیں ہوتا ۔
اس لیے میری درد مندانہ اپیل ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر جرائم کی تشہیر یا فواحش کی اشاعت کے سدّ باب کا کوئی نہ کوئی اہتمام ہونا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (1) ''بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ (چیزوں کے انجام کو ) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘ (النور : 19)، (2) '' وہ (شیطان) تمہیں برائی اور بے حیائی (کے کاموں ) کا حکم دیتا ہے‘‘ (بقرہ : 169) ،(3) ''لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا :بے شک تم بے حیائی کا کام کرتے ہو ، جو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا ، کیا تم مردوں سے شہوت پوری کرتے ہو اورراہزنی کرتے ہو اور اپنی (بھری) مجلس میں برا کام کرتے ہو‘‘ (العنکبوت : 29)۔ علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی نے لکھا ہے : ''فاحشہ انتہائی قبیح فعل کو کہتے ہیں‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے لکھا ہے:''ہر وہ برا کام جس پرشریعت نے کوئی حد مقررنہ کی ہو ،''سُوء‘‘ ہے ‘‘۔ ابن جریر طبری نے لکھا :'' فحشاء ہر وہ برائی ہے جس کا بیان کرنا اور سننا دونوںقبیح ہوں اور بے حیائی کے زمرے میں آتے ہوں‘‘۔'' قرآن مجید میں زنا اور عمل قوم لوط پر بھی فاحشہ کا اطلاق کیا گیا ہے ‘‘۔
آج کل ہم بڑے پیمانے پر ''اشاعتِ فاحشہ ‘‘ کے دور سے گزر رہے ہیں اور اس پر ریاست و حکومت کا تحدید و توازن (Check & Balance) کا کوئی نظام نہیں اور نہ ہی نظارت یعنی نگرانی کا کوئی طریقہ ہے ۔ بس اس حوالے سے ہم ایک اندھی مسابقت کے دور سے گزر رہے ہیں ۔ امریکہ اور مغرب میں ، جہاں ''اشاعتِ فاحشہ‘‘ کسی اخلاقی برائی یا قانونی جرم کے زمرے میں نہیں آتا ، کم ازکم اتنا اہتمام ضرور ہے کہ ایسی فلمیں یا ڈرامے الیکٹرانک میڈیا پر رات گئے اُس وقت چلائے جاتے ہیں جب اسکول جانے والے بچے سو جائیں ، لیکن ہمارے ہاں چوبیس گھنٹے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔
اب تو اردو زبان کی نفاست و لطافت ، فصاحت و بلاغت اور ادبیت بھی قصہ ٔ پارینہ بنتی جارہی ہے۔ ٹیلی ویژن چینلز کے اینکر پرسنز نت نئے محاورے اور اصطلاحات وضع کررہے ہیں اور وہی امامُ اللُّغات ہیں ۔ چند دن پہلے ایک ادبی کالم نگار کا کالم پڑھنے کو ملا، جس میں وہ اسی طرح کے روز مرّہ اور محاوروں پر تبصرہ فرما رہے تھے ، جن سے اردولغت بورڈ والے محققین بھی آشنا نہیں ہیں ، انہیں بھی شاید ان اینکر پرسنز کی شاگردی اختیار کرنی پڑے ، مثلاً :'' پولیس کی دوڑیں لگ گئیں ‘‘ اور ''وزیراعظم کو ماموں بنا دیا ‘‘وغیرہ۔ ہماری عاجزانہ گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ میڈیا مالکان ، پالیسی سازوں، پروگرام ڈائریکٹرز اور اینکر پرسنز کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتمام ہونا چاہیے ، جن میں انہیں ہماری دینی اور معاشرتی اَقدار کا شعور دیا جائے اور ماہرینِ نفسیات کا بھی اس میں کوئی نہ کوئی کردار ضروری ہے کہ کسی سانحے ، حادثے ، وقوعے ، خبر یا جرم کو کس طرح پیش کیا جائے، کہ ہماری نئی نسل اس کے برے اثرات سے ممکن حد تک محفوظ رہے ۔
اسلام میں اسی لیے اخلاقی مفاسد اورجرائم کے سدِّباب کے لیے مقاصدِ شرعیہ میں ''سدِّ ذرائع‘‘ کی حکمت کو اختیار کیا ہے اور اس کی شریعت میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ رسول اللہﷺ نے بعض اوقات دین کی عظیم تر حکمت کی خاطر مستحب اور اَولیٰ کام کو بھی ترک فرمایا ہے ،بعض اوقات کسی رخصت ِ شرعی پر عمل کرنے میں صحابۂ کرام کو تحفظ یا انقباض ہو تا تھا ، تو رسول اللہﷺ نے رخصتِ شرعی کو مشروع کرنے کے لیے خلافِ اَولیٰ کام بھی کیا اور یہ بحیثیتِ شارع آپ پر واجب تھا، جیسے سفرِ جہاد میں عصر کے بعد سرِعام رمضان کے روزے کو توڑنا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''حلال واضح ہے اور حرام (بھی ) واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مُشتبَہ ، جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے ، سو جو مشتبہ امور سے بچا رہا ، اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچا لیا اور جو مشتبہ امور میں پڑ گیا ، تواس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ممنوعہ چراگاہ کے ارد گرداپنے مویشی چرائے پس اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ اس کے مویشی چراگاہ میں گھس جائیں گے ، سنو! ہر بادشاہ کی کچھ ممنوعہ حدود ہوتی ہیں ، سنو! اللہ کی ممنوعہ حدود اس کی مُحرّمات ہیں ، سنو! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے ، جب وہ لوتھڑا صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور جب و ہ بگڑ جائے تو سارے جسم کانظام بگڑ جاتا ہے، سنو! وہ دل ہے‘‘ (صحیح مسلم:52) ۔ آج ہمیں جو مسئلہ در پیش ہے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺنے یہ احتیاطی حکم جاری فرمایا: ''جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو انہیں نمازکا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دو‘‘ (سنن ابو داؤد : 496)