ہم ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جو چمک دمک اور شور شرابے سے بھرا ہوا ہے۔ یہ بات آپ نے بھی سنی ہو گی کہ انسان کو زندہ رہنے کے لیے کھانا چاہیے، کھانے کے لیے زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ بات درست ہے مگر ہمارے ہاں غلط ثابت ہو گئی ہے۔ ہمارے ہاں بیشتر افراد کھانے کے لیے زندہ ہیں۔ یہ لوگ اِس نظریے کے حامل ہیں کہ قدرت نے معدہ بخشا ہے تو اس میں ہر وقت کچھ نہ کچھ انڈیلتے، دھکیلتے رہنا چاہیے۔ نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلے۔
بولنے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ بہت سوں کی سوچ یہ ہے کہ قدرت نے منہ دیا ہے تو اِسے مصروف رکھا جائے۔ اب منہ کی مصروفیت کیا ہو؟ کچھ نہ کچھ کھاتے رہیے۔ مگر صاحب! معدہ بھی بہت ظالم ہے، یہ تھک بھی جاتا ہے۔ ایسی حالت درپیش ہو تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب کچھ کھایا پیا نہ جائے تب منہ کا کیا کیا جائے۔ پان، گٹکا اور اسی قبیل کی دوسری بہت سی اشیاء منہ کو مصروف رکھنے کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہیں! مگر پان اور گٹکے کی کیا مجال کہ ایک خاص حد سے آگے بڑھ سکیں۔ منہ بھی تو تھک سکتا ہے اور تھک ہی جاتا ہے۔ ایک معاملہ البتہ ایسا ہے جس میں منہ کا تھکنا تو دور کی بات ہے، وہ تھکنے کا نام بھی نہیں لیتا۔ جی ہاں، آپ درست سمجھے۔ ہم بولنے، بلکہ بولتے رہنے کی بات کر رہے ہیں!
دنیا بھر میں بولنا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا ہم سے بہت پیچھے رہ گئی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس حوالے سے دنیا والے غار کے زمانے میں جی رہے ہیں جبکہ ہم خاصے ترقی یافتہ ہو چکے ہیں۔ ہم نے بولنے جیسی بنیادی ضرورت کو بھی فن اور تماشے میں تبدیل کر دیا ہے۔ ''زندہ‘‘ قوم کی ایک بڑی پہچان یہ ہوا کرتی ہے کہ وہ جب اور کچھ نہیں کر پاتی تو معاملات کو کچھ کا کچھ کرنے پر تُل جاتی ہے۔ اِس ''نظریے‘‘ کی رُو سے ہم نے اب تک بہت سے معاملات میں ''زندہ‘‘ قوم ہونے کا بھرپور ثبوت دیا ہے۔ کرکٹ کا معاملہ اظہر من الشمس ہے۔ کرکٹ اوروں کے لیے کھیل ہو گا، ہم نے اِس کھیل کو ڈیپارٹمنٹل سٹور میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہماری کرکٹ سے ہر شخص اپنی نفسی ضرورت اور مرضی کے مطابق کچھ نہ کچھ کشید کر سکتا ہے! کھیل میں تفریح، کاروبار، گلیمر، فیشن غرض سبھی کچھ اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ اب معاملہ ''من تو شدم، تو من شدی‘‘ کی منزل تک پہنچ گیا ہے۔
بولنے کا کیس بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ہمارے لیے یہ بنیادی ضرورت بھی ہے مگر اِس سے کہیں بڑھ کر تعیّش کا آئٹم ہے۔ ہم نے کئی عشروں کی محنتِ شاقّہ کے ذریعے بولنے کو سانس لینے جیسے عمل میں تبدیل کر لیا ہے۔ اور نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ہم ضرورت کے تحت بولنے کے بجائے بولنے کے لیے زندہ ہیں!
کوئی بھی چیز عادت بن جائے تو اپنی خوبصورتی اور دل آویزی کھو بیٹھتی ہے۔ مثل مشہور ہے ع
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
مگر یہ بھی ہمارا ہی حوصلہ ہے کہ جو کام روز کرتے ہیں اُس سے نہ صرف یہ کہ بیزار نہیں ہوتے بلکہ یومیہ بنیاد پر ورائٹی بڑھاتے رہنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ گفتگو کی ہانڈی میں ہم روزانہ کوئی نہ کوئی نیا مسالا ڈالتے ہیں تاکہ مزا اپ ڈیٹ ہوتا رہے!
ہمارا بولنا بھی ایسا ہے کہ دنیا دیکھے (یعنی سُنے) تو انگشت بہ دنداں رہ جائے۔ اہل جہاں صرف بولتے ہیں اور وہ بھی محض ضرورت کے تحت۔ یہ تو ''کفرانِ نعمت‘‘ ہے! ایسی حالت میں بہت کچھ ''بے بولا‘‘ ہی رہ جاتا ہے۔ منہ کاہے کو ملا ہے؟ جو کچھ ذہن میں ابھرتا ہے وہ زبان پر آنا ہی چاہیے۔ ہم کوئی گونگے تو ہیں نہیں کہ چپکے بیٹھ رہیں۔ ذرا غور کیجیے یعنی پوری توجہ سے سُنیے تو آپ کو اپنے قریبی یا اندرونی حلقے میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جنہیں سُن کر اندازہ لگانا دشوار ہو جاتا ہے کہ بولنا فن ہے، تفریح ہے یا پھر محض آزار ہے!
ہم محض بولنے کے فن ہی کے امام نہیں‘ بلکہ بات سے بات نکالنے کے ہنر میں بھی درجۂ کمال پر فائز ہیں! ہمارے دماغ کا وزن بھی اتنا ہی ہے جتنا باقی دنیا والوں کے دماغوں کا‘ یعنی یہی کوئی تین پاؤنڈ یا 1400 گرام مگر اُس میں پیدا ہونے اور منہ تک آنے والی باتوں کو تولا جائے تو یومیہ اوسط ڈیڑھ دو من تو بنے گا! بعض تو ایسے فنکار ہیں کہ ان کی ایک ایک بات من من بھر کی محسوس ہوتی ہے مگر غور کیجیے تو ایک گرام کے بہ قدر بھی مفہوم برآمد نہیں ہوتا! یہ ایسا ''کمال‘‘ ہے کہ پتھر کے جگر کو بھی پانی کر ڈالے! پتھر کے جگر کو پانی کرنے کی سکت اگر کسی فن میں ہے تو وہ یہی بولنے کا فن ہے‘ اور ہمارے ہاں تو بولنے کی صلاحیت نے پہلے فن کا درجہ پایا اور اب یہ فن ''ٹیکنالوجی‘‘ کے منصب پر فائز ہو چکا ہے! صوتی اثرات کی بات تو بہت کی جاتی ہے لیکن اگر کسی کو صوتی اثرات کی جادوگری دیکھنی ہو تو چند دن پاکستان میں گزار کر دیکھے کہ یہاں خاموش رہنے کو تقریباً حرام سمجھا جاتا ہے! بولنے کی ''ٹیکنالوجی‘‘ سے ہم نے ایسے ایسے کام لیے ہیں کہ دیانت سے جائزہ لے تو دنیا ہمیں ''رجحان ساز‘‘ تسلیم کرے۔
آج کا پاکستان بولتا پاکستان ہے۔ ہر طرف باتیں ہیں۔ کہتے ہیں باتوں میں کیا رکھا ہے، کام ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے۔ کسی نے کہا ہے ؎
پاکستان کے ہر گوشے میں ہنستے بستے لوگ ملیں
دِیے جلیں آنکھوں کے اندر، بات کریں تو پھول کِھلیں
یہ ایک ملی نغمے کا مکھڑا ہے جو شہنشاہِ غزل مہدی حسن نے 30 سال پہلے گایا تھا۔ ان تین عشروں میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ پاکستان کے ہر گوشے میں ہنستے بستے لوگ اب بھی پائے جاتے ہیں مگر ''ہنستے بستے‘‘ سے کہیں زیادہ وہ اب ''بولتے، بَکتے‘‘ نظر آتے ہیں۔ وہ زمانہ ہوا کہ خنجر کی زبان چپ رہا کرتی تھی اور آستین کے لہو کو پکار پکار کر قاتل کی نشاندہی کرنا پڑتی تھی۔ پاک سرزمین پر ہر معاملہ بولنے کی نذر ہو چکا ہے تو خنجر کیوں چپ رہے؟ اب خنجر اپنی زبان سے سب کچھ بیان کر دیتا ہے تاکہ آستین کے لہو کو نشاندہی کی زحمت نہ اٹھانا پڑے!
جو لوگ یہ کہتے پھرتے تھے کہ باتوں میں کیا رکھا ہے وہ منہ کی کھا چکے ہیں کیونکہ پاکستان میں بہت سے لوگ منہ کی کھا رہے ہیں یعنی صرف باتوں سے ان کی ہر تمنا پوری ہو رہی ہے۔ وہ لوگ بھی اب منہ چھپاتے پھرتے ہیں جو یہ کہتے ہوئے اپنے لوگوں کو شرم دلاتے تھے کہ ع
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں، سیّد کام کرتا ہے!
اب سیّد کام کرے یا نہ کرے، ہماری باتیں ہمارا کام کر رہی ہیں۔ محض باتیں بگھارنا کسی دور میں وقت کے ضیاع کے مترادف تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ جہاں لوگ سانس لینے کے معاملے میں آکسیجن سے زیادہ باتوں پر انحصار کرتے ہوں وہاں اگر باتوں کا سِکّہ نہیں چلے گا تو پھر کس کا چلے گا؟
بولنے یا بولتے رہنے کو بیماری کے درجے میں رکھ کر قوم کو خاموشی کی راہ پر گامزن ہونے کا مشورہ دینے والے بھی اب شرمسار سے ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ جسے بیماری سمجھ بیٹھے تھے اُسی نے قوم کا علاج کر دیا ہے۔ وقت کو بروئے کار لانے میں سو دِقّتیں ہیں۔ ایسے میں بہتر تو یہی ہے کہ وقت گزار دیا جائے۔ اور یہ بات بھی اب تک بہت سی اقوام سمجھ نہیں پائیں کہ وقت قاتل کا کام بھی کرتا ہے، اگر اُسے ڈھنگ سے نہ گزارا جائے۔ ایسے میں یہی بہتر ہے کہ وقت کو پہلی فُرصت میں یعنی موقع پاتے ہی قتل کر دیا جائے! بہت سے لوگ اِس عمل کو کفرانِ نعمت سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ بھی اُن کی سوچ کا چُھٹپن ہے۔ ہم وقت کو اس لیے قتل کر رہے ہیں کہ کل کو وقت پر قاتل کا لیبل چسپاں نہ ہو!
اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے وسط کا پاکستان بہت سے معاملات میں نُدرت اور جدت سے ہمکنار نہیں مگر بولنے کے معاملے میں تو ''رجحان ساز‘‘ ہے۔ پاکستانیوں کو باتوں کے سمندر میں غرق دیکھ کر دنیا والے سوچتے تو ہوں گے کہ شاید اِس کائنات میں انسان کو متعارف کرانے کا مقصد صرف بولنا ہے۔ شاباش، بولتے رہو مُنّا بھائی! ع
''بولتے ہی چلے جاؤ‘‘ تمہیں ڈر کس کا ہے!