تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     16-08-2015

قربانی کا بکرا

مشاہد اللہ خان دبنگ آدمی ہیں اور ان کی عمومی شہرت یا وہ گو کی نہیں۔ کہہ مکرنی کے عادی بھی نہیں‘ لہٰذا باز پرس ان سے صرف اس بات پر ہو سکتی تھی کہ انہوں نے راز کی بات بھری بزم میں کہہ دی۔ مشاہد اللہ خا ںجس مزاج کے ہیں فوراً کہہ دیتے ؎
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
مگر انہیں قربانی کا بکرا بننا پڑا۔
دنیا نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے مشاہد اللہ خان اپنے انٹرویو سے مکرے نہیں البتہ جنرل (ر) ظہیر الاسلام کے حوالے سے بیان کی گئی سازشی کہانی کو سنی سنائی باتوں پر مبنی قرار دیا۔ تیسری بار حکومت سنبھالنے والے میاں نواز شریف کی کابینہ میں یہ واحد وزیرتو نہ تھے جنہوں نے سنی سنائی باتوں کو ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے سامنے دہرایا‘ ہر گزنہیں سوچا کہ اس کے ملکی سیاسی حالات‘ سول ملٹری تعلقات اور آپریشن ضرب عضب میں مصروف فوج‘ آئی ایس آئی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ 
مشاہد اللہ خان نے جو کہانی بیان کی وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف ایک ہفتہ قبل دو ٹی وی انٹرویو ز میں اس طرف اشارہ کر چکے ہیں ۔ پچھلے سال ستمبر میں میاں نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھی اپنے قابل اعتماد صحافی دوستوں کو اس بارے میں بذات خود آف دی ریکارڈ آگاہ کر چکے ہیں۔ باخبر صحافیوں میں سے کسی کو مشاہد اللہ کی باتوں میں نیا پن نظر نہیں آیا۔ ہاں البتہ ٹیپ کا قصہ بنفسہٖ کتنا سچا اور قابل اعتماد اطلاعات پر مبنی ہے؟ ایوان وزیر اعظم کے ترجمان کے علاوہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اس واقعہ کے علاوہ مبینہ ٹیپ کی موجودگی سے انکار کر کے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ان دعوئوں کی تصدیق کر دی ہے کہ ان کے لانگ مارچ اور دھرنے کو کسی بندۂ خاکی کی سرپرستی حاصل تھی نہ عمران خان اور طاہر القادری حکومت کے خلاف کسی سازش کا حصہ تھے۔
جن دنوں دھرنا جاری تھا حکومتی بھونپو اپنی مظلومیت اور عمران خان کے علاوہ اس کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ کی ظالمانہ غیر جمہوری سرگرمیوں کے حوالے سے مختلف النوع کہانیاں بیان کیا کرتے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھی۔ کہا جاتا رہا کہ چونکہ فوجی قیادت جنرل (ر) پرویز مشرف کا مواخذہ نہیں چاہتی‘ طالبان سے مذاکرات پر برہم اور ایک صحافتی ادارے کی میاں نواز شریف سے قربت کی مخالف ہے اس لیے عمران خان اور طاہر القادری کی پیٹھ ٹھونکی گئی ہے کہ وہ چائے کی پیالی میں طوفان برپا کر کے حکومت کو فوج کے تابع مہمل بنانا چاہتے ہیں۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے اگست 2014میں یہ اطلاع فراہم کی کہ وزیر اعظم نے بقول شخصے ڈی سی او کا کردار قبول کر لیا ہے اور تحریک انصاف کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔
یہ سازشی کہانی قرین قیاس یوں نظر نہیں آتی کہ اگر جنرل ظہیر الاسلام اور ان کے ساتھیوں کا اصل ہدف نواز شریف سے زیادہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف تھے تو ایم آئی نے انہیں کیوں آگاہ نہیں کیا اور اس ساری سازش کی اطلاع انہیں ایک ٹیپ کے ذریعے کیوں ملی جو آئی بی کے ہنر کا شاہکار تھی؟ کیا آرمی چیف کے ذرائع معلومات اس قدر ناقص ہوتے ہیں؟ اور کیا پاک فوج میں سازشیں اب اس قدر اعلیٰ سطح پر ہونے لگی ہیں کہ ایک تھری سٹار جنرل بھی اس میں ملوث ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم ہائوس سے اس قدر گراںقدر معلومات ملنے کے بعد آرمی چیف نے اس سازشی ٹولے سے نجات حاصل کرنے کے بجائے اگلے دو ماہ تک جنرل ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیوں کیا؟ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ فوجی قیادت نے کسی سازش اوربغاوت میں ملوث افسران کے احتساب و مواخذے سے گریز کیا ہو اور کورٹ مارشل کے بجائے باعزت ریٹائرمنٹ کی سہولت فراہم کی ہو۔ جنرل راحیل شریف کی شہرت ایک بااصول‘ دیانتدار اور پیشہ ور سپاہی کی ہے جس نے فوج میں احتساب کی قابل قدر مثال قائم کی‘ مگر میاںنواز شریف کے قریبی ساتھی یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ منتخب حکومت کے علاوہ آرمی چیف کے خلاف سازش کے مہرے کو جنرل راحیل نے محض وزیر اعظم ہائوس کی میٹنگ سے چلے جانے کو کہا۔ برطانوی روایات کی حامل پاکستانی فوج میں کیا ڈسپلن کا اب یہ عالم ہے ؟ دل ہے کہ مانتا نہیں۔
ماضی میں لیاقت علی خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے دور میں فوجی سازشیں منظر عام پر آئیں۔ تینوں مواقع پر کورٹ مارشل ہوا اورجنرل اکبر‘آفریدی اور جنرل ظہیر الاسلام عباسی ایسے جوہر قابل بیک بینی و دو گوش فوج سے نکال دیئے گئے۔ تینوں افسروں کا ملازمتی ریکارڈ بے مثل تھا۔ یہ دلیر‘ ذہین اور دیانتداری کی شہرت رکھنے والے افسر تھے مگر سازش کا حصہ بننے پر مستوجب سزا ٹھہرے۔ آئندہ بھی فوج میں ایسی کسی سازش کا پنپنا آسان ہے نہ کسی باغی‘ سازشی اور ڈسپلن توڑنے والے افسر کا سزا سے بچنا سہل۔ لہٰذا مشاہد اللہ خان نے جس سے بھی یہ سازشی تھیوری سنی وہ انتہائی درجے کا دروغ گو اور افسانہ تراشی کا عادی نظر آتا ہے۔غالباً اسی بنا پر ٹیپ راحیل شریف کو سنائی گئی تو اسے آرمی چیف نے درخوراعتنا نہیں سمجھا‘ وزیر اعظم کے احترام میں خاموش رہے اور اپنے ساتھی جرنیل کو بھی کچھ نہ کہا۔ 
اگر بالفرض اس سارے قضیے کو درست مان لیا جائے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی باسی کڑھی میں ابال اس وقت کیوں آیا جب جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد ملک میں سیاسی استحکام کی توقع کی جا رہی تھی اور فوج کے علاوہ اس کے ماتحت ادارے آئی ایس آئی و رینجرز یکسوئی کے ساتھ آپریشن ضرب عضب‘ نیشنل ایکشن پلان اور کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کا حتمی مرحلہ شروع کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے؟ انہی دنوں ایم کیو ایم ایک بار پھر متحرک کیوں ہوئی؟
مشاہد اللہ خان نے جس معاملے کی تفصیل برطانوی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں بیان کی وہ اجمالاً وفاقی وزیر دفاع کے انٹرویوز میں زیر بحث آ چکاہے۔ میاں نواز شریف سے قربت کے دعویدار کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے اس پر مشق سخن کی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی تجویز پیش کی مگر نزلہ برعضو ضعیف کے مصداق استعفیٰ مشاہد اللہ خان سے طلب کیا گیا جن کا اصل جرم یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر نہیں‘ کارکن ہیں جس کا کل اثاثہ پرویز مشرف کے دور میں دلیری سے ڈٹے رہنا اور کراچی جیسے شہر میں پرویز مشرف کی پراکسی کا مقابلہ کرنا ہے۔ غلطی مشاہد اللہ کی بھی ہے ۔ اچھا شعری ذوق رکھنے والے سینیٹر کو ''مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے ‘‘یاد نہیں رہا۔
مشاہد اللہ کے استعفیٰ سے ڈیمیج کنٹرول ہو گا یا نہیں؟ میرے خیال میںجب تک میاں صاحب اپنا انداز حکمرانی‘ طرز فکر اور حلقہ مشاورت تبدیل نہیں کرتے‘ فوج اور اس کی قیادت کے بارے میں اپنی سوچ نہیں بدلتے ‘ماضی کا اسیر رہنے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنے کی عادت نہیںاپناتے اور سول بالادستی کے نام پر ملک کے واحد منظم‘ تربیت یافتہ اور ڈسپلن کے پابند ادارے کو تابع مہمل بنانے کی خواہش پر قابو نہیں پاتے سول ملٹری تعلقات میں بہتری اور سیاسی محاذ پر قرار و استحکام ممکن نہیں۔جنرل اسلم بیگ‘ جنرل آصف نواز‘ وحید کاکٹر‘ جہانگیر کرامت اور پرویز مشرف سے میاں صاحب کی بوجوہ نہیں بنی۔ ضروری نہیں کہ قصور وار میاںصاحب ہوں مگر کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی سطح پر وہ خود یا ان کے قریبی ساتھی حالات کو بگاڑنے اور بم کو لات مارنے کے مرتکب ضرور ہوئے جس کی وجہ سے فوجی رینکس اینڈ فائل میں بدگمانی موجود رہی اور مشاہد اللہ خان کے بیان نے پرانے زخم ہرے کر دیے۔
مشاہد اللہ خان کے انٹرویو پر سیانوں کا کہنا یہ ہے کہ ایک چاول چکھ کر مسلم لیگ (ن) کی دیگ کے متنجن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینکنے کا مقصد صرف گڑے مردے اکھاڑنا نہیں‘ دبائو کا شکار فوجی قیادت سے بعض ایسی باتیں منوانا بھی ہو سکتا ہے جو عام حالات میں مشکل ہے۔ مثلاً احتساب کے دائرے کووسیع کرنے اورپنجاب آنے سے روکنا‘اپنے اتحادیوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لیے مراعات حاصل کرنا اور بھارت سے تجارت کی راہیں کھولنا وغیرہ‘ مگر یہ محض قیاس آرائیاں ہیں‘ میرے خیال میں تو سارا میلہ ٹھیلہ مشاہد اللہ کا کمبل چرانے کی سازش تھی۔ جو کامیاب رہی ؎
کیا قیامت ہے کہ خاطرؔ کشتۂ شب بھی تھے ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved