تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     18-08-2015

ایک غنیمت شخص کی رخصتی

جنرل (ر) حمید گل ایک بھر پور زندگی گزارنے کے بعد اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ میری اور ان کی غلطیاں‘ خطائیں‘ کوتاہیاں ‘ گناہ اور نفرتیں معاف فرمائے۔
حمید گل ایک انسان تھے۔ خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ‘ غلطیوں سے پاک ذات صرف اور صرف اللہ کی ہے باقی جسے وہ توفیق بخشے۔ حمید گل کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔ ان سے محبت کرنے والے بھی انہیں نہیں بھولیں گے اور ان کے مخالفین بھی۔ حمید گل کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن وہ ایک کھرے ‘ صاف گو اور اپنے نظریات کے حوالے سے بڑے واضح خیالات کے حامل تھے۔ اسلام اور پاکستان سے محبت دو ایسی چیزیں ہیں جن سے ان کی وابستگی اورکمٹمنٹ سے کسی کو انکار نہیں۔ ہاں روشن خیال ترقی پسندوں کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ جیسا کہ میں نے آغاز میں لکھا ہے‘ وہ ایک انسان تھے... خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ۔ ان کے کھاتے میں کارنامے بھی ہیں اور غلطیاں بھی۔ ان کی ذات پر لکھتے ہوئے ان دونوں پہلوئوں کو سامنے رکھیں تو متوازن بات لکھی جا سکتی ہے وگرنہ فقط قصیدے اور ہجو کے درمیان کچھ اور نہیں ملتا۔ یہی ہماری سب سے بڑی خرابی ہے کہ ہم کسی چیز کا تجزیہ کرتے ہوئے توازن کھو دیتے ہیں اور محض اپنی پسند نا پسند کو مدنظر رکھ کر آخری نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں۔
ایمانداری کی بات ہے کہ میں جنرل (ر) حمید گل کو پسند بھی کرتا تھا اور ان سے اختلافات بھی تھے۔ نظریات سے شاید نہیں تاہم ان کے طریقہ کار سے ۔ منزل سے نہیں لیکن راستے کے چنائو سے۔ ان سے نظریاتی اختلاف رکھنے والوں میں سے ایک شخص کے خیالات سے کل رات آگاہی ہوئی۔ سن کر افسوس ہوا۔ توازن اور اعتدال کا نمائندہ ہونے کا دعویدار میرا یہ دوست توازن اور اعتدال سے کوسوں نہیں قرنوں کی دوری پر تھا۔ جنرل صاحب کی رخصتی کے بعد بھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ وہ خود بھی نظریاتی شخص ہونے کا دعویدار تھا۔ 
برسوں گزرے میں ایک اخبار میں کالم لکھتا تھا۔ اخبار کے ایڈیٹر اورمیرے نظریات میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ میں مذہبی قدامت پسند تو ہرگز نہیںمگر مذہبی ضرور ہوں‘ تاہم ایڈیٹر صاحب کی ترقی پسند روشن خیالی کے چوکھٹے میں کسی طرح فٹ نہیں ہو پا رہا تھا۔ نتیجتاً وہ میرا ہر دوسرا نہیں تو تیسرا کالم روک دیتے تھے اور اس کو بڑی خوشی سے بیان بھی کرتے تھے۔ ایک بار ان سے مل کر وجہ پوچھی تو ہنس کر کہنے لگے تم ''مولوی مولا جٹ‘‘ ہو اور ہمہ وقت ترقی پسندوں سے نہ صرف آمادۂ پیکار رہتے ہو بلکہ قلم کے گنڈاسے کی مدد سے ان کی گردن مارنے پر تلے رہتے ہو۔ تمہیں میرا پتہ ہے کہ میں اعتدال پسند اور متوازن شخص ہوں اور اس قسم کی تقریروں کو اپنے اخبار کی زینت نہیں بنا سکتا۔ میں نے عرض کیا کہ حضور‘ آپ جو ہر وقت اپنے نظریات کے مخالفین کی طبیعت صاف کئے رکھتے ہیں اور اپنے قلم کی مشین گن سے ان کے کشتوں کے پشتے لگائے رکھتے ہیں‘ اس بارے میں کیا کہیں گے۔آپ انہی تحریروں کے حوالے سے مجھ سے زیادہ انتہا پسند اور متشدد ہیں۔ کیا یہ زیادتی نہیں کہ جس جرم کی سزا آپ مجھے دے رہے ہیں آپ خود وہی جرم زیادہ دھڑلے سے کر رہے ہیں۔مسکرا کر کہنے لگے‘ میں ایڈیٹر ہوں اور اس حوالے سے میری کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں اور اختیارات بھی۔ تمہارا کالم انہی ذمہ داریوں اور اختیارات کے درمیان بے موت مارا جاتا ہے۔ رہ گئیں میری تحریریں تو وہ میرے خیالات کی عکاس ہوتی ہیں اس لیے مجھے نہ صرف قابل قبول ہوتی ہیں بلکہ پسند ہوتی ہیں‘ اس لیے وہ چھپ جاتی ہیں۔ بحیثیت ایڈیٹر میرے کچھ صوابدیدی اختیارات بھی ہیں۔ میں نے کہا حضور‘ آپ کے نظریات اپنی جگہ مگر آپ یہ دیکھیں کہ میں آپ کا نظریاتی بھائی ہوں ۔ وہ ایکدم چونک کر کہنے لگے‘ نظریاتی بھائی! بھلا میں اور آپ نظریاتی بھائی کیسے ہو سکتے ہیں؟ میں نے کہا جناب! آپ بھی نظریاتی آدمی ہیں اور میں بھی۔ اس حوالے سے خواہ ہم بالکل مختلف نظریات کے حامل ہی کیوں نہ ہوں بہرحال نظریاتی تو ہیں۔ یہی وہ ایک کامن فیکٹر ہے جس کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے کا احترام کر سکتے ہیں کہ ہم دونوں مختلف ہی سہی مگر کوئی نظریہ تو رکھتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی جب لوگ اپنے مطلب اور مفاد کے لیے روزنظریہ تبدیل کرتے ہیں‘ ہم خواہ ایک دوسرے کے مخالف ہی سہی مگر کسی نظریے کے حامل تو ہیں۔ اس حساب سے میں اور آپ نظریاتی بھائی ہیں۔ وہ زور سے ہنسے اور کہنے لگے‘ تم ایک باتونی شخص ہو اور اپنی لچھے دار باتوں سے کسی اور کو تو لبھا سکتے ہو مجھے نہیں۔میرے نظریات میں ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ اپنے نظریاتی مخالف کے لیے دل میں کبھی نرم گوشہ نہ رکھو۔ تو برخوردار! مجھے چھوڑو‘ خود کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرو۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا: سر جی !روشن خیالی کا حقیقی مفہوم تو یہ ہے کہ نہ صرف خود جیو بلکہ دوسروں کو بھی جینے دو۔ مسکرا کر کہنے لگے‘لکھتے ہوئے یہ بات اچھی لگتی ہے‘ مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ تم حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرو جو تم نہیں کر رہے۔ کچھ عرصہ بعد میں نے وہ اخبار چھوڑدیا مگر اس درمیان ایک اور طویل قصہ ہے۔
جنرل (ر) حمید گل نے واقعتاً ایک بھر پور زندگی گزاری۔ بطور سیاسی بھی اور بطور ریٹائرڈ سپاہی بھی۔ میں نے انہیں شاہراہ دستور پر عبداللہ گل کے ہمراہ چیف جسٹس بحالی تحریک کے دوران دھکے کھاتے بھی دیکھا اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف بولتے ہوئے بھی اور اپنے ڈرائنگ روم میں مہمان نوازی کرتے ہوئے بھی۔ میں نے ان سے جب بھی اختلاف کیا جواباً اسے مسترد کرنے یا بات بدلنے کے بجائے ٹھنڈے لہجے میں وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ منطقی گفتگو پر زور دیا اور معاملے پر کھل کربات کرنے کی کوشش کی۔ کبھی مشکل سے ہی ایسا ہوا کہ عام سیاستدانوں یا جنرلوں کی مانند بات کرتے ہوئے''آف دی ریکارڈ‘‘ کی پخ لگائی ہو۔ جو بات کی ببانگ دہل کی اور ایک انگریزی محاورے کے مطابق ''بلیک اینڈ وائٹ‘‘ میں کی۔ سپریم کورٹ کے سامنے پولیس سے دست و گریبان ہوتے ہوئے اور فوجیوں میں‘ میرا مطلب ہے ریٹائرڈ فوجیوں میں یہ خوبی صرف جنرل (ر) حمید گل میں دیکھی۔ اپنی باتوں کی وضاحت میں تاویلات دینے کے بجائے اسے قبول کرتے دیکھا۔ سیاستدانوں میں یہ بات صرف سید منور حسن میں تھی۔ جو باتیں سیاستدان عموماً آف دی ریکارڈ کہتے ‘ ٹی وی وغیرہ پر نہیں کہتے تھے۔ مگرسید منور حسن میں یہ ''خامی‘‘ تھی کہ جو بات وہ کیمرے سے ہٹ کر کہتے ‘ وہی بات کیمرے کے سامنے بھی کہتے تھے۔
افغان جہاد‘ دو مختلف نظریاتی دھڑوں کے درمیان آئندہ بھی ہمیشہ ایک شدید بحث طلب معاملہ رہے گا۔ جہاد اور فساد کے درمیان میں کبھی درمیانی نقطہ نظر جگہ نہیں پا سکے گا۔ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ تھا؟ اس سوال کا جواب جہاد مخالفین کے پاس نہ کبھی تھا اور نہ ہی آئندہ ہو گا مگر اس جہاد کی مخالفت اور کلاشنکوف کلچر کا الزام کبھی ختم نہ ہو گا کہ بہت سے لوگوں کی روزی روٹی اسی پر چل رہی ہے۔ افغان جہاد کی کہانی اورتاریخ حمید گل کے بغیر ادھوری رہے گی۔ کامیابیاں بہت زیادہ اور ناکامیاں بہت کم۔ آئی جے آئی کی تشکیل کے بارے میں ان سے ہمیشہ اختلاف رہا اور ان کی کسی دلیل سے کبھی اتفاق نہ رہا۔ کشمیر میں چلنے والی آزادی کی لہر اور مزاحمتی تحریک افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد اور سوویت فوجوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں امن کوششیں‘ حمید گل کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے مخالفین بھی انہیں اسی حوالے سے یاد رکھیں گے ۔ ان گنت کامیاب جنگی منصوبوں کی تخلیق اور بے شمار کامیابیوں کے باوجود جلال آباد پر قبضے کی ناکام کوشش‘ ان کے کھاتے میں ایک بڑی ناکامی کے طور پر یاد تو رکھی جائے گی مگر کسی صورت ان کی کامیابیوں کو گہنا نہیں سکے گی۔
اس گئے گزرے زمانے میں جب نظریہ رکھنا حماقت کے مترادف سمجھا جا رہا ہے‘ حمید گل ایک غنیمت تھے کہ کسی نظریے کے علمبردار تھے۔ اس منافقت بھرے دور میں جب سچ کہنا جھوٹ سے بڑا کام بن چکا ہے‘ حمید گل ایسا سچ بولتے تھے جس میں ان کا نظریہ پوری طرح جھلکتا تھا۔ ایک کہاوت ہے کہ سچ ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے‘ تاہم حمید گل کا سچ کم از کم ایک نظریے کی نمائندگی ضرور کرتا تھا۔ اس نظریے سے اختلاف بے شک جرم نہیں مگر اس نظریے کی سچائی پر یقین بھی یقینا جرم نہیں ہے۔ اعتدال اورتوازن کا دعویٰ آسان ہے مگر عمل بے حد مشکل کام ہے۔ دیگر اختلافات سے قطع نظر ‘ حمید گل کی پاکستان سے محبت میں کچھ کلام نہیں‘ ہاں اگر کوئی خیانت پر تلا ہو تو اس کا کوئی علاج نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved