ٹریفک وارڈنز کا تصور یہ تھا کہ پولیس کا ایک ایسا شعبہ تیار کیا جائے‘ جو شہری ٹریفک کی بدنظمی کو ختم کر کے‘ بہترین اور منظم ٹریفک کا نظام بحال کرے اور یہ مقصد پورا کرنے کے لئے کانسٹیبل کی تعلیم بی اے ہو ۔ اس کی تنخواہ ٹریفک پولیس کے عام سپاہی کے مقابلے میں زیادہ رکھی جائے۔ اسے تہذیب اور خوش اخلاقی کی خصوصی تربیت دے کر موٹروے پولیس کے معیار تک لایا جائے اور شہریوں کو ٹریفک پولیس کے ہاتھوں ‘جس بے عزتی‘ لوٹ مار اور بے جا سزائوں کانشانہ بننا پڑتا ہے‘ اس سے وہ محفوظ رہ سکیں۔ بڑے اہتمام سے یہ شعبہ قائم کیا گیا۔ اس میں تعلیم یافتہ نوجوان بھرتی کئے گئے اور انہیں خوش اخلاقی سے پیش آنے کی تربیت دی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ لاہور شہر میں ٹریفک کے نظام کو بہتر اور معیاری بنا کر‘ شہریوں کے لئے ٹریفک کے نظام کو منظم کیا جائے اور ٹریفک پولیس اور عام آدمی کے درمیان جو بدمزگیاں پیدا ہوتی ہیں‘ ان کی جگہ شہریوں کو ایک اچھی اور مہذب پولیس سے واسطہ پڑے۔ یہ نئی فورس بنانے والوں کے پیش نظر ‘ موٹروے پولیس کا تجربہ تھا۔اس پولیس کا عملہ بھی پرانی پولیس ہی سے لیا گیا تھا‘ لیکن موٹروے کے مسافر خوش نصیب رہے کہ اس نئی پولیس میںشروع ہی سے ڈسپلن‘ تہذیب اور خوش اخلاقی کو فوقیت دی گئی اور حیرت کی بات ہے کہ وہی پرانی پولیس‘ جو بدتمیزی‘ رشوت اور شہریوں کی توہین کرنے کی عادی تھی‘ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مہذب ملک کی پولیس بن گئی اور مزید حیرت کی بات یہ کہ شروع میں جو روایت قائم کی گئی تھی‘ اس کا معیار برقرار رکھا گیا۔ مجھے ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں‘ جس میں موٹروے پولیس کی کسی زیادتی یا بدسلوکی کی شکایت کی گئی ہو۔
دوسری طرف ٹریفک وارڈنز بالکل ہی نئے اور تعلیم یافتہ لوگوں کو بھرتی کر کے بنایا گیا۔ اس میں بھی ایک فلسفہ تھا کہ اگر پرانی پولیس کو مزید سہولتیں اور مراعات دے کر ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی‘ تو اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا۔ شہبازشریف اور چوہدری پرویزالٰہی دونوں نے پولیس کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کر کے دیکھ لیا‘ لیکن نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ وارڈنز معمول کی ٹریفک پولیس سے بھی زیادہ بدتمیز‘ رشوت خور اور ڈیوٹی چور نکلے۔ پرانی پولیس کا ایک سپاہی چوراہوں کا کنٹرول سنبھالا کرتا تھا اور خصوصاً رش کے اوقات میں اسے معلوم ہوتا تھا کہ کس طرف سے ٹریفک زیادہ آئے گا او ر کس طرف سے کم اور اسے رواں دواں رکھنے کے لئے اسے کیا طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سکولوں کی چھٹیاں ہوتی تھیں‘ تو عمومی طور پر ٹریفک آج کے مقابلے میں بہتر طریقے سے رواں دواں رہتا تھا۔ مگر ٹریفک وارڈنز کا جو تحفہ اہل لاہور کو ملا ہے‘ اس نے تو ٹریفک کا رہا سہا نظم و نسق بھی تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ٹریفک وارڈنز نے سب سے پہلے اچھے خاصے معززین کو رسوا کرکے اپنی ساکھ بنانے کی کوشش کی۔ مثلاً جہاں بھی کوئی معزز آدمی غلطی کرتا دکھائی دے جاتا‘ وارڈنز اسے گھیرے میں لے کر پہلے خوب بے عزتی کرتے‘ اس کا چالان کرتے اور بڑے اہتمام سے اگلے روز میڈیا میں اس کی خبریں چلواتے۔ وارڈنز اپنی طرف سے یہ تاثر پیدا کر رہے تھے کہ وہ کسی چھوٹے بڑے کا لحاظ نہیں کرتے۔ جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے‘ اس کا چالان کر دیا جاتا ہے۔ ایسی شہرت کے لئے مختلف شعبوں کے سٹارز بہترین ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ عمراکمل ہماری کرکٹ ٹیم کا ایک مایۂ ناز کھلاڑی ہے۔ حسب ضرورت وکٹ کیپنگ بھی کر لیتا ہے۔ لیکن چوکے اور چھکے لگانے میں اسے کمال حاصل ہے۔ بارہا اس کی بیٹنگ نے پاکستانی ٹیم کو میچ جتوائے۔ میرے خیال کے مطابق اس کے پاس انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس ہے اور کبھی باہر سے ایسی خبر نہیں آئی کہ وہ ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے پکڑا گیا‘ لیکن آفرین ہے ہمارے ٹریفک وارڈنز پر کہ انہوں نے عمر اکمل کو بھی دبوچ لیا۔ سڑک پر اس کی بے عزتی کی۔ اور تھانے لے جا کر جرمانہ وصول کیا۔ کھلاڑی اور فنکار اپنی شہرت اور عزت کے لیے بڑی محنت کرتے ہیں‘ لیکن ٹریفک وارڈنز کو غالباً شوق ہی یہ ہے کہ عزت داروں کو بے عزت کر کے‘ اذیت پسندی کا شوق پورا کیا جائے۔ شروع شروع میں تو جب یہ معززین کو دھرتے تھے‘ تو مقررہ جرمانہ وصول کر کے‘ فرض شناسی کا ثبوت دیتے‘ مگر جیسے ہی انہیں تجربہ ہوا کہ عزت دار لوگ جرمانہ آسانی سے دے دیتے ہیں‘ تو انہوں نے سوچا کہ آسان کمائی کا موقع کیوںضائع کیا جائے؟ پہلے پہل تو انہوں نے خوشحال لوگوں سے سلام کر کے وصولیاں شروع کیں اور اس کے بعد جب رکشا ٹیکسی ڈرائیور کی باری آئی‘ تو اس ستم گاروں نے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے اور دوائوں کا خرچ تک ختم کر دیا۔ رکشہ ٹیکسی ڈرائیور کو تھپڑ مارنا تو یہ اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ ہر رکشہ ٹیکسی ڈرائیور ایک ہی رونا روتے نظر آتا ہے کہ ٹریفک وارڈنز ان کی بے عزتی ہی نہیں کرتے بلکہ سرعام تھپڑ مار کر ان کی عزت نفس کو بھی مجروح کرتے ہیں اور جو کچھ ان کی جیب میں ہوتا ہے‘ چھین کر انہیں مزید تھپڑ رسید کر کے دھکے دے کر رخصت کر دیتے ہیں۔ ایسے واقعات میں جب شقی القلبی انتہا سے بڑھ جاتی ہے‘ تو پھر وہی ہوتا ہے‘ جو لاہور کی ایک پررونق سڑک پر رکشا ڈرائیور نے کیا۔ ہماری حکومتیں‘ اپنے حقیقی خدام یعنی بیورو کریسی کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ کبھی ایسی حکومتیں ہوا کرتی تھیں‘ جو عوام کو سہولتیں پہنچانا‘ کسی نہ کسی حد تک اپنے فرائض کا حصہ سمجھتی تھیں۔ اب تو آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہے۔ پولیس اور بیوروکریسی ‘ ہماری حکومتوں کے سب سے لاڈلے پالتو ہیں۔حکمران‘ پولیس فورس یا بیورو کریسی سے عوام کی خدمت کا کوئی تقاضا نہیں کرتے۔ وہ ان سے صرف یہی چاہتے ہیں کہ عوام کو بے عزت کریں۔ انہیں ان کے قانونی حقوق مانگنے پر سزائیں دیں اور جواب میں حکمران انہیں پورا تحفظ دیں۔ دور کی بات نہیں کرتا۔ تھوڑا عرصہ پہلے ہی پولیس نے ماڈل ٹائون میں چاردیواری کے اندر بیٹھے مردوں اور عورتوں پر اندھا دھند گولیاں چلائیں اور کم و بیش ایک سو سے زیادہ عورتیں اور مرد گولیوں کا نشانہ بنے۔ جن میں سے 14 موقع پر ہلاک ہو گئے۔ حکومت نے اپنے کارندوں کو سزائوں سے بچانے کے لئے ہر کوشش کر دیکھی۔ ان کے ورثا کو''فی ہلاکت‘‘ 30لاکھ روپے نقد دینے کی کوشش کی‘ مگر وہ نہیں مانے۔ میرے ذہن میں جب بھی امید کا چراغ جلتا ہے‘ تو ایسے ہی واقعات سے روشنی لیتا ہے کہ جب بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے اپنا ایمان بیس بیس ہزار میں بیچ دیتے ہیں مگر غریب آدمی 30لاکھ کی خطیر رقم کو ٹھکرانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو انشاء اللہ جلد ہی پاکستان کی قسمت بدلے گا۔ حرص و لالچ کے ان حقیر کیڑوں مکوڑوں کو ننگے پیروں والا کسان بھی کچل کے رکھ سکتا ہے۔ اگر قانون کی طاقت سے مسلح بزدلوں کے سامنے مظلوم اکٹھے ہو کر کھڑے ہو جائیں‘ تو رشوتوں پر پلنے والے یہ بزدل‘ خوف سے ہی مر جائیں گے۔ ایک دن یہی ہونے والا ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں ایک رکشہ ڈرائیور ‘جب حکومت اور اس کے کارندوں کے مظالم سے تنگ آ گیا‘ تو اس نے سڑک پر کھڑے اپنے رکشا کو آگ لگا دی۔ جب کوئی غریب آدمی اپنی آخری پونجی کو بھی جلانے پر تل جائے‘ تو اس کا آخری قدم قانونی لٹیروں کی گردن پر ہوتا ہے۔ سڑک پر قانون کی وردی پہن کر کھڑے ڈاکو‘ مظلوموں کا خون نچوڑتے ہیں‘ تو انہیںیہ موقع حکومت فراہم کرتی ہے۔ دو دو ٹکے رشوت لینے والے کلرکوں نے بیٹھے بیٹھے ایک دن فیصلہ کر لیا کہ اب چنگ چی رکشہ سڑکوں پر نہیں چلے گا۔ ان عقل کے اندھوں سے سوال کرنا چاہیے کہ پہلے یہ رکشے کس کی اجازت سے چلے تھے؟ برسوں تک یہ چلتے رہے۔ محنت کشوں نے قسطوں یا قرضوں
پر یہ رکشے لے کر‘ بال بچوں کی روٹی کا بندوبست کیا۔ اب ان رکشوں کا سڑکوں پر چلانا بند کر دیا گیا ہے۔ غربت اور بھوک کا ستایا ہوا ایک رکشہ ڈرائیور‘ لٹیروں کے ہاتھ چڑھ گیا۔ انہوں نے سب سے پہلے حسب روایت اس کی جیبیں خالی کروائیں۔ اس نے اپنی غریبی کا واسطہ دیتے ہوئے بتایا کہ اگر آج وہ کچھ لے کر گھر نہ گیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے۔ جس پر وارڈن نے اسے تھپڑ مارنا شروع کر دیئے۔ بھوک‘ بے عزتی‘ ڈاکہ زنی اور گھر میں روٹی مانگتے ہوئے بھوکے بچے۔ ایسی حالت میں کون انتہائوں کو نہیں چھوتا؟ رکشہ ڈرائیور نے جیب سے ماچس نکالی اور رکشہ کو آگ لگا دی۔ یہ آج کی بات ہے۔ ممکن ہے کہ اگلی بار اسی طرح کا کوئی رکشہ ڈرائیور اپنے رکشے کو آگ لگانے کی بجائے‘ وارڈن پر تیل چھڑکے اور ماچس کی جلتی ہوئی تیلی اس پر پھینک دے۔ایک نہ ایک دن یہ ہونا ہے۔