اپنے بیٹے شاہ حسن کے ساتھ بحریہ ٹائون سے نکلا تو ٹی وی چینلز پر پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل(ر) شجاع خانزادہ کے ڈیرے پر خودکش دھماکے کی بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔ رئوف طاہر صاحب کو گھر سے لیا تو انہوں نے یہی اطلاع دی کہ اگرچہ سات افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور ڈیرے کی چھت گر چکی ہے مگر کرنل صاحب خیریت سے ہیں‘ میں نے ٹویٹر آن کیا تو جنرل حمید گل کے بارے میں کرنل(ر) شجاع خانزادہ کا تبصرہ نظر آیا جو برادرم انصار عباسی نے شیئر کیا تھا۔ شجاع خانزادہ نے لکھا۔‘‘
Gen Hameed Gul, loss will create a large vacuum in the strategic thought process of Pakistan. Gen was my Mentor and my DG during my service with him. A great Gen with super dynamic qualities and possessed a visionary mind.
ہم تینوں جنرل(ر) حمید گل کے جنازے میں شرکت کی غرض سے موٹر وے پر اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھے کہ بھیرہ انٹرچینج پر '' دنیا نیوز ‘‘کی طرف سے کرنل صاحب کی شہادت پر Beeperکی فرمائش آئی۔ دل بجھ سا گیا۔ حمید گل کے ساتھ اس کا ایک بہادر‘ بے لوث اور ''را‘‘ کی آنکھ کا کانٹاپیروکار بھی چلا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
جنرل (ر) حمید گل سے ملاقات فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ممتاز قانون دان احمد اویس کے نہر کنارے گھر پر ہوئی۔ اسد اللہ غالب صاحب چند صحافیوں کو پاک فوج اور افغان جہاد کے ایک افسانوی کردار سے ملوانے لے گئے۔ سید مشاہد حسین نے ان کی ریٹائرمنٹ پر اپنے ایک مضمون میں انکشاف کیاتھا کہ حمید گل نے آئی ایس آئی میں بطور چیف اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے سے کم و بیش چار سال قبل جمع کرائے گئے مقالے میں سوویت یونین کو ایک ڈوبتا ہوا جہاز قرار دے کر افغانستان سے بصد سامان رسوائی پسپائی کی پیش گوئی کی تھی۔
حمید گل نے دوران گفتگو افغان عوام کی جدوجہد‘ پاکستان اور اس کے عسکری و خفیہ اداروں کے کردار اور سوویت یونین میں جنم لینے والے تضادات پر تفصیل سے روشنی ڈالی پھر وہ داخلی سیاست کی طرف آئے اور ہمارے تلخ و ترش سوالات کے جواب خندہ پیشانی سے دیئے۔میں نے سید مشاہد حسین کے مضمون اوران کی تازہ گفتگو کا حوالہ دے کر سوال کیا کہ ''ایک سپر پاور کے بارے میں آپ کے اندازے درست ثابت ہوئے مگر جب آپ آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے میاں نواز شریف کو لانچ کر رہے تھے تو ایک شخص کے بارے میں یہ اندازہ کیوں نہ لگا سکے کہ وہ آپ کی توقعات پر پورا اتر سکتا ہے نہ اس سیاسی‘ معاشی‘ جغرافیائی اور نظریاتی ایجنڈے کی تکمیل کے قابل جو آپ کے علاوہ آپ کے ساتھیوں کے پیش نظر تھا۔‘‘جنرل نے جواب دینے سے پہلے پوچھا''آپ کا تعلق کس اخبار سے ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا تو بولے''واقعی سوال دلچسپ اورجاندار ہے۔ آپ سے ملاقات رہے گی۔‘‘
یہ سوال جنرل حمید گل سے میری واقفیت ‘تعلقداری اور قربت کا باعث بنا پھر چل سو چل۔ حمید گل کی عظمت کا نقش میرے دل و دماغ پر اس وقت ثبت ہوا جب ایک نجی محفل میں مجید نظامی صاحب نے بتایا کہ 1990ء میں آئی جے آئی کی انتخابی کامیابی کے بعد جنرل حمید گل میرے پاس آئے اور مجھے لے کر ماڈل ٹائون میاں محمد شریف سے ملے۔ ابھی میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کے طور پر حلف نہیں اٹھایا تھا۔ جنرل نے میاں محمد شریف کو رسمی مبارکباد دینے کے بعد درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے خاندان کو اتنے بڑے منصب سے نوازاہے ۔ میں نظامی صاحب کے ہمراہ یہ گزارش کرنے آیا ہوں کہ قانونی اور اخلاقی تقاضے کے طور پر آج کے بعد آپ کے کاروبار‘ فیکٹریوں اور کارخانوں میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے ۔یہ Conflict of interestہے۔
مجید نظامی صاحب نے بتایا کہ یہ سن کر بڑے میاں صاحب مسکرائے‘ یہ خندہ استہزا تھا ‘گویا کہہ رہے ہوں حلوہ نہیں کھانا توحافظ جی بننے کا فائدہ؟(یہ نظامی صاحب کے الفاظ ہیں) پھر بولے :دیکھیں جنرل صاحب! میں نے کاروبار ہمیشہ عبادت سمجھ کر کیا ہے۔ میرا نواز شریف کے سیاسی معاملات سے لینا دینا نہیں مگر کوئی مجھ سے کہے کہ میں آج سے عبادت نہ کروں‘ یہ ناممکن ہے؟ اگر جنرل کا دانشمندانہ مشورہ مان لیا جاتا تو شائد بعدازاں جن ہوشربا‘ اورناپسندیدہ داستانوں نے جنم لیا اورشریف خاندان پر الزام تراشی ہوئی اس کی نوبت نہ آتی۔
جنرل (ر) حمید گل نے اپنے پیشروئوں اور جانشینوں کے برعکس‘ حالات اور حکومتوں کی تبدیلی پر موقف بدلا نہ طرز عمل۔ درست سمجھ کر جو کیا اور کہا کبھی اس سے منحرف ہوئے نہ تاویل اور معذرت خواہی کا رویہ اختیار کیا۔ وہ خواب دیکھتے ‘نوجوان نسل کو دکھاتے اور خوابوں میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے۔ان کا خواب کیا تھا؟ اسلام کی سربلندی‘ خطے اور دنیا میں پاکستان کا قائدانہ کردار اور اقبالؒ و قائدؒ کے تصورات و نظریات کی روشنی میں ایک اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کی تشکیل۔ وہ شکست خوردہ اور مرعوب ذہنیت کو پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے سمّ قاتل قرار دیتے اور ہمیشہ اعلیٰ و ارفع مقاصد کی ترویج و اشاعت کے لیے کمر بستہ رہنے کی تلقین کرتے۔ توہین رسالتؐ کے واقعات‘ افغانستان پر امریکی حملے‘ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے وجود میں آنے والی تنظیموں اور احتجاجی تحریکوں میں وہ اپنی عمر‘ صحت اور سابقہ ملازمت کے تقاضوں کی پروا کئے بغیر جرأت مندانہ کردار ادا کر تے رہے اور اپنے سابقہ سٹاف افسر پرویزمشرف کی ناراضگی کی پروا نہیں کی جس نے انہیں سوڈو اٹیلکچول قرار دے ڈالا۔؎
نشہ خودی کا چڑھا‘ آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
حق گوئی و بے باکی ان کا شعار تھا۔ ایک ٹی وی پروگرام میںایم کیو ایم کے ایک بڑے اور بڑبولے لیڈر نے اظہار خیال کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے خلاف ریمارکس دیئے تو حمید گل نے ڈانٹا اور کہا کہ اپنی زبان بند رکھیں ورنہ میں آپ کا اور آپ کے لیڈر کا کچا چٹھاکھول دوں گا‘ حیران کن طور پر لیڈر خاموش ہو گئے اور پروگرام کے آخر تک مؤدّب رہے۔ یہی سلوک انہوں نے ایک دو اورٹی وی اینکر کے ساتھ کیا جو بے چارے چوکڑی بھول گئے۔ سوویت یونین کی تشکیل کے بعد سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کو ساتھ ملا کر پاکستانافغانستان اور ایران پر مشتمل مسلم بلاک کی تشکیل ان کا خواب تھا جو ضیاء الحق کے بعد آنے والے جمہوری حکمرانوں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ جبکہ ان کے سٹاف افسر جنرل پرویز مشرف نے تو لٹیا ہی ڈبو دی۔'' سب سے پہلے پاکستان ‘‘کا نعرہ دراصل شکست خوردگی‘ خود مذمّتی اور عالم اسلام سے کٹ کر بھارت کی بالادستی قبول کرنے کا استعارہ تھا جس پر حمید گل ہمیشہ دل گرفتہ رہے۔
ملی یکجہتی کونسل تشکیل پائی تو جنرل صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ انہی دنوں کراچی میں بھی نسلی و لسانی دہشت گردی کے خلاف آپریشن چل رہا تھا۔ جنرل صاحب کا خیال تھا کہ اگر یہ نوزائیدہ تنظیم فرقہ واریت کے عفریت کو نکیل ڈالنے میں کامیاب رہی تو پاکستان کو نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اور فرقہ وارانہ تعصبات و منافرت کے ذریعے کمزور کرنے والے عناصر کے عزائم ناکام ہوں گے اور ہم ایک بار پھر اپنی اصل منزل کی طرف یکسوئی سے گامزن ہوں گے۔ کونسل کی تشکیل میں بردار عزیز خورشید گیلانی مرحوم کا کردار جنرل صاحب کے علم میں تھا ۔اس بنا پر جب ان کی وفات پر اہلیہ محترمہ کے ہمراہ میرے غریب خانے پر تشریف لائے تو دیر تک اتحاد امت کے لیے ان کی سعی و کاوش کا تذکرہ کرتے رہے۔
بھارتی عسکری ماہرین اور صحافتی بزر جمہر حمید گل کو ''حاضر سروس دشمن‘‘ قرار دیتے اور خالصتان تحریک‘ کشمیریوں کی مزاحمت اور بھارت کے اندر بے چینی کے پیچھے ہمیشہ حمید گل کا ہاتھ تلاش کرتے۔
جنرل صاحب نے زندگی بھر ہم خیال اور قریبی دوستوں کے علاوہ اپنے ناقدین سے بھی رابطہ برقرار رکھا‘ کسی مخالفانہ تبصرے ‘ تجزیے اور کالم پر ناک بھوں چڑھانے کے بجائے ہمیشہ فون کر کے اپنا نقطہ نظر بیان اورواقعاتی غلطیوں کی تصحیح کرتے۔ ایک بار میں نے ایک روسی ہوا باز کا ذکر کیا جس کو طیارہ گرا کر پاک فوج نے قیدی بنا لیا تو جنرل صاحب نے میری رہنمائی کی اور بتایا کہ بعدازاں یہ ہوا باز روس کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوا۔آخری رابطہ13اگست کی شام ہوا اور جنرل صاحب نے اپنی اہلیہ کی طبیعت کے بارے میں بتایا ۔معلوم نہ تھا کہ یہ آخری رابطہ ہے ورنہ کچھ اور باتیں ہو جاتیں۔ نماز جنازہ میں ہر طبقے ‘مسلک اور علاقے کے لوگ شامل تھے‘ جس سے جنرل صاحب کی مقبولیت اور تعلقات کا اندازہ ہوا۔ جنرل اسلم بیگ ‘ جنرل وحید کاکڑ‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور موجودہ آرمی چیف کی شرکت اس بات کا ثبوت تھی کہ فوج کے رینکس اینڈ فائلزمیں ان کی عزت و احترام برقرار ہے اورافسر و سپاہی مرحوم کو واقعی شجاع خانزادہ کی طرح اپنا مرشد‘ گُرو یا اُستاد(Mentor)سمجھتے ہیں۔
جنرل صاحب سے مکالمہ آسان اور اختلاف میں مزہ تھا۔ معاشرے میں اب کتنے لوگ رہ گئے ہیں جن سے اختلاف آسان ہے اور مکالمہ ممکن۔ دیانتدارانہ اختلاف اور دشمنی میں فرق برقرار نہیں رہا۔عبداللہ گل اور عمر گل بیرون ملک تھے‘ واپسی کی جلدی تھی‘ بہن عظمیٰ گل سے تعزیت کئے بغیر لاہور لوٹ آئے ؎
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی!