تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     17-08-2015

بلوچستان کی خبریں

بلوچستان میں بغاوت ختم ہوچکی اور نفرت کا الاؤ بھی راکھ کا ڈھیر ہوگیا ہے۔بغاوت کا خاتمہ جنگ کی مانند نہیں ہوتا کہ ایک فریق دوسرے کے سامنے ہتھیار ڈال کر باقاعدہ اعلان کرے، یہ فرو ہوجاتی ہے۔ چند ایک اپنی ریاست کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنے پُرامن ہونے کا اعلان کرتے ہیں مگر اکثرصرف اپنے دل میں تہیہ کرکے پہاڑی کمین گاہ سے گھر کا راستہ لے لیتے ہیں۔بغاوت اپنے ساتھ بربادی لے کر آتی ہے اور اس کے خاتمے کے ساتھ ہی رونقیں لوٹنے لگتی ہیں۔ خضدار ، مستونگ، نوشکی ، پنجگور، کوہلو کے علاقے جو اجڑے ہوئے دیار بن چکے تھے، ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔یہ وہ علاقے ہیں جہاں دوسال پہلے پاکستانی جھنڈا لہرانے کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، وہاں یوم آزادی کے موقعے پرہر طرف سبز پرچموں کی بہار تھی۔ سجی ہوئی گاڑیاں، موٹرسائیکلیں اور سائیکلیںاپنی جگہ ، کسی غریب کو اگر سواری میسر نہ تھی تو اس نے اپنی بکریوں یا اونٹوں پر بھی جھنڈیاں لگا کر عیدِ آزادی منائی۔صاف دکھائی دے رہا تھا کہ یہ سب کچھ صف در صف جنگ لڑکر نہیں بلکہ محبت کے زور پر حاصل کیا گیا ہے۔ تفصیل جاننے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ ایف سی کام تو پہلے بھی کر رہی تھی مگر اس کی کامیابیاں محدود تھیں۔ جنرل شیر افگن نے اس کی قیادت سنبھالی تو اپنے طریق کارکی بنیادی غلطی پکڑ لی۔ ہو یہ رہا تھا کہ ایف سی کے سپاہی کسی سڑک پر ناکہ لگا کر کھڑے ہوتے تو یہاں سے گزرنے والے ہر شخص کو تلاشی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا۔ تبدیلی یہ کی گئی کہ 
مستقل ناکے ختم کرکے متحرک ناکہ بندی کا سلسلہ شروع کیا گیا اور سو فیصد لوگوں کی تلاشی کی بجائے محض چند لوگوں کی تلاشی کو کافی جانا گیا۔ اس نرمی نے خوشگوار اثرات مرتب کیے تو ایک قدم اور آگے بڑھ کر ایف سی کے ذمہ داروں نے اپنے اپنے علاقے کی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے کر لوگوں کو یقین دلایا کہ ان کی ہر کوشش عام آدمی کو ایک محفوظ ماحول کی فراہمی ہے اور بس۔ اس پالیسی کے بعد حالات میں ڈرامائی تبدیلیاں شروع ہوگئیں۔ وہ ایف سی جس کے بارے میں ہر بلوچ نوجوان آگ اگلتا تھا دلوں میں گھر کرنے لگی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ خضدار میں ایف سی کے کمانڈنٹ کو بریگیڈیر کے عہدے پر ترقی ملی اور ان کا تبادلہ ہوا تو علاقے کے لوگ وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک کے پاس پہنچ گئے کہ اس شخص کو خضدار سے باہر نہ بھیجا جائے۔ لوگوں کی خواہش اتنی شدید تھی کہ ڈاکٹر صاحب کو جنرل راحیل شریف سے کہنا پڑا کہ اگر کمانڈنٹ کو خضدار میں روکنے کی کوئی صورت ممکن ہو تو اختیار کی جائے۔ 
عام آدمی سے محبت اور صوبائی حکومت سے عزت کا تعلق قائم کرنے کی پالیسی کی تشکیل اور اس کی کامیابی کا کریڈٹ اگر کسی ایک شخص کو دیا جاسکتا ہے تو کمانڈر سدرن کمان جنرل ناصر جنجوعہ کو دیا جاسکتا ہے۔ لگ بھگ تین سال پہلے جب انہوں نے صحافیوں کے ایک گروپ کے سامنے اپنی پالیسی کے خد وخال واضح کیے تو مجھے یوں لگا کہ شاید جنرل صاحب ایک فوجی ہونے کے ناتے کچھ ہی عرصے میں محبت سے تائب ہوکر ہتھیاراٹھا لیں گے کیونکہ محبت کی راہ میں سیاست کے دوچار ایسے سخت مقام نظر آرہے تھے جن سے گزرنا سیاستدانوں جیسی برداشت کا تقاضا کرتا تھا۔ خیر، جیسے جیسے یہ پالیسی آگے بڑھتی گئی صورت حال میں تبدیلی آنے لگی۔ کئی لوگ دبی زبان میں یہ بھی کہنے لگے کہ جنرل صاحب نے باغیوں کو لاڈلا بنا ڈالا ہے، کسی کا خیال تھا فوج محبت سے نہیں اپنی قوت سے پہچانی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر جنرل صاحب کو ڈاکٹر مالک کی صورت میں اپنا ایک ہمنوا مل گیا۔ان دونوں نے مل کر بلوچستان میں جو کچھ کیا اس کا اندازہ تیرہ اور چودہ اگست کی رات کو ہوا جب کوئٹہ شہر کے نوجوانوں کو سڑکوں پر خوشیاں مناتے دیکھا۔ 
بلوچستان جو گزشتہ دس سال سے نفرت کی آگ میں جھلس کر دیگر پاکستان سے پیچھے رہا جاتا تھا اب ایک نئے ولولے کے ساتھ آگے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ ڈاکٹر مالک اور جنرل ناصر جنجوعہ نے دن رات ایک کرکے جو کچھ حاصل کیا ہے اس کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ معاملات میں ایک تسلسل رہے۔اب صورت کچھ ایسی بنی ہے کہ یہ تسلسل ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ دسمبر میں ڈاکٹر مالک مسلم لیگ ن کے ساتھ کیے ہوئے مری معاہدے کے تحت وزارت اعلیٰ چھوڑ دیں گے۔ ان سے پوچھا کہ آپ کے بعد آنے والا کیا یہی پالیسیاں جاری رکھ پائے گا تو ڈاکٹر صاحب نے بڑے اطمینان سے کہا: ''میں ہر صورت میں مری معاہدے کی پابندی کروں گا اور عہدہ چھوڑکر صوبائی اسمبلی میں بیٹھ جاؤں گا، اقتدار کے اصول میں نہیں توڑ سکتا‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی بات سن کر ہمت ہی نہیں پڑی کہ بات آگے بڑھاؤں یا سیاست میں افراد کی اہمیت واضح کرکے کوئی نئی دلیل دوں۔ جنرل جنجوعہ کو اکتوبر میں ریٹائر ہونا ہے۔گزشتہ رات کوئٹہ میںجنرل صاحب ہارون الرشید صاحب سے ملنے کے لیے ان کے کمرے میں چلے آئے۔ اتفاق سے میں بھی وہیں موجود تھا، موقع پاکر ان سے سوال کیا کہ ان کا جانشین ان کی تراشی ہوئی راہِ محبت پر کیا ثابت قدمی دکھا سکے گا تو ایک لمحے میں الفاظ میں پوشیدہ اصل سوال کا جواب دے دیا، کہا: ''کوئی یہاں سے گیا تھا تو میں آیا، اب میں جاؤں گا تو کوئی مجھ سے بہتر یہاں آجائے گا، یہ زندگی ہے، کسی کے آنے جانے سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا‘‘۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد خشک لہجے میں پھر بولے: ''جو تم کہنا چاہ رہے ہو نا تو کان کھول کر سن لو، میں اپنی میعاد سے آگے ایک دن بھی کام نہیں کرنا چاہتا، میں جانتا ہوں کہ دنیا کی ہر قبر میں ایک سے ایک ناگزیر پڑا یومِ حساب کا منتظر ہے‘‘۔ ڈاکٹر مالک کی طرح جنرل جنجوعہ کا صاف جواب سن کر سوائے خاموشی کے اور کیا کیا جاتا۔ 
کوئٹہ کی فضا میں براہمداغ بگٹی کا نام گونج رہا ہے، صوبے میں مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے اسے واپس لانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ جی ہاں، یہ وہی براہمداغ بگٹی ہے جس کے دامن پر سینکڑوں بے گناہوں کا خون ہے۔ دو سال پہلے اگر یہ واپس آجاتا تو شاید کسی کام کا ہوتا، لیکن اب اس کی واپسی اتنی ہی بے فائدہ ہے جتنی چلے ہوئے کارتوس کو دوبارہ بندوق میں ڈالنے کی کوشش۔ وقت اور حالات اتنے بدل چکے ہیں کہ اس شخص کی واپسی صرف اور صرف مسائل پیدا کرے گی۔اس کے آنے سے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ پاکستان کے خلاف علی الاعلان کام کریں تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ جھک جاتی ہے ورنہ دبا کر رکھتی ہے۔ بلوچستان میں وقت اتنا آگے جا چکا ہے کہ پاکستان سے باہر بیٹھے یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں بھی بے وقعت ہوچکے ہیں۔ ان مردہ گھوڑوں میں بھُس بھر کر ریس میں دوڑانے کی کوشش خواہ کتنی ہی پر خلوص ہو، سوائے شکست کے کوئی اور نتیجہ پیدا نہیں کر پائے گی۔ بلوچستان کو اب مفاہمت کی بجائے ایک مؤثر حکومت کی ضرورت ہے، آپ اپنی توجہ اسی پر رکھیں تو مناسب ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved