تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     17-08-2015

ملک کے مفاد میں

قومی اسمبلی کے سپیکر ایازصادق صاحب نے ملک کے مفاد میں فیصلہ کیا توکیا وزارتِ داخلہ ملکی مفاد کے خلاف لگی ہوئی تھی؟ملک کے مفاد میں اس سے پہلے بھی بہت فیصلے ہوئے۔ تھوڑی سی تفصیل دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ایازصادق نے پاکستان کے عین مفاد میں لندن'' فون پلان‘‘ والی کال کی۔ ان کی نیت پر شک نہیں لیکن حکومت نے سپیکر کی پوزیشن خراب کر دی۔ مِڈ نائٹ کال کے بعد ان کی اپنی حکومت کی وزارتِ داخلہ نے بھی ملکی مفاد میں فیصلہ کر ڈالا۔ سپیکر اور وزارت داخلہ کا''ملک‘‘ ایک ہے مگر اس ملک کا ''مفاد‘‘ دو گھوڑوں کی مانند ہے، جن کی دُم آپس میں باندھ کر انہیں ایک ہی طرف دوڑنے کی ڈکٹیشن دی گئی۔ حکومت نے لندن میں بیٹھے ہوئے محبوب رہنما کے خلاف پاکستان مخالف جنگ کا اہتمام کرنے کے الزام میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا۔ سپیکر کی''کال کہانی‘‘جلد کھلنے والی ہے۔
نواز حکومت نے بے شمار فیصلے''ملکی مفاد‘‘میں کیے۔ مثال کے طور پر وزیراعظم نے ملک کے دفاعی اداروں کے ساتھ بہترین تعلقات کار پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ملکی مفاد میں جمہوریت کے''انڈے بچّے‘‘ پھل پھول سکیں۔۔۔۔۔ پاکستان سے ترکی، برازیل، دبئی، قطر، سعودی عرب، برطانیہ اورامریکہ تک۔
عظیم الشان فیصلے پر عملدرآمد کے لیے نون کابینہ میدان میںاُتری۔ سب سے پہلے دفاع کے''ایڈہاک وزیر‘‘ نے دو جرنیلوںکے خلاف ثبوت پیش کرنے کا اعلان کیا جو فوج کے اہم ترین ادارے کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ پھر وزارتِ 'انسدادِ منصوبہ بندی‘ کے انچارج نے کہا، سارے حالات فوجی خراب کرتے آئے ہیں۔ آج کل ان کی وجہ شہرت میٹرو بس کے ساتھ''گھنے جنگلات‘‘ اُگانے کا ٹھیکہ ہے جو انہوں نے 100فیصد سی ڈی اے سے میرٹ پر اپنی گھریلوکمپنی کو دلوایا۔ پھر الزامات کی ٹرین چل پڑی۔ خانیوال سے آگے سرائیکی علاقے میں ایک ناکارہ انجن کو رنگ روغن کیا گیا اور انجن نے گلے سڑے کوئلے کا زہریلا دھواں پھک پھک اور چھک چھک کر کے اگلنا شروع کر دیا۔ خبر ہے کہ بہت جلد یہ انجن کھانستا ہوا ایوانِ بالا میں داخل ہو جائے گا۔ دھوئیں سے یاد آیا ساہیوال سے شروع کرکے پنجاب کے ہر ڈویثرن میں حکومت نے قومی مفاد میں عوام کو مفت دھواں سپلائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکمرانوں کا خیال ہے کہ ووٹروںکا انجن دھواںمار چکا ہے، اس لیے کوئلے سے دھواں بنانے والی فیکٹریوں کا کام زوروں پر ہے۔ حکومت نے ڈھائی سال کے عرصے میں جن دھواں دار کمپنیوں کے ذریعے سے بجلی پیدا کرنے کا اعلان کیا تھا وہ ابھی تک دھوئیں سے مرغولے بنا رہی ہیں، بجلی بنانے جیسی فضول خرچی پر آمادہ نہیں۔ پنجاب کے لوڈشیڈنگ متاثرین دھوئیں سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ وزیر اعلیٰ نے ہوائی بجلی کی مشین منگوانے کا فیصلہ کر لیا۔ صرف چند ہزار ارب کے معمولی خرچے سے ہوائی بجلی کی جو مشین منگوائی جا رہی ہے وہ ان علاقوںکا علاج کرے گی جنہیں بجلی کی''ہوائی بادی‘‘ ہے۔ عوام کو پنجاب کی کشمیری حکومت دیکھ کر کبھی شریف برادران یاد نہیں آئے، ہمیشہ رائٹ برادران یاد آتے ہیں جنہوں نے شیخ چلی کے700 سال بعد پہلے سائیکل کو پَر لگا کر اڑنے کی کوشش کی، پھر اپنی دُم والی جگہ پر اڑنے کے لیے پَر لگائے، دونوںبازؤںکو پھیلا کرپہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ لگا دی۔ آج کل انہی کی کوششوں سے دنیا ہوائی جہاز پر بیٹھتی ہے۔
ڈھائی سال میں شریف برادران نے ملک میں ایسی انرجی پالیسی نافذکی جسے دیکھ کر یقین کر لیں، بہت جلد ملک کے آدھے عوام آسمان پر اڑ تے ہوئے دھواں چھوڑا کریں گے۔ پنجاب کی زراعت، ذخیرہ کردہ چاول کے ایکسپورٹرز، دھواں چھوڑنے کی سٹیج سے آگے گزر گئے۔ بے روزگاری کے لیے لیپ ٹاپ، بھوکوں کے لیے جنگلہ، محنت کشوں کے لیے سریا پالیسی نے جس تیزی سے غربت کا خاتمہ کیا وہ ملکی مفاد کے عین مطابق ہے۔
کچھ دن پہلے پنجاب کے خادم اول، دوئم، سوئم، چہارم ، پنجم اور ششم نے مشترکہ عزم ظاہر کیا کہ صوبے میں جعلی دوائیاں ''بنانے‘‘ والوں کو نہیں چھوڑیںگے۔ جعلی دوائیاں بنانے والے ملک کے مفادکو نہیں سمجھتے۔ ہمارے پنج، چھ پیاروں نے ملکی مفاد کے عین مطابق جعلی دوائیاں''بیچنے‘‘ والوں کے خلاف مہم چلانے کا اعلان نہیںکیا، اس لیے کہ پنجاب کے بڑے ہسپتالوں میں جعلی دوائیوں کے ٹھیکے ہرکسی کو نہیں ملتے۔ پچھلے 30 سال کا ریکارڈ دیکھ لیں، یہ ٹھیکدار کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا نہیں۔ ملکی مفاد پالیسی کا نتیجہ تھا کہ پنجاب میں دل کے مریضوں کی جعلی دوائی بنانے والا کوئی نہیں پکڑا گیا۔ یہ دوائی فروخت کرنے والے چند گالیاں اور ایک آدھ دھکاکھا کر ملکی مفاد کے تحت فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی طرح بچوں کی کھانسی کا زہریلا سیرپ بیچنے والے نہیں پکڑے گئے نہ ہی سیرپ اور دل کے مریضوں کی جان نکالنے والے ٹھیکیداروں کے خلاف کارروائی ہوئی۔ ظاہر ہے، یہ فیصلہ پنجاب سرکار نے کرنا تھا، ملکی مفاد کہاں ہے؟
ان وارداتوں اور سرکاری پالیسی کو دیکھ کرآپ کو جیب کتروںکا ملکی مفاد والا پُرانا طریقہ یاد آئے گا۔ چاند رات کے دنوں میں یہ لطیفہ ہر بڑے بازار میں دہرایا جاتا ہے جب کوئی جیب کترا جیب کاٹنے کے بعد بٹوے سمیت پکڑا جائے تو اس کے گینگ کا سب سے معزز شکل والا آدمی ہیروکے طور پر سامنے آتا ہے۔ جیب کترے کو دو چار گندی گالیاںدیتے ہوئے 6,5 تھپڑ مارتا ہے۔ پھر جیب کترے کو پکڑنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ پولیس پہنچ گئی ہے۔ پھر وہ معززآدمی غصے میں آجاتا ہے اور تھپڑ مارتے مارتے جیب کترے کی پُشت پر لات دے مارتا ہے۔ اس طرح جیب کترا لوگوں کے گھیرے سے نکل کر کھلی جگہ پہنچ جاتا ہے اور معزز آدمی مزید غصے میں اسے جُوتا ماردیتا ہے۔ یہ جُوتا ملکی مفاد کے عین مطابق جیب کترے کو نہیں لگتا بلکہ اُسے لگتا ہے جس کی جیب کٹ جائے۔ اس طرح جیب کترا ملک کے عین مفاد میں وہاں سے بچ کر اگلی جیب کاٹنے کے مشن پر روانہ ہو جاتا ہے۔ 
مصدقہ اطلاع کے مطابق معتبر وزیروں کے ایک گروپ کی میٹنگ میں وزیراعظم نے چاہاکہ ایک بڑا وزیر لندن فون کرے اور اسے سیاسی مفاہمت پر راضی کرے جو بھارت سے کہتا ہے، بزدلو ! اب پاکستان پر حملہ کر بھی دو۔ اس عظیم مفاہمتی پیش کش پر بڑے وزیرصاحب فون کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے، کھل کر کہہ دیا میں باقی سب کچھ کر سکتا ہوں، غدار کہلانا پسند نہیں کرتا۔ یوں فون کرنے کے لیے سپیکرکو دھکا دیا گیا۔
ظاہر ہے جو ملکی مفاد میں دھکا کھانے کے لیے تیار ہو، دھکا اسے ہی پڑتا ہے۔ سپیکر کو دوسرا دھکا بھی پڑنے والا ہے، مشاہداللہ کی طرح جس کے نام پر بی بی سی کو 14اگست کے دن فوج کے خلاف''خبر لیک‘‘ کی گئی۔۔۔۔عین ملک کے مفاد میں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved