تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     16-08-2015

بالا دست کون: پارلیمنٹ یا آئین؟

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں چند دیگر مقدمات کے فیصلوں کی مانند 5 اگست کو سنایا گیا سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آئندہ کئی دہائیوں تک ملک کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں موضوع بحث بنا رہے گا کیونکہ اس فیصلے کے تحت 21 ویں آئینی ترمیم کو جائز قرار دے کر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے فوجی عدالتوں کے قیام کو درست اقدام قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل یہی سپریم کورٹ فوجی عدالتوںکو آئین سے متصادم اور بنیادی حقوق کے منافی قرار دے چکی ہے۔ لیکن اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس دلیل کا سہارا لے کر کہ پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے جس میں پارلیمنٹ ملک کے باقی تمام اداروں کے مقابلے میں بالا دست ادارہ ہوتا ہے، اس لیے اس کے فیصلے کو چیلنج نہیںکیا جا سکتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آئین میں ترمیم کا حق صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور اس کے دونوں ایوانوں کے ممبران اگر دو تہائی اکثریت سے (آرٹیکل238 کے تحت) آئین میں کو ترمیم کا فیصلہ کریں تو اسے ختم کرنے کا اختیارکسی ادارے کو حاصل نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمانی طرز حکومت اور صدارتی طرز حکومت میں سب سے اہم اور نمایاں فرق یہی ہے کہ اوّل الذکر میں پارلیمنٹ کو ریاست کے دیگر تمام اداروں پربالا دستی حاصل ہوتی ہے اوران تمام اداروں کے لیے لازم ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کی پابندی کریں۔ پارلیمانی بالادستی کا یہ تصور ‘ برطانیہ کی پارلیمنٹ سے لیا گیا ہے جسے دنیا کی تمام پارلیمان کی ماں کہا جاتا ہے۔ اس کے مطلق العنان اختیارات کا اندازہ اس قول سے کیا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ کو سوائے مرد کو عورت اور عورت کو مرد قرار دینے کے‘ باقی تمام اختیارات حاصل ہیں۔ برطانیہ میں پارلیمانی بالادستی ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہے۔ اس کی بنیاد دو بڑی حقیقتوں پر ہے۔ ایک یہ کہ برطانیہ کا آئین تحریری نہیں بلکہ عرصہ دراز سے مستعمل رسوم و رواج‘ روایات اور شاہی فرامین کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے فیصلوں پر مشتمل ہے، اس لیے پارلیمنٹ ہی مقتدر ادارہ ہے۔ برطانیہ میں عدالتوں کو پارلیمنٹ کے منظورکردہ قوانین پر نظرثانی کا اختیار حاصل نہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ ایک وفاقی نہیں بلکہ وحدانی ریاست ہے۔ وہاں حکومت کا ایک ہی لیول ہے اور وہ ہے مرکزی حکومت جس کی سربراہی ایک ایسے شخص کے پاس ہوتی ہے جو بیک وقت کابینہ کا سربراہ یعنی وزیر اعظم اور قائد ایوان بھی ہوتا ہے۔
پاکستان اور بھارت نے آزادی حاصل کی تو دونوں نے پارلیمانی جمہوری طرزحکومت کو اپنایا۔ لیکن دونوں ملک وفاقی ریاستیں بھی تھیں۔ اس کی بنیاد 1935ء ایکٹ کی صورت میں رکھی گئی تھی۔ 1935ء کا ایکٹ برطانوی پارلیمنٹ کا منظورکردہ تھا؛ تاہم اس کی تشکیل میں برطانیہ اور ہندوستان کے بہترین لیگ مائنڈ جن میں قائد اعظم ‘ علامہ اقبال‘ علی برادران اور موتی لال نہرو بھی شامل تھے کی خدمات شامل تھیں، اس لیے پاکستان اور بھارت دونوں نے چند ضروری ترامیم کے ساتھ اپنی آزاد سیاسی زندگی کے سفر کا آغاز1935ء کے ایکٹ کو عبوری آئین کے طور پر اختیار کر کے کیا تھا۔ بھارت کے موجودہ آئین کے خالق ڈاکٹر امبیدکر نے جب بھارت کی آئینی اسمبلی میں دستوری مسودہ بحث کے لیے پیش کیا تو انہوں نے تقریر میں برملا اعتراف کیا تھا کہ یہ دستوری مسودہ 95 فیصد1935ء کے ایکٹ پر مبنی ہے۔ پاکستان کی کہانی بھی اس سے 
مختلف نہ تھی۔ پاکستان کا عبوری آئین(1947-1954ء) دراصل چند ایک تبدیلیوں کے ساتھ ہوبہو 1935ء کا ایکٹ تھا۔ وفاقی ڈھانچہ ‘ عدلیہ کا نظام اور اس کی آزادی‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل‘ اختیارات اور فرائض کے بارے میں جو دفعات 1935ء کے ایکٹ میں درج تھیں ‘ پاکستان کے نہ صرف عبوری آئین (1947-1954ء) بلکہ اس کے بعد بھی تشکیل دیے جانے والے آئین(1956اور 1973ء) میں ان دفعات کو تقریباً ان کی اصلی شکل میں اختیار کیا گیا تھا۔ صرف 1962ء کے آئین میں پارلیمانی جمہوریت کو ترک کر کے صدارتی طرز حکومت اختیار کیا گیا تھا۔ لیکن یہ آئین کسی آئین ساز اسمبلی کی پیداوار نہیں تھا بلکہ ایک فرد واحد کی طرف سے قوم پر مسلط کیا گیا تھا‘ جسے عوام نے موقع ملتے ہی 1969ء میں مسترد کر دیا۔ اس کے بعد 1970ء کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی نے جو آئین تشکیل دیا اس کی بنیاد انہی اصولوں پر مبنی بنیادی ڈھانچے یعنی پارلیمانی جمہوریت‘ وفاقی ریاست اور آزاد عدلیہ پر رکھی گئی تھی‘ جن کو سب سے پہلے 1935ء کے ایکٹ میں بیان کیا گیا تھا۔ اس لیے سپریم کورٹ نے اگر پارلیمانی طرز حکومت اور آزاد عدلیہ کو پاکستان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے دو نمایاں خد وخال قرار دیا ہے تو بالکل درست قرار دیا ہے، صرف ایک کا نام نہیں دیا گیا، یعنی وفاقیت جسے باقاعدہ طور پر ہندوستان میں سب سے پہلے 1935ء کے ایکٹ کے تحت متعارف کروایا گیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستانی آئین کے بنیادی ڈھانچے کے نمایاں خد وخال کی نشاندہی کرتے ہوئے قرارداد مقاصد کا حوالہ دیا ہے؛ حالانکہ پاکستان کے موجودہ آئین کو بنیادی ڈھانچہ قرارداد مقاصد نے نہیں بلکہ 1935ء کے ایکٹ نے فراہم کیا تھا۔ قرارداد مقاصد نے اسی ڈھانچے کو اپناتے ہوئے اس میں چند نئے تصورات شامل کرنے کی کوشش کی جن کی حیثیت ابھی تک متنازع ہے(تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سابق چیف جسٹس محمد منیر کی کتاب''جناح سے ضیاء تک‘‘۔ اس کتاب میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر قائد اعظم زندہ ہوتے تو قرارداد مقاصد کو اس کی موجودہ شکل میں کبھی منظور نہ ہونے دیتے۔) اس لیے سپریم کورٹ کو پاکستان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حوالہ دیتے وقت قرارداد مقاصد نہیں بلکہ 1935ء کے ایکٹ کاحوالہ دینا چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین اور پارلیمنٹ کے درمیان بالادستی کے تنازع پر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں بھی خوب بحث ہوتی رہی۔ سابق چیف جسٹس پارلیمنٹ کو ایک مقتدر ادارہ تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اپنی متعدد تقریروں اور بیانات میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ پارلیمنٹ آئین سے بالاتر نہیں بلکہ پارلیمنٹ آئین کے تابع ہے اور چونکہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے منظورکردہ تمام قوانین کی عدالتی نظر(Judicial Review)کا حق حاصل ہے اسی لیے عدلیہ یعنی سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے منظورکردہ کسی قانون، اگر وہ سپریم کورٹ کی نظرمیں آئین سے متصادم ہے، کو کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔ اپنے اس اختیارکو سپریم کورٹ نے عملی شکل دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے سے قبل نہ صرف جوڈیشل حلقوں بلکہ میڈیا میں بھی غالب بیانیہ یہی تھا کہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ آئین بالاتر ہے اور سپریم کورٹ آئینی نظرثانی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے کسی فیصلے، جن میں آئینی ترمیم بھی شامل ہو تو اس بنیاد پر کالعدم قرار دے سکتی ہے کہ یہ فیصلہ یا ترمیم سپریم کورٹ کی آئینی تشریح کے مطابق آئین سے متصادم ہے۔
لیکن5 اگست کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر 21 ویں ترمیم یعنی فوجی عدالتوں کے قیام کو بحال رکھا ہے کہ عدالت عظمیٰ پارلیمنٹ کے کسی اقدام ،جس میں آئینی ترمیم بھی شامل ہے کو اس وقت تک چیلنج نہیں کر سکتی جب تک یہ اقدام آئین کے بنیادی ڈھانچے کے نمایاں خد وخال یعنی پارلیمانی طرز حکومت اور عدلیہ کی آزادی سے متصادم نہ ہو۔ بہت سے حلقے جن میں بین الاقوامی ادارے بھی شامل ہیں، اس شک کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیا ہماری عدلیہ واقعی آزاد ہے یا سیاسی اداروں کی طرح دبائو میں آ کر مصلحت سے کام لے رہی ہے؟ کیونکہ فوجی عدالتوں کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ جمہوری نظام میں فوجی عدالتوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے لیگ برادری کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ملک کی سیاست پر اس کا کیا اثر پڑے گا، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved