تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     17-08-2015

تحفظات کی سُولی!

پاکستان میں عوام اور جمہوریت کا ساتھ ایک ایسا ڈراما ہے جو کامیڈی سے شروع ہوکر ٹریجڈی پر ختم ہوتا رہا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں 
پھر اِس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں 
بات شروع بھی نہیں ہو پاتی کہ ختم ہوتی دکھائی دینے لگتی ہے۔ حال یہ ہے کہ اب جمہوریت کی بات ہوتی ہے تو لوگ یا تو ڈر جاتے ہیں یا پھر یہ سمجھتے ہیں کہ جن کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ اُن سے کھلواڑ کرنے پر بضد ہیں۔ 
جب بھی جمہوریت کو (امن کی طرح) بحال کیا جاتا ہے یعنی ملک کے سیاسی حواس کچھ ٹھکانے پر لائے جاتے ہیں تب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ نیا میلہ کتنے دن چلے گا یعنی نئی جمہوری فلم کتنے ہفتے نمائش پذیر رہ سکے گی۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر سسٹم سے طرح طرح کی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ توقعات کمزور پڑنے اور دم توڑنے لگتی ہیں۔ جو کچھ اپنی جگہ پر دکھائی دے رہا ہوتا ہے وہ اچانک پہلو بدلنے لگتا ہے۔ ایک زمانے کی منّت مرادوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی جمہوریت ابتداء میں بڑی سخت جان قسم کی دکھائی دیتی ہے مگر پھر ملمّع ایک ہی رگڑ میں اترنے لگتا ہے۔ جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہونے والے التجا کرنے لگتے ہیں ع 
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں 
مگر جمہوریت نہیں مانتی اور نخریلی محبوبہ کی طرح اہل پاکستان کا امتحان لینے پر تُل جاتی ہے۔ اور وہ بے چارے اُسے منانے میں جُت جاتے ہیں۔ کہنے کو جمہوریت پانچ سال کے لیے ہوتی ہے مگر یہ مدت کسی تعمیری کام کے کرنے سے زیادہ ''تابندہ‘‘ جمہوری روایات کے ناز نخرے جھیلنے کی نذر ہوجاتی ہے! 
ہمارے ہاں جب بھی جمہوریت کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تماشے کی نوعیت کچھ ایسی رہی ہے کہ لوگ کچھ ہی دن بعد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ع 
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے! 
غالبؔ نے بہادر شاہ ظفرؔ کے حضور اپنی مشکلات کے بیان میں کہا تھا ع 
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات 
ہماری سیاسی یعنی جمہوری غزل کا المیہ یہ ہے کہ اِس کا مطلع بھی ڈھنگ سے مکمل نہیں ہو پاتا کہ یاروں کو مقطع کی فکر لاحق ہوجاتی ہے! 
2008 ء میں جمہوریت کو ایک بار پھر متعارف کرائے جانے کا موقع ملا۔ کم و بیش ایک عشرے سے اپنی بنیادی سیاسی ضرورت کو ترسے ہوئے لوگوں نے سوچا شاید اب اُن کی تمنّائیں بر آئیں گی اور سیاسی بندوبست کچھ کچھ ان کے حق میں ہوتا جائے گا۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا۔ ایک طرف تو نئی نویلی جمہوریت کی نازک مزاجی تھی اور دوسری طرف یاروں کی وہی پُرانی اور مثالی عجلت پسندی تھی کہ روز روز انڈے کا انتظار کرنے کے بجائے مُرغی کا پیٹ چاک کرکے سارے انڈے ایک ساتھ نکال لیے جائیں! 
نتیجہ؟ ظاہر ہے وہی برآمد ہوسکتا تھا جو ہوا۔ ہم نے، آپ نے ... سبھی نے دیکھا کہ توقعات بار آور ثابت نہ ہوسکیں اور جمہوریت کے ہوتے ہوئے بھی سسٹم کا اونٹ ایک بار پھر غیر جمہوری کروٹ بیٹھ گیا! 2013ء کے عام انتخابات پر منتج ہونے والے پانچ سالہ جمہوری دور نے کیا دیا؟ یاد کیجیے تو ذہن دباؤ سا محسوس کرنے لگتا ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی کوئی کام کی بات یاد نہیں آتی! آئے بھی کیسے؟ جن تِلوں میں تیل تھا ہی نہیں اُن سے تیل کیسے حاصل کیا جاسکتا تھا؟ انہونی باتیں صرف تقریروں میں پائی جاتی ہیں۔ عمل کی کسوٹی پر پرکھیے تو سب کچھ ویسا ہی نکلتا ہے جیسا وہ دراصل ہوتا ہے! عمل کی کسوٹی کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ یہ کسی مصلحت کو سمجھتی ہے نہ سمجھنا چاہتی ہے۔ جو کچھ جیسا ہوتا ہے ویسا ہی اس کسوٹی پر ثابت اور ظاہر ہو جایا کرتا ہے! 
ہماری جمہوری گاڑی نے ابھی نیا سفر شروع ہی کیا ہوتا ہے کہ ایک جانا پہچانا اسپیڈ بریکر آجاتا ہے۔ یہ اسپیڈ بریکر عرفِ عام میں ''تحفظات‘‘ کہلاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ''تحفظات‘‘ کے گنّے سے اِتنا رس نچوڑا ہے کہ بڑے بڑے سیاسی شعبدہ باز حیرت کے مارے دانتوں تلے انگلیاں دابنے پر مجبور ہیں! جیسی تیسی جمہوریت کی انچارج حکومت جیسے ہی کوئی غلط قدم اٹھاتی ہے، مولانا فضل الرحمٰن ''تحفظات‘‘ کا میٹر ایسی عمدہ ٹائمنگ کے ساتھ اسٹارٹ کرتے ہیں کہ مخالفین کو بھی داد دیتے ہی بنتی ہے! کوئی کچھ بھی کہے، سیاست کی راگ مالا میں ''تحفظات‘‘ کے راگ کی ساری فنکاری مولانا پر ختم سمجھی جانی چاہیے! 
حکومت کی مجبوری ملاحظہ فرمائیے کہ کراچی آپریشن کے ہاتھوں زِچ ہوکر متحدہ قومی موومنٹ نے بھی ''تحفظات‘‘ کا راگ الاپنے کی کوشش کی ہے تو اُسے رام کرنے کا ٹاسک مولانا کو سونپا گیا ہے۔ کیوں نہ سونپا جاتا؟ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے! ہر وہ معاملہ مولانا فضل الرحمٰن کو گوناگوں صلاحیتوں کے اظہار کی دعوت دیتا ہے جس میں کہیں بہت دور بھی ''تحفظات‘‘ کی رمق پائی جاتی ہو! اور یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی امیر کی روش پر گامزن ہونے کی باضابطہ، شعوری کوشش کی ہے۔ 
متحدہ کے تحفظات دور کئے جاتے ہیں یا نہیں یہ تو کچھ دن بعد ہی معلوم ہوسکے گا مگر اہل وطن یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ پاکستانی جمہوریت ایک بار پھر ع 
ابھی آئے، ابھی بیٹھے، ابھی دامن سنبھالا ہے 
کی منزل میں ہے اور ابھی سے اُسے ''تحفظات‘‘ کی سُولی پر لٹکانے کا مقابلہ پورے جوش و خروش سے جاری ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل کا ذکر کسی کی زبان پر نہیں۔ لوگ بجلی اور پانی کو ترس رہے ہیں۔ جنرل سیلز ٹیکس کے نام پر اُن کی حق حلال کی آمدنی کی گردن ناپی جارہی ہے۔ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے جمہوری حکومت عوام کا جینا دوبھر کر رہی ہے۔ قومی خزانے کی بندر بانٹ کا طیارہ ہے کہ لینڈنگ کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہر سیاسی جماعت اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے بات بات پر تحفظات کا ڈھول پیٹنے کی پسندیدہ اور آسان ترین روش پر گامزن ہے۔ عوام اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں مگر ہر موثر سیاسی قوت بظاہر عوام کو تحفظات کی سُولی پر لٹکائے رکھنے پر بضد دکھائی دے رہی ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے کسی بہتری کی امید رکھنا دیوانے کے خواب جیسا ہے۔ ایسے میں عوام کی اُمّیدوں کا کیا ہوگا؟ اُن کے پاس پُراُمّید رہنے کے سوا کون سا آپشن بچا ہے؟ اور بہتری کی اُمّید کے ساتھ کی جانے والی ہر دعا پر پر دِل سے یہی آواز آتی ہے ع 
اُمّید تو نہیں ہے مگر ہاں خدا کرے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved