لندن میں سینیٹرانور بیگ سے ملاقات ہوئی۔ وہ جنرل حمیدگل کی موت پر دکھی تھے۔ کہا، پچھلے ہفتے وہ ان کے گھر دعوت میں شریک تھے جہاں اکثر صحافیوں اور دوسرے لوگوںکی ان سے آخری ملاقات ہوئی۔انور بیگ نے کچھ نام لے کر کہا، وہ سوشل میڈیا پر جنرل گل کے بارے میں نازیبا باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا، بیگ صاحب آپ دکھی نہ ہوں، جنرل گل ایک متنازع شخصیت تھے، وہ اسی طرح جینا اور مرنا چاہتے تھے۔ ہر مشہورانسان متنازع ہوتا ہے، اگر متنازع نہ ہو تو لوگ بھول جاتے ہیں۔ جنرل وحیدکاکڑ غیرمتنازع تھے، کتنے لوگ انہیںجانتے ہیں؟ جنرل گل یہ رازجان چکے تھے، لہٰذا ان کی دوستیاں اپنے ناقدین سے زیادہ تھیں۔
جنرل حمیدگل سے پہلی ملاقات 2002ء کے آخر میں دوست کالم نگار ہارون الرشید کے ہمراہ ان کے گھرہوئی۔ جنرل گل کی مدد کی ضرورت پڑگئی تھی۔ ہمارے صحافی دوست شاہین صہبائی جنرل مشرف کے زیرعتاب تھے، ان کی تحریروں نے جنرل مشرف کے ہائوس آف کارڈز میں طوفان برپاکیا ہوا تھا۔ بینظیر بھٹو، نواز شریف ڈیل کر کے پاکستان چھوڑ گئے تھے کہ اچھے دنوں میں پھر نئی ڈیل کر کے لوٹ آئیںگے۔جنرل مشرف سے جو لڑائی بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے لڑنی تھی وہ اب شاہین صہبائی لڑ رہے تھے۔ انہوں نے جنرل مشرف کا پورا امتحان لینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا کیونکہ ایک دن جنرل مشرف کے منہ سے نکل گیا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں ججوں اور جرنلسٹوں کو آزادی دے رکھی ہے۔شاہین صہبائی کی ہر تحریر بم کی طرح جنرل مشرف پرگرتی۔فیصلہ ہوا، شاہین صہبائی کو مزہ چکھایا جائے۔ شاہین ان دنوں امریکہ میں تھے۔ایک ایجنسی کو کام سونپا گیا، وہ شاہین صہبائی کو فکس کرے ۔ شاہین صہبائی کی کراچی میں مقیم بہن، بہنوئی اور ایک بھتیجے پر مقدمات قائم ہوئے۔شاہین پر اپنے رشتہ دارکے گھر سے واشنگ مشین چوری کرنے کا مقدمہ بنا۔ بہنوئی جو چھ چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کا باپ تھا اسے کراچی سے گرفتارکرکے جنرل مشرف کے حکم پر اڈیالہ جیل (راولپنڈی) میں ڈالاگیا تاکہ شاہین صہبائی کو جھکایا جا سکے۔ان کے بھتیجے پر الزام تھاکہ اس نے واشنگ مشین چرانے میں اپنے چچاکی مدد کی تھی۔ وہ بھی جیل میں تھا۔ وکیل ظفرعلی شاہ، ڈاکٹر ظفر الطاف اور میں ایجنسیوں کی سخت مخالفت کے باوجود اس مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔ ہر دفعہ ایجنسی کا افسر عدالت میں جج سے ملتا اور ضمانت نہ ملتی۔ ایک دن ہارون الرشید سے بات کی۔ہم دونوں جنرل گل سے جا کر ملے کہ ان مظلوموں کی جان چھڑائی جائے۔ میرا خیال تھا سخت مزاج ہوںگے۔ لیکن انہیں انتہائی مہذب پایا۔ بولے، اگرچہ وہ ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی کسی سے بات کریں گے۔ جنرل گل سے اس دن تعلق بنا جو ان کی وفات تک قائم رہا۔مجھے علم تھا میرا ان کے خیالات اور فلسفے سے کبھی اتفاق نہیں ہوسکے گا۔ جنرل گل کو بھی پروا نہیں تھی کہ ان کے خیالات سے ضروراتفاق کیا جائے۔
جنرل حمید گل کے بارے میں سب سے اچھی گفتگو میجر عامر سے سنی۔ وہ خود ایک بڑا کردار ہیں جس پرکتاب لکھی جانی چاہیے۔ میجر عامرسے جنرل گل کی افغان جنگ کے دنوں کی حیرت زدہ کرنے والی داستانیں سنیں، پھر بھی میں ان کا قائل نہ ہو سکا۔ جنرل گل جب میجر عامرکے گھرکھانے پر مدعو ہوتے توان (میجر عامر) کی خوشی دیدنی ہوتی۔ لگتا،ایک بچے کو اپنا پسندیدہ ترین کھلونا مل گیا ہے۔ میجر عامرکی سنائی ہوئی کئی باتوں کے باوجود جنرل گل کے فلسفے سے دل متفق نہ ہوا۔
چند برس پہلے راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں ایکس سروس مین کی تقریب میں جنرل حمید گل کوایک گھنٹہ سننے کا موقع ملا۔ جنرل اسلم بیگ نے بھی تقریرکی۔دونوںکا نظریہ ایک تھا کہ افغانستان کو امریکی افواج کی موجودگی میں بھی فتح کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد پورا سینٹرل ایشیا اور پھر پوری دنیا۔ میں دم بخود ہوکر سنتا رہا۔ مجھے یاد ہے، احسن اقبال اپنی باری پر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے کہ ہمارے ریٹائرڈ جنرلزکس دنیا میں زندہ ہیں۔ لیکن جنرل گل اپنی بات پر قائم تھے، ان کا خیال تھا، یہ سب ممکن ہے۔ اور تو اور فوج میں ان کے اپنے ریٹائرڈ ساتھی بھی ان کی باتوں سے متفق نہ تھے۔ایکس سروس مین کے اجلاسوں میں جب جنرل حمیدگل ملکی یا غیرملکی معاملات پر ایک اسٹینڈ لیتے اور دوسرے ریٹائرڈ جنرلز شدت سے مخالفت کرتے تو اکثر بات تلخی تک پہنچ جاتی۔
شعیب سڈل کے صاحبزادے کے ولیمے میں ملاقات ہوئی تو میں نے کہا، جنرل صاحب آج کل بھارتی ایجنسی را کے ایک سابق افسرکی کتاب پڑھ رہا ہوں۔ مسکرا کر پوچھا کیا لکھتا ہے۔ میں نے کہا، وہ لکھتا ہے جب آپ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تو آپ کی تین خفیہ ملاقاتیں بیرون ملک بھارتی ایجنسی کے سربراہ سے ہوئی تھیں اور جن کا اہتمام ایک عرب ملک کے اس شہزادے نے کیا تھا جو راجیوگاندھی اور جنرل ضیا دونوںکے قریب تھا۔ ان ملاقاتوںکے بعد پاکستان نے خفیہ طور پر وہ سکھ فوجی جوان بھی بھارت کے حوالے کر دیے تھے جو پنجاب میں چلنے والی سکھوں کی تحریک کے دوران بھارتی فوج چھوڑکر پاکستان سے آ ملے تھے؛ تاہم اس شرط پر وہ واپس کیے گئے کہ ان بھگوڑے بھارتی سکھ فوجیوں کو سرحد کے قریب ایک مقام پر رکھا جائے گا اور بھارتی فوج اچانک چھاپہ مارکر انہیںگرفتارکر کے لے جائے گی تاکہ یہ نہ لگے کہ پاکستان نے جان بوجھ کر انہیں بھارت کے حوالے کیا ہے، اسے بھارتی فوج کی ایک خفیہ کارروائی سمجھا جائے۔ بعد میں ان سکھوں کا کیا حشر ہوا وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔
جنرل گل نے بڑی تسلی سے سنا اورکہا انہوں نے وہ کتاب نہیں پڑھی۔ ویسے سکھ فوجیوں والی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ میں نے کہا،کسی دن آپ سے اس پرانٹرویوکرناچاہتا ہوں۔کہا ضرور تاہم اس انٹرویو کی باری کبھی نہ آئی۔
کبھی کبھی مجھے جنرل صاحب اپنی ہی طرح کے لگتے۔۔۔۔۔ اپنے خیالات کے شدید رومانس میں گم اور اپنی الگ دنیا بسائے رہنے والے ۔ البتہ ان میں ایک خصوصیت وافر تھی جو مجھ میں نہیں۔ وہ اپنے ناقدین سے اپنے دوستوں سے بھی زیادہ پیارکرتے تھے، میں یہ کبھی نہیں کر سکا۔
ٹی وی پروگراموں میں کئی باران کے خیالات اور فلسفے پر تنقیدکی، کئی کالم لکھے، مجال ہے ان کے ماتھے پر شکن آئی ہو۔ ہر دفعہ مسکرا دیتے۔کوئی بات اچھی نہ لگتی تو موبائل پر اتنا لکھ کر بھیج دیتے کہ رئوف، آپ نے یاد کیا، شکریہ۔۔۔۔۔گُل۔
میرا ایک کالم انہیں پسند نہ آیا تو طویل میسج کیا۔ میں نے فون کرکے کہا، جنرل صاحب! آپ واحد شخصیت ہیں جو میری تحریریں برداشت کرلیتے ہیں، میرے اندر یہ احساس رہنے دیں۔ قہقہہ لگایا اور بولے، سوری یار۔
ایک دفعہ میں شدید دکھ کی کیفیت میں تھا۔ میرا لیہ کالج کا ایک کلاس فیلو مجھے اسلام آباد میں پچیس برس بعد ملا۔ وہ ایک سکیورٹی فورس میںکرنل تھا۔ باتوں باتوں میں بتایا، آج کل ہماری ایجنسی شدید پریشانی کی شکار ہے۔کرک کے ایک ایم این اے کو اٹھایاگیا ہے۔ وہ بیت اللہ محسودکا خط لے کر جنرل گل کے پاس جا رہا تھا جس میں اس نے ٹی وی چینلز پر جنرل گل کی حمایت پر شکریہ ادا کیا تھا۔فیصلہ ہوا ہے کہ اس معاملے کو دبا دیا جائے، بدنامی ہوگی۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ جنرل گل جنہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر طویل جنگ لڑی تھی وہ ریٹائر ہوتے ہی کیسے اس کے خلاف ہوگئے۔ عرصے بعد سحر صدیقی کی غلام اسحاق خان پر لکھی کتاب پڑھی تو معلوم ہوا کہ امریکہ سے دشمنی کی وجہ کیا تھی۔ جنرل گل نے اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ انہیں غلام اسحاق خان نے بتایا تھا وہ (جنرل گل) تو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے لیکن امریکہ نے نہیں بننے دیا۔ میں نے جنرل گل سے ہنس کرکہا، سر!امریکہ نے آپ کو آرمی چیف نہ بنوا کر بڑی قیمت ادا کی ہے، آپ نے بھی انہیں معاف نہیںکیا۔
ذاتی مراسم قائم رکھناکوئی ان سے سیکھتا۔ میری بیوی بیمار ہوئی توکئی دفعہ فون کیا اور دیر تک اپنی بیگم کی بیماری کے حوالے سے قصے سناکر حوصلہ دیتے رہتے۔جب ان کی بہادر بیٹی عظمیٰ گل کی بس سروس واران کے خلاف(جنرل مشرف سے شہبازشریف تک سب نے جنرل گل کے نظریات سے اختلاف کی بنا پر) کارروائیاںکیں اور اتنی اچھی بس سروس بندکرادی تو میں نے ان کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھائی جس پر وہ شکرگزار ہوئے۔
جنرل گل گمنام زندگی نہیںگزارنا چاہتے تھے۔ انہیں خود کو متنازع بنانے کا فن آتا تھا اور وہ فن تھا مخالفوںکو گلے لگاکر رکھنا۔ میں ان شدید نقادوں میں سے تھا جنہیں ہمیشہ گلے سے لگائے رکھا۔ میں جنرل گل کی جگہ ہوتا تو اپنے جیسے نقادوں کی شکل تک نہ دیکھتا۔ جنرل گل سرد جنگ دورکے جنرل تھے۔ وہ اس یقین کے ساتھ زندہ رہے کہ پراکسی جنگوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرزکے ذریعے بھارت، امریکہ ، افغانستان کو فتح کیا جاسکتا ہے، بس نان اسٹیٹ ایکٹرزکو استعمال کرتے رہو۔ پراکسی جنگوں میں معصوم لوگوں کا بہتا خون بھی انہیں اپنی منزل کی طرف ایک سفر لگتا تھا۔ انہیں کوئی نہ سمجھا سکا کہ دنیا بدل گئی ہے۔ یا شاید ہم جنرل گل کی بسائی ہوئی دنیا کو نہ سمجھ سکے۔ جنرل گل اپنی بسائی ہوئی رومانٹک دنیا اور خیالات سے رہائی نہیں چاہتے تھے۔ وہ اپنی اس سوچ کے قیدی رہے کہ دنیا نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے فتح کی جاسکتی ہے۔ جنرل گل کوکوئی نہیں بدل سکتا تھا۔ باقی چھوڑیں، جو لوگ ماضی میں ان کے گرویدہ تھے وہ بھی اب ان کے خیالات سے نالاں ہوچکے تھے۔ میں پھر کہوں گا کہ جنرل گل کی یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ انہوں نے اپنے بدترین ناقدین سے بھی پیارکیا،انہیں عزت دی، ان کے لاڈ اٹھائے، خیال رکھا، لیکن ان سے کبھی ہارنہیں مانی اور اپنی ہی شرائط پر جیے۔۔۔۔!