بیوقوفی اور دلیری کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جو جتنا زیادہ بیوقوف ہوگا وہ اتنی ہی دلیری سے کام لے گا جبکہ عقلمند پھونک پھونک کر قدم رکھتا‘ آنکھیں اور کان کھلے رکھتا اور اس بات سے آگاہ رہنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے کہے یا لکھے ہوئے پر لوگ کیا کہیں گے۔ ہم وجودیت اور تحسینِ باہمی کے اس زمانے میں سچی بات بے دھڑک ہو کر ہی کہی جا سکتی ہے اور یہ سب کچھ آپ کی بیوقوفی کی مقدار پر منحصر ہے یعنی جتنا گُڑ ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہوگا۔ اور ظاہر ہے کہ بیوقوف آدمی نتائج و عواقب کی پروا نہیں کرتا چنانچہ بڑی مستقل مزاجی سے اپنے مخالفوں اور دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔
تاہم دیوانہ 'بکارِ خویش ہشیار‘ کے مصداق وہ اپنی بیوقوفی کا اعلان تو نہیں کرتا لیکن اس کے لیے اس کا کہا اور لکھا ہوا ہی کافی ہوتا ہے۔ البتہ اگر وہ اس کا اعلان بھی کر دے تو سمجھیے کہ بیوقوفی ماشاء اللہ نقطۂ عروج تک پہنچ گئی ہے حالانکہ اعلان کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی‘ جبکہ اپنی کم عقلی کے باوجود وہ خود کو پہنچنے والے نقصان سے بھی بے خبر نہیں ہوتا لیکن عادت سے مجبور ہے کہ یہ مجبوری کسی سے کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ چنانچہ اس ناعاقبت اندیشی کی سب سے بڑی مثال میں خود ہوں۔ میں نے اپنے ایک کالم میں بھارتی شاعر فرحت احساس کی تعریف کی تو اس کا فون آیا کہ آپ کی تحریر سے سارا بھارت میرے اور آپ کے خلاف ہو گیا ہے!
صرف یہی بات نہیں‘ اگر کسی کی تعریف نہ کریں تو بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے اور میں اپنی بیوقوفی کو حق بجانب بھی سمجھنے لگتا ہوں کہ 'گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل‘ کے مصداق اگر مشکل ہر صورت پیش آنی ہے تو پھر
کہنے میں کیا ہرج ہے جبکہ اختلاف کرنا آپ کا حق بھی ہے اگرچہ یہ حق اب بالعموم تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس کے برعکس‘ اگر آپ کو ادبی منظرنامے پر موجود رہنا ہے تو آپ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے سے نہ صرف اتفاق کریں گے بلکہ اس کی حتی المقدور تعریف بھی‘ ورنہ لوگ تو پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ لہٰذا کمپرومائز ہی وہ امرت دھارا ہے جس سے آپ اپنے اور دوسروں کے ہر مرض کا علاج کر سکتے ہیں۔ پھر یہ ہے کہ کام کریں گے ہی تو اس سے اختلاف بھی کیا جائے گا اور اگر کرنا ہی کچھ نہیں تو راوی چین ہی چین تو لکھے گا۔
میں نے اپنی کتاب ''لاتنقید‘‘ کے آغاز میں ولیم شیکسپیئر کا ایک قول نقل کیا ہے جس کے مطابق اگر سبھی آپ سے متفق ہیں اور کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا تو آپ ایک بے ایمان آدمی ہیں۔ سو‘ اس لیے نہیں کہ میں واقعی ایماندار ہوں‘ میں اختلاف کرتا بھی ہوں اور اسے خوش آمدید بھی کہتا ہوں کہ اختلافِ رائے ہی سے بہتری کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے اور جس میں میری اپنی اصلاح کا امکان بھی رہتا ہے۔ اندھی تقلید اور اندھی تعریف سے زیادہ مہلک چیز ایک تخلیق کار کے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
اور‘ یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ کا محاکمہ غیر جانبداری اور دیانتداری ہی سے کیا جائے۔ بلکہ بھارت ہی کے ایک نہایت معتبر نقاد کے مصداق تو بے لوث تنقید کا کوئی وجود ہی باقی نہیں ہے جبکہ نقاد کی سلیٹ صاف نہیں ہوتی۔ ایک اُتنے ہی بڑے بھارتی نقاد کے بقول جب ہم کسی کے بارے رائے دیتے ہیں تو سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کس کا آدمی ہے۔ اب ان حالات میں کسی سے بے لوث اور غیرجانبدارانہ تنقید کی کوئی کیا توقع رکھ سکتا ہے یا خود بے لوث تنقید کی کیا جرأت کر سکتا ہے؛ تاہم اختلافِ رائے کے بغیر ادب کا تصور ہی غلط ہے اور بے لوث ہو یا بالوث۔ یہ سلسلہ چلتے رہنا اور یہ رونق لگی ہی رہنی چاہیے۔
ماہنامہ ''فانوس‘‘ لاہور کا تازہ شمارہ جو پہلی بار نظر نواز ہوا ہے اور جو منچندا بانیؔ نمبر ہے‘ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہم اپنے جدا ہونے والوں سے غافل نہیں ہیں۔ جن محترمین نے مرحوم بھارتی شاعر بانیؔ کی شاعری پر قلم اٹھایا ہے وہ اپنی جگہ ایک مقام رکھتے ہیں۔ اور ان سے اختلافِ رائے کی اس مختصر کالم میں گنجائش بھی نہیں ہے۔ بانیؔ کے بارے جو میرا عمومی تاثر ہے اور جو اس شمارے میں درج اُن کی کم و بیش 83 غزلوں کو پڑھ کر قائم ہوا ہے وہ کچھ ایسا خوش کُن نہیں ہے۔ اس کا اصل پرابلم یہ ہے کہ اُس سے شعر بنتا ہی نہیں ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ بنتے بنتے رہ جاتا ہے۔ یہ غزلیں زیادہ تر سپاٹ اور بے جان ہیں اور مجھے ان میں ایک بھی شعر ایسا نظر نہیں آیا جسے صحیح معنوں میں شعر کہا جا سکے۔
ان کے ہاں پامال راستے سے ہٹ کر چلنے کی ایک کوشش نظر آتی ہے اور وہ اپنے بہت سے ہم عصروں سے بہتر بھی ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ جن سے وہ بہتر ہیں اُن کی اپنی صورتِ حال کیا ہے۔ میں نے ایک جگہ کہہ رکھا ہے کہ شعر کی ٹرین میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا‘ فسٹ کلاس ہوتی ہے یا تھرڈ کلاس۔ اور اگر کوئی شعر درمیانے درجے کا ہو بھی تو وہ تیسرے ہی درجے میں شمار ہوگا اور جسے زیادہ سے زیادہ گزارے موافق شعر کہا جا سکتا ہے جبکہ گزارے موافق شاعری بھی کوئی شاعری نہیں ہوتی۔ میرے ایک گھسے پٹے قول کے مطابق اچھی شاعری بُری شاعری ہوتی ہے اور اچھا شاعر ایک بُرا شاعر‘ کیونکہ شاعری کو غیر معمولی اور زبردست ہونا چاہیے اور شاعر کو یگانہ و یکتا۔ کیونکہ جو شعر غیر معمولی نہیں ہے‘ وہ معمولی ہے‘ لہٰذا بیکارِ محض۔
الفاظ کو موزوں کر کے اُس کا پُتلا بنا دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ اس میں جان بھی ڈالنا ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ ایک بلند مضمون کو مناسب الفاظ میں پیش کر دینے سے بھی شعر میں جان نہیں پڑتی جب تک کہ وہ شعر بن نہ جائے۔ ہماری 95 فیصد شاعری صرف اور صرف موزوں گوئی اور قافیہ پیمائی پر مشتمل ہے اور یقینا میری اپنی شاعری بھی اس سے مبرا نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے بانیؔ کے چند عمدہ اشعار بھی میری نظر سے گزرے ہیں جو شاید تصنیف حیدر صاحب کے ذوقِ شعر کی تاب نہ لا سکے ہوں۔ چنانچہ ایسی شاعری ہی کو نقاد حضرات شاعری کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ پڑھنے والے بھی اس پر یقین کر لیتے ہیں!
میرے خیال میں پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں موزوں گوئی کی اس وباء کے خلاف تحریک چلنی چاہیے لیکن یہ تحریک نقاد نہیں بلکہ خود نئے شعراء ہی چلائیں گے جس سے غزل پر چھائی ہوئی اس یبوست سے نجات حاصل ہو سکے کیونکہ ہر کہ و مہ پر داد کے ڈونگرے برسانے والوں سے خیر کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس بات کا سراغ لگانا ضروری ہے کہ میرؔ اور غالبؔ کی یہ سرزمین اتنی بنجر کیوں ہو گئی ہے جبکہ بُری اور بے جان شاعری کی تعریف کرنے سے اس کی کھال اُتارنا زیادہ ثواب کا کام ہے اور بانیؔ جیسے شاعر کی غزلوں میں تازگی اور تاثیر کی عدم موجودگی اگر ایک سکۂ رواں ہے تو کیا یہ چلتا ہی رہے گا؟
پرچہ محمد شکور طفیل اور خالد علیم کی زیر ادارت شائع ہوتا ہے‘ قیمت 50 روپے ہے۔ شاعر پر مضمون لکھنے والوں میں عباس رضوی‘ ارشد نعیم‘ نوید صادق‘ شاہد ماکلی‘ مظفر حنفی‘ مغنی تبسم‘ ڈاکٹر ممتاز الحق‘ ڈاکٹر سرورالہدیٰ‘ گوپی چند نارنگ‘ شمس الرحمن فاروقی‘ راج نرائن راز‘ گوپال متل‘ عتیق اللہ و دیگران شامل ہیں جبکہ غزلوں کا انتخاب تصنیف حیدر اور اعجاز عبید کا ہے۔ سرورق شاعر کے سکیچ سے مزین ہے۔ کچھ شعراء نے شاعر کو منظوم خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔
آج کا مطلع
مدت سے کوئی بات‘ کوئی گھات ہی نہیں
کیا عشق ہے کہ شوق ملاقات ہی نہیں