تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     15-08-2015

مایوسی پھیلائو مہم

14 اگست کے موقع پر سوشل میڈیا سانحۂ قصور کے پس منظر میں ریاستِ پاکستان کا تمسخر اڑاتا رہا۔ انصاف کی عدم فراہمی، بے روزگاری، کرپشن سمیت وہ مسائل جو ایک عام آدمی بالخصوص نوجوان طبقے کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ ایک صاحب نے یہ بیان (Status)جاری کیا: ''امریکہ کے غلاموں کو برطانیہ سے آزادی مبارک ہو‘‘۔ کچھ صاحبان سانحۂ قصور کا موازنہ پشاور آرمی پبلک سکول سے کرتے اور اس بات پر سیخ پا ہوتے رہے کہ جنرل راحیل شریف نے فوجیوں کے بچوں کے لیے تو اقدام کیا‘{ لیکن قصور میں سویلین بچوں پر وہ خاموش رہے۔ دل چاہا کہ سر پیٹ لوں۔ ایک طرف یہ انتہا ہے تو دوسری طرف جسٹس طارق محمود اور علی احمد کرد فوجی عدالتوں کے خلاف مورچہ زن ہیں کہ ان سے بنیادی انسانی حقوق کو خطرہ لاحق ہے۔ تیسری طرف بعض اربابِ عقل و دانش کا مطالبہ یہ ہے کہ قصور کا معاملہ فوجی عدالت میں بھیجا جائے۔ چوتھی طرف پنجاب حکومت جوڈیشل کمیشن کی درخواست بغل میں دبائے پھرتی رہی۔ 
دل چاہا کہ آرمی پبلک سکول اور سانحۂ قصور کا بھونڈا موازنہ کرنے والوں سے گزارش کروں کہ آرمی پبلک سکول فوج کے زیرِ انتظام تھا، وہاں دہشت گرد گھس آئے تھے۔ ظاہر ہے کہ فوج ہی نے ان سے نمٹنا تھا۔ قصور جیسے واقعات کی تفتیش اگر فوج کے سپرد کرنا ہے تو تھانے بند کر دینے چاہئیں یا وہاں میجر اور کرنل رینک کے افسر بٹھا دینے چاہئیں۔ عدالت، حکومت اور الیکشن کمیشن کا بوریا بستر لپیٹ کر سبھی کچھ فوج کے سپرد کر دینا چاہیے۔ اس کے بعد سٹیٹ بینک سمیت معاشی امور بھی اسی کو سونپ دیں۔ نیب سمیت احتساب کے ادارے بھی۔ خود ہمیں تنبو لگا کر سو جانا چاہیے۔ اللہ کے بندو، فوج کا کام سرحد کی حفاظت ہے۔ اگر وہ افغان اور بھارتی سرحد پہ چوکیداری کے ساتھ ساتھ کراچی، بلوچستان، فاٹا اور ملک بھر میں دہشت گردی سے نمٹ رہی ہے تو ملک بچانے کی خاطر سول اداروں پر وہ احسان کر رہی ہے۔ اس پر بھی ''ھل من مزید‘‘ کے نعرے؟ 
مایوسی بانٹنے والے کن بنیادوں پر پاکستان کو ناکام ریاست قرار دے رہے ہیں، میری سمجھ سے یہ بالاتر ہے۔ کیا پاکستان دنیا کا واحد ملک نہیں‘ جو اس درجے کی خطرناک گوریلا جنگ سے سلامت گزر رہا ہے۔ کیا 2009ء کے سوات آپریشن سے قبل عالمی میڈیا اسلام آباد پر طالبان کے قبضے اور جوہری ہتھیار ان کے ہاتھ لگنے کا خدشہ بلند آہنگ سے ظاہر نہ کر رہا تھا۔ کیا سوات، جنوبی اور شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد دہشت گردی میں خاطرخواہ کمی نہیں آئی؟ کیا کراچی کے حالات اب بہت بہتر نہیں؟ کیا بلوچستان میں آج چار سو فراریوں نے ہتھیار نہیں ڈالے؟ کیا ایران اور قطر سے گیس درآمد اور چین کی طرف سے بجلی منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کے بعد چند برس میں توانائی بحران حل ہوتا نظر نہیں آرہا؟ بلوچستان 
اور ملک بھر میں تیزی سے سڑکوں کی تعمیر جاری ہے۔ معاشی راہداری منصوبے کی صورت میں جو انفراسٹرکچر تعمیر ہو رہا ہے، اس سے معیشت میں بہتری شریف حکومت کا کارنامہ نہیں بلکہ عالمی حالات میں تبدیلی کا مرہونِ منت ہوگا۔ چین نے اپنے پائوں پھیلانے کا فیصلہ کیا ہے اور اسے گوادر کے ذریعے بڑی معاشی سرگرمیاںکرنی ہیں۔ یہ سب مثبت نکات ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟
''امریکہ کے غلاموں کو برطانیہ سے آزادی مبارک ہو‘‘۔ ذرا غور کیجیے، زہر میں بجھے ہوئے ان الفاظ میں جو مادرِ وطن کے لیے بے دردی بلکہ بے حیائی سے برتے جا رہے ہیں۔ کیا امریکہ برطانیہ کا غلام نہیں تھا؟ کیا 1861ء سے 1865ء کے درمیان شمالی اور جنوبی ریاستوں میں بدترین خانہ جنگی سے چھ لاکھ امریکی قتل نہ ہوئے اور وہ بھی آزادی کے ایک صدی بعد؟ کیا دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی اور جاپان مکمل طور پر تباہ نہ ہو گئے تھے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ کہ کیا ستر سالہ پاکستان کا موازنہ سیکڑوں برس کی تاریخ رکھنے والی عالمی قوتوں سے ہونا چاہیے؟ 
سانحۂ قصور پولیس اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔ کیا ہمیں بین ڈالنے پر اکتفا کرنا چاہیے یا ان اداروں کی تعمیر، انہیں سیاسی رسوخ سے آزاد کرانے، تقرریاں اور تبادلے میرٹ پر کرانے کے لیے تحریک چلانی چاہیے؟ قوم جب یکسو ہوئی اور اس نے جدوجہد کی تو پاکستان بن گیا۔ جب اس نے فیصلہ کیا اور میدان میں نکلی تو عدلیہ بحال ہوئی۔ اب وہ حکومت کی باجگزار نہیں۔ میڈیا نے ٹھوکریں کھائیں لیکن اب اس کا جو فرزند سچ بولنا چاہے، اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ 
بے روزگاری نوجوانوں میں مایوسی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یہاں میں اپنی ذاتی روداد بیان کرتا ہوں۔ ماسٹرز کرنے کے بعد کچھ عرصہ میں نے ایک بینک میں معمولی سی نوکری کی۔ اس کے بعد کپڑوں کا کاروبار کرنے کی کوشش۔ میڈیا میں آنے کے بعد جب میں نے دیکھا کہ اخراجات زیادہ ہیں تو بکروں کا فارم بنایا۔ چار ماہ پہلے جو ایک بکری اور اس کے دو بچے صرف پچیس ہزار میں خریدے تھے، وہ اب بڑے ہو رہے ہیں۔ چند ماہ بعد ان کی تعداد تین سے بڑھ کر چار یا پانچ ہونے والی ہے۔ اس طرح اگلی بڑی عید تک یہ پچیس ہزار روپے ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں تبدیل ہو چکے ہوں گے۔ ایک بھینس جو آپ ڈیڑھ لاکھ میں خریدتے ہیں، دو سال بعد اس کے بچھڑے کی قیمت بھی ڈیڑھ لاکھ ہوتی ہے۔ دودھ کی آمدن اس کے علاوہ۔ سفارش نہ ہونے کی وجہ سے ملازمت نہ ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہتھیار ڈال دیں۔ جو آگے بڑھنا چاہے اور اس کے لیے جدوجہد کرے، اس کے لیے بہت سے راستے کھلے ہیں۔ 
ایسے لوگوں سے بھی میرا واسطہ پڑا جو انتہائی حد تک مالی مشکلا ت کا شکار تھے۔ جب کوئی موقع میسر آیا تو بے نیازی سے منہ موڑ لیا کہ بھائی صاحب، یہ کام ہمارے مزاج کا نہیں۔ ایک پلمبر، جس نے ساری زندگی محنت مزدوری کرکے اپنے بیٹے کو گریجوایشن تک پڑھایا تھا اور جسے اردو کمپوزنگ بھی آتی تھی، اسے میں نے کہا کہ میرے گھر ڈرائیور اورکمپوزر دونوں کا کام کر لو، تمہیں بیس پچیس ہزار روپے ماہانہ مل جائیں گے۔ بعد میں تنخواہ بڑھ بھی جائے گی۔ اس کے گھر میں فاقوں کی نوبت تھی۔ اس کا باپ امید بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہا لیکن فرزندِ عالی مقام کا جواب یہ تھا کہ یہ کام مجھے پسند نہیں۔ بعد میں وہ لیبیا جا کر محنت مزدوری کرنے کے لیے پیسے اکٹھے کرتا پھر رہا تھا۔ ایک غریب آدمی بچپن سے مرگی کا مریض تھا۔ ڈاکٹر ملک حسین مبشر سے علاج کے بعد وہ تندرست ہوا تو میں نے گوشت کی دکان کھلوانے کی پیشکش کی۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے جواب یہ دیا کہ اس کام میں نقصان ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ نقصان میرا ہو گا، تمہیں کس بات کی پریشانی ہے۔ پھر اندازہ ہوا کہ وہ کام کرنا ہی نہیں چاہتا۔ دبئی یا برطانیہ جا کر ہمیں گوشت کاٹنے یا ٹیکسی چلانے میں کوئی شرم نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ریاست نہیں، ہم خود ذمہ دار ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved