تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-08-2015

جنرل صاحب

آدمی چلے جاتے ہیں‘ آخر کو دعا رہ جاتی ہے۔ فرصتِ یک دونفس اور قبر کی شب ہائے دراز۔
گھنٹوں جاری رہنے والی راولپنڈی کی موسلادھار بارش۔میجر عامر نے عنایت کی کہ خود گئے اور جنرل حمید گل سے ملاقات کا وقت طے کیا۔ سرکاری مکان خالی کردیا تھا اور یوسف گل کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے‘ جو وزیراعظم کے سٹاف میں شامل تھے۔ ایوان وزیراعظم سے گوارا فاصلے پر۔
یہ 1991ء کا موسم برسات تھا۔ تفصیل حافظے میں ابھرتی نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ ان کی خوش اخلاقی نے حیران کردیا۔ عسکری امور پر جو کچھ لکھا تھا‘ اس سے انہیں شدید اختلاف تھا‘ یہ کہہ کر مگر بات ختم کردی'' آپ کو علم نہیں تھا‘‘ ماحول میں شائستگی رہی ‘ شگفتگی رہی۔ میر صاحب نے کہا تھا ؎
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
کبھی کبھار نہیں جنرل صاحب عمر بھر جگر خوں کرتے رہے۔ زندگی میں شاذ ہی کوئی دوسرا آدمی دیکھا‘ اولادِ آدم سے جو اس قدر حسنِ ظن رکھتا ہو‘ اتنی آسانی سے معاف کر سکتا ہو۔ حسنِ اخلاق کے ایک نادر روزگار پیکر ۔ یہی ان کی سب سے بڑی قوّت تھی۔ مخاطب کے دل میں اتر جاتے اور وہیں بسیرا کیے رکھتے۔
کیسے ہی شدید اختلاف کے باوجود جو بعد کے برسوں میں‘ بعض موضوعات پر ہوا‘ آپ ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتے۔ حیرت انگیز معلومات‘ دنیا بھر کی تحریکوں اور شخصیات سے شناسائی کے باوجود‘ ان میں بچوں کی سی معصومیت‘ سادگی اور سلاست تھی۔ سات آٹھ سال اُدھر‘ پروفیسر احمد رفیق اختر سے کہا کہ عمران خان اور جنرل صاحب کو کھانے پر بلائیں۔ شاید ایک بار پھر وہ رفیق کار بن سکیں۔ آمادگی ظاہر کی لیکن پھر طرح دے گئے‘ میں حیران کہ ہر حال میں وہ پیمان کو یاد رکھنے اورایفا کرنے والے ہیں۔ برسوں بعد ایک روز سبب انہوں نے بتادیا: جنرل صاحب عہد قدیم کے شرفا کی شخصیت رکھتے ہیں اور عمران خان نوجوانوں کے سے تیور۔ ایک دوسرے کے ہم سفر وہ نہیں ہو سکتے۔ 
اللہ انہیں صحت اور برکت دے‘ کچھ عرصہ قبل بیگم حمید گل نے کہ سرتاپا عمل اور سرتاپا نظم ہیں‘ ناچیز سے کہا تھا:تم انہیں سمجھاتے کیوں نہیں۔ بہو سے ادھار لیکر روپیہ ایک بھکارن کو دے دیا‘ جس نے کہا کہ اسے بیٹی کی شادی کرنی ہے۔ خیرات وہ بھی کرتیں اور ان سے زیادہ ان کی صاحب زادی عظمیٰ گل‘ جو سرمایہ میّسرہوتا تو قیدیوں کے جرمانے ادا کیا کرتیں۔ بیگم صاحبہ مگرجانچ پڑتال کی قائل ہیں۔ جنرل صاحب کو کوئی بھی فریب دے سکتا۔ ایک بار کوئی گردے کا مریض بن کر بہت سے پیسے لے گیا۔ عربوں کا محاورہ ہے: آدمی دوسروں کو خود پر قیاس کرتا ہے۔ انہیں گمان ہی نہ ہوتا کہ کوئی کذب بیانی کر سکتا ہے۔ کیسے کیسوں پر انہوں نے اعتبار کیا‘ کیسے کیسوں سے فریب کھایا۔ ایک آدھ نہیں کئی حکمرانوں کے چرکے ۔ ان کی صاحبزادی اور داماد نے ایک مثالی ٹرانسپورٹ کمپنی بنائی۔ ایک کے بعد دوسری حکومت نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ عرض کیا کہ یہ شرفا کا کاروبار نہیں‘ اس چیز سے گریز کرنا چاہیے‘ سرکار سے جس میں واسطہ پڑے۔ جنرل صاحب نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو مگر باپ کی طرح اولاد میں بھی حسنِ ظن بہت ہے۔ خواب و خیال کی جنّتیں آباد کرنے کی تمنا۔ ایک مثالی ادارہ بنانے کی آرزو میں سب کچھ برباد ہوگیا۔ ٹرانسپورٹروں کے دو تین ہزار ووٹوں کے لئے‘مقامی ارکانِ اسمبلی اور تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ان کے خلاف استعمال ہوئیں۔ جنرل صاحب کسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے تو تباہی نہ آتی۔ ان کی خودداری کو گوارا نہ ہوا۔ اولاد نے بھی کمال تحمّل‘ کمال صبر کا مظاہرہ کیا۔ سب سے تکلیف دہ پہلو میڈیا تھا‘ جھوٹی خبریں‘ حتیٰ کہ افواہیں تک چھپتی رہیں۔ ایک بار تو راولپنڈی کے مقامی لیڈر نے ''واران‘‘ کی پچاس ساٹھ بسوں کو 
نذرآتش کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس پر بھی جنرل صاحب چپ سادھے رہے‘ اس ناچیز نے واویلا کیا‘ قاضی حسین احمد سمیت‘ سیاسی لیڈروں کے علاوہ پولیس افسروں اور صحافیوں کو گواہ بنایا تو بلا ٹلی۔مشکل سے انہیں آمادہ کر سکا کہ وزیرداخلہ آفتاب شیرپائو سے بات کریں۔ سرکاری معاہدے کے باوجود راولپنڈی کے کورکمانڈر نے عظمیٰ گل اور یوسف گل کو مجرموں کی طرح طلب کیا‘ کمپنی کے مرکزی دفتر پر قبضے کی کوشش کی۔ جنرل مشرف کے عہد میں کاروبار بند کردیا گیا تو بسوں کو فروخت کرنے کی کوشش بھی ناکام بنا دی گئی۔ باوردی افسر گاہکوں کا تعاقب کرتے‘ شہبازشریف باردگر برسراقتدار آئے تو ازسرنو معاہدہ ہوا‘ مگر وہ پیمان ہی کیا جو پورا ہو۔ 
جنرل صاحب کے ذکر میں بحث آئی جے آئی کی تشکیل پر ہے‘ سیاق و سباق منہا کر کے۔ بے نظیر بھٹو کے خلاف متحدہ محاذ کی تشکیل جنرل کا نہیں‘ عسکری قیادت کا فیصلہ تھا۔ ذمہ داری ایک آدمی پر ڈال دی گئی ۔ اس آدمی نے قبول کر لی‘ بار بار قوم سے معافی کا طلب گار بھی ہوا۔ فوج کو شبہ تھا کہ دشمن ممالک سے محترمہ کے مراسم ہیں۔ سب کچھ وہ لپیٹ دیں گی اور انتقام لیں گی۔ جب ادراک ہوا کہ یہ تعلقات محض ایک سیاسی حکمت عملی تھی تو جنرل صاحب نے بار بار کہا کہ وہ ایک محب وطن لیڈر تھیں ؛ اگرچہ محترمہ کو ان کے بارے میں اکسایا جاتا رہا ۔ بار بار وہ غلط فہمیوں کا شکار ہوتی رہیں‘ آخری دنوں تک!
جنرل صاحب کی کہانی ‘ ایک کتاب کی مستحق ہے ۔ آغاز ان کے پرداداسے ہوتا ہے جو سید احمد شہید کے لشکر کا حصہ تھے اور ان کی شہادت کے بعد لاہور آ بسے‘ جہاں ان کے نام پر ایک محلّے کا نام ہے۔ دادا سرکاری ملازم ہوئے ‘والد تحریک پاکستان کے کارکن۔ محدود سی زمینداری پر انہوں نے قناعت کی۔ اپنے لوگوں سے جنرل صاحب والہانہ محبت کرتے۔ ربع صدی پہلے سرگودھا میں اپنے گائوں کے سب مکان انہوں نے پختہ بنوائے۔ ایک لاکھ ڈالر لندن میں مقیم ان کے دوست نے عطیہ کیا۔ مساوی رقم حکومت پاکستان نے دی۔ پندرہ برس ہوتے ہیں‘ ان میں سے ایک مکان کے باہر ہم کھڑے تھے۔ حقّہ گڑ گڑاتے ہوئے دیہاتی سے جنرل صاحب نے پوچھا: ہماری چار کنال زمین پر آپ نے قبضہ کیوں جما لیا؟اس کا جواب یہ تھا:موتیوں والے! ہم ہر وقت تیرے لیے دعا کیا کرتے ہیں۔ جنرل صاحب جھنجھلائے مگر کوئی سخت بات زبان سے نہیں نکالی۔ ذاتی سر مایے سے انہوں نے گائوںکے لیے‘ ایک ڈسپنسری قائم کی ۔
وسیع المطالعہ‘ صاف ستھرے ‘مہمان نواز‘ شائستہ کلام‘ پابند صوم و صلوٰۃ ہی نہیں‘ تلاوت اور سحر خیزی کے عادی ۔ حسّاس بھی بہت۔ ایک شب جاوید ہاشمی کو ان کے ہاں آنا تھا ۔ ملتان کے کور کمانڈر رہے تھے۔ دو دیہات کے مکینوں نے کہا تھا ‘اس امیدوار کی وہ حمایت کریں گے‘ جنرل صاحب جس کی سفارش کریں۔ بجلی کی سہولت ان کے طفیل ملی تھی۔ میں نے گزارش کی تو بولے: مجھے یاد نہیں‘ بہرحال میں ان سے کہہ دوں گا۔ جاوید ہاشمی تین گھنٹے تاخیر سے آئے۔ جنرل صاحب پریشان۔ بھوکے رہے‘ صبح سویرے جاگنا تھا۔ زیادہ حیرت اس پر ہوئی کہ جاوید صاحب آئے تو رسمی معذرت پر ہی شاد ہو گئے۔
امّت کا درد رکھنے والے تھے۔ معتدل مزاج‘ اقبال اور قائد اعظم کے پیرو کار۔ تعجّب یہ کہ فرقہ پرست مذہبی لیڈروں سے بھی حسن ظن۔ انہیں معلوم تھا کہ اقبال کے اس طالب علم کو مذہب فروشوں سے گھن آتی ہے۔ وہ مجھے اچھے گمان کی تاکید کرتے۔ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہوتا انہیں تکلیف پہنچتی۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
سچی بات تو یہ ہے کہ سیاست ان کا میدان ہی نہ تھا۔ جو آدمی کبھی شک سے کام نہ لے۔ جو طشتری میں رکھ کر پیش کی جانے والی قومی اسمبلی کی سیٹ کو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے‘ وہ کہاں کا سیاست دان ! پاکستان اور عالم اسلام کے مستقبل پر وہ ہمیشہ سوچ بچار میں محو رہا کرتے۔ کہیں سے کوئی اچھی خبر آتی تو شاد ہوتے۔ کہیں بھی مسلمان مجروح ہوتے تو جنرل کا دل دکھتا۔ موم کی طرح پگھل جانے والے۔ سرکارؐ کے ذکر میں پانی سے ہو جاتے۔ عادات صحت مند‘ خوش لباس اور خوش ذوق۔دعا کو ہاتھ اٹھتے ہیں۔ یقین ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں گے۔ سادہ اطوار‘ ایثار کیش‘ نیک نیّت۔ پروردگار ان کی نیکیاں قبول کرے‘ خطائوں سے درگزر فرمائے۔ 
آدمی چلے جاتے ہیں۔ آخر کو دعا رہ جاتی ہے۔ فرصتِ یک دو نفس اور قبر کی شب ہائے دراز۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved