کسی چھوٹے یا بڑے سیاستدان کی بیوی غیر سیا سی ہو سکتی ہے؟ یہ سوال اگر عمران خان پر مہربان کسی اینکر یا صحافی سے ریحام خان کے حوالے سے پوچھا جائے تو وہ کہے گا کہ بالکل نہیں ، کیونکہ عمران خان تو کہتا ہے کہ وہ موروثی سیا ست کے خلاف ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار تو ایک طرف، کونسلر کی نشست کے امیدوار کے اہل خانہ بھی گھر گھر جا کر اس کی کامیابی کے لیے ووٹ مانگتے دیکھے جا سکتے جاتے ہیں۔ تو پھر ریحام خان کے ہری پور کے حلقہ این اے 19 میں تحریک انصاف کے امیدوارکی انتخابی مہم میں حصہ لینے پر انگلیاں کیوں اٹھائی جا رہی ہیں؟ْ ہمارے بہت سے شریف و متین دوست اپنے پروگراموں میں لٹھ چلائے جا رہے ہیں کہ عمران خان تو کہتا تھا کہ وہ موروثی سیا ست نہیں کرے گا، اب ریحام خان کیا کر رہی ہیں؟ ایسا کہنے والے عمران خان کے وہ ٹی وی انٹرویو نہ جانے کیوں بھول گئے جس میں انہوں نے صاف اور کھل کر کہا تھا کہ اگر ریحام سیا سی ذہن کی مالک نہ ہوتی تو وہ ان سے شادی نہ کرتے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے ریحام سے شادی اس لیے کی ہے کہ وہ بھر پور سیا سی سوجھ بوجھ کی مالک ہے۔کیا ہمارے صحافی اور اینکر اس حقیقت سے انکار کریں گے کہ اس کا ذہن سیا سی نہیں ہے؟ اگر ایک اینکرسیا سی ہو سکتا ہے تو دوسرا کیوں نہیں؟ آپ عمران خان کو رگڑا ضرور لگائیں لیکن اتنا خیال ضرور کریں کہ عمران خان خود کہتے رہے ہیں کہ انہوں نے ریحام سے شادی اس لیے کی کہ وہ سیا سی ذہن رکھتی ہیں۔
ہری پور میں قومی اسمبلی کی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ نواز کے امیدوار کی انتخابی مہم کی نگرانی اور حلقے میں انتخابی جلسوں میں شرکت کے لیے وزیر اعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری آصف کرمانی اور وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید بھی دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔ 9 اگست کے انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آصف کرمانی نے فرمایا کہ خیبر پختونخوا سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور عمران خان آرام فرما رہے ہیں۔ جب وہ یہ سب فرما چکے تو ٹی وی چینلز پر لیہ، سیالکوٹ اور راجن پور سمیت تونسہ کے ارد گرد سیلاب سے تباہ حال لوگوں کو دکھایا جا رہا تھا جو سڑکوں کے کنارے کھلے آسمان تلے بے یار و مدد گار پڑے تھے اور ان کے ارد گرد سانپ اور بچھو گھوم رہے تھے۔ آصف کرمانی کے بعد وفاقی وزیر پرویز رشید صاحب کا زور خطابت دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ عمران خان پر بھر پور حملہ کرتے ہوئے للکار رہے تھے کہ عمران خان! ہم نے تمہیں معاف توکر دیا ہے لیکن تمہارے جرائم کبھی بھی نہیں بھولیں گے۔
گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ان جرائم کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ ایک ایک کر کے گنوائے جائیں تو نہ جانے کتنے دن لگ جائیں، لیکن اس وقت جلسے میں چونکہ وقت کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے اس لئے چند ایک پر ہی گزارہ کر رہا ہوں۔۔۔۔۔ ورنہ ''کہاں تک سنو گے،کہاں تک سنائوں‘‘ والا معاملہ ہے۔ وزیر با تدبیر حاضرین جلسہ کو گواہ بناتے ہوئے جو کچھ فرماتے اسے ہمارے تصور نے مجتمع کیا تو کچھ یہ تصویر بنی :
ہم نہایت آرام اور سکون سے کبھی سوتے ہوئے، کبھی اونگھتے ہوئے اور پھر وقفے وقفے سے جاگتے ہوئے پنجاب میں حکومت اور مر کز میں اپوزیشن کے مزے لے رہے تھے کہ یک دم 30 اکتوبر کو تین لاکھ سے بھی زیا دہ لوگوں کا نعرے مارتا ہوا مجمع ہمارے سامنے کھڑا کرتے ہوئے تم نے ہمارے سکون کو برباد کر دیا ۔ ہم نے تمہارے جلسے کی اہمیت کم کرنے کی بہت کوشش کی، ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا، تمہاری کردار کشی کرتے ہوئے ہم نے کوئی کسر نہ چھوڑی، اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھی اپنے نشانے پر لئے رکھا کہ مینار پاکستان کا جلسہ انہی کی مدد اور بھیجے گئے لوگوں کی وجہ سے کامیاب ہوا، لیکن ہماری بد قسمتی کہ ہر وہ بات جو ہم نے اس جلسے کا اثر کم کرنے کے لیے پھیلائی بے اثر ثابے ہوئی بلکہ ان کا الٹا یہ اثر ہوا
کہ لوگ پہلے سے بھی زیادہ تمہارے گرد اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔ ہماری سب تدبیریں ہوا میں بکھرگئیں۔ ہم سے جو بہت بڑی غلطی ہوئی وہ یہ تھی کہ 29 اکتوبرکو ہم ناصر باغ سے بھاٹی چوک تک ایک ریلی اور جلسے کا انتظام کر بیٹھے جس سے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے خطاب کیا۔ مسلم لیگ نوازکی اس ''حا ضری‘‘ کو میڈیا نے جس طرح دکھایا ہم اس کا دکھ نہیں بھولے تھے کہ ایک دن بعد تم نے مینار پاکستان کے سائے تلے ایک بار پھر لاکھوں افراد جمع کرکے ہم پر لٹھ برسا دی۔ ہمارے لیے اس جلسے کی سب سے زیا دہ پریشان کن بات یہ تھی کہ اس میں دو لاکھ کے قریب نوجوان شریک تھے۔ اب پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا، لہٰذا ہم سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس کا کیا علاج کیا جائے اور ان نوجوانوں کو کس طرح اپنے ساتھ ملایا جائے؟ اس کے لیے ہم نے گھر گھر جا کر ایک ایک نو جوان کو منتیں کرتے ہوئے مفت لیپ ٹاپ
دینے شروع کیے ۔صرف یہیں بات ختم نہیں ہوتی، ابھی ہم لیپ ٹاپ دینے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ عمران خان کی جماعت کی جانب سے لاہور جیسے جلسوں کا سلسلہ ملک کے ہر شہر اور تحصیل میں شروع ہو گیا جو ہمارے لیے پہلے سے بھی بڑا درد سر بن گیا۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ کالج اور یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کو ان کی اب تک کی ادا کی گئی اور مستقبل میں ادا کی جانے والی فیسیں دینی شروع کر دیں۔ اس کے علاوہ نوجوان طالب علموں کو سرکاری خرچ پر بیرون ملک سیر و تفریح کے لیے بھیجنا شروع کر دیا، لیکن مرض بڑھتا گیا جوںجوں دوا کی! ہم نے خلوص دل سے پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری سے پیار اور محبت کا جو سلسلہ لندن سے شروع کیا تھا، اسے کچھ دیر کے لیے توڑتے ہوئے ہم نے زرداری صاحب کو الٹا لٹکانے کی باتیں کیں، اس کے لیڈروں کو لاڑکانہ اور راولپنڈی کی سڑکوں پرگھسیٹنے کے نعرے لگائے، لیکن نہ جانے عمران خان نے کیا کر دیا کہ کوئی بھی ہماری اس اداکاری کے فریب میں نہ آیا۔ کیا عمران خان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کا یہ جرم معاف کر دیں جس میں ہمیں زرداری صاحب کی شان میں گستاخیاں کرنا پڑیں؟ عمران خان ! ہمیںجو ڈیشل کمیشن نے بچا لیا ورنہ تمہارا یہ گناہ تو ہم قیامت تک نہ بھول پاتے۔
کیا اوپر بیان کی گئی تخیلاتی کہانی آپ کو حقیقی نہیں لگ رہی؟ ذرا سوچیے۔