کبھی ہم پر بھی عظمت کا زمانہ آیا تھا۔ کبھی ہم بھی رفعتوں کے امین تھے۔ کبھی ہم بھی زمانے کی راہ نمائی کیا کرتے تھے۔مگر اب صرف یادیں رہ گئی ہیں۔ اور یادوں کا کام اس کے سوا کیا ہے کہ دل جلاتی رہیں، تکلیف دیتی رہیں۔ جس امت نے عصری تقاضوں کو نبھانا سیکھ لیا تھا اور زمانے کو جدت و ندرت کے اسباق دینے کی مہارت پیدا کرلی تھی اُس کے پاس اب عظمتِ رفتہ کے افسانوں کو دہراتے رہنے کے سوا کوئی ڈھنگ کا شغل بچا کب ہے؟ ہم کچھ اتنی شدت سے انحطاط پذیر ہیں کہ نئی نسل کو لاکھ یقین دلائیے، وہ یہ ماننے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی کہ کبھی ہم بھی علوم و فنون کی دنیا پر حکمرانی کرتے تھے۔
آج بہت سے ممالک یا خطوں کے مسلمان تمدن کے اعتبار سے انتہائی پست سطح پر ہیں۔ معاشرتی عِلّتیں ان میں اس قدر پائی جاتی ہیں کہ دیکھیے تو دل رنجیدہ ہوجاتا ہے۔ اگر زیادہ دور نہ جائیں اور اپنے خطے ہی پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم قابل رشک حد تک مہذب تھے اور آج قابل اعتراض حد تک غیر مہذب ہوچکے ہیں۔ غیر مہذب تو اس خطے میں اور کئی اقوام ہیں مگر ہمیں ان سے کیا؟ ہمیں تو اپنی بات کرنی ہے، اپنی اصلاح کی طرف قدم بڑھانا ہے۔
جب مسلمان بھارت پر قابض و متصرف تھے تب ایسا نہیں تھا کہ ہر معاملے میں مسلمانوں سے نفرت ہی کی جاتی ہو۔ بہت سے امور میں مسلمانوں کی برتری تسلیم بھی کی جاتی تھی اور مختلف علوم و فنون میں ان کی مہارت کو داد و تحسین سے بھی نوازا جاتا تھا۔ ہندوؤں نے مسلمانوں سے نفرت بھی کی اور انہیں اپنایا بھی۔ وہ اپنی بہت سی کمزوریوں سے بخوبی واقف تھے اس لیے مسلمانوں سے سیکھنے میں انہوں نے کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی تھا کہ مسلمان حملہ آور ہونے کے باوجود چند ایک اہم امور میں بہت سلجھے ہوئے اور شائستہ تھے۔ خاص طور پر معاشرتی معاملات میں۔ ہندوستانی معاشرہ ہزاروں سال سے ذات پات کے نظام کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس نظام نے ایک وسیع طبقے کو بہت نچلے درجے پر رکھا ہوا تھا۔ معاشرے میں پست ترین سطح پر رکھے جانے والے لوگ یعنی اچھوت ہزاروں سال سے انتہائی امتیازی سلوک جھیلتے آئے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اعلٰی ذات کے ہندو انہیں انسان ہی نہیں سمجھتے تھے۔ مسلمانوں نے انہیں انسان سمجھا اور گلے لگایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بیرونی اور حملہ آور قوت ہونے کے باوجود مسلمانوں کے لیے کروڑوں دلوں میں نرم گوشہ پیدا ہوا۔ ہندو مفتوح قوم تھے اس لیے مسلمانوں سے بہت سے اثرات قبول کرنا ان کے لیے فطری تھا۔ مگر مذہب کی تبدیلی؟ یہ بات تو انتہائی حیرت انگیز تھی۔ مسلمانوں کو بھی توقع نہ رہی ہوگی کہ ان کے زیر نگیں ہونے کے باوجود ہندو اسلام کی طرف مائل ہوں گے۔ عام طور پر حملہ آور کا مذہب کوئی قبول نہیں کرتا۔ اور اس سے بڑھ کر سچ یہ ہے کہ کوئی مذہب مستحکم اور متوازن بھی ہو تو اس کے ماننے والوں کی طرف سے جنگ مسلط کئے جانے پر لوگ اس کی تعلیمات سے متنفر ہوجایا کرتے ہیں۔
برصغیر میں مسلمانوں کے حوالے سے معاملہ اس کے برعکس تھا۔ کروڑوں ہندوؤں نے اپنے نظام کی خرابیوں اور مسلمانوں کی عمومی زندگی کی خوبیوں کو دیکھا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام کو اپنا لینے میں بقاء اور فلاح ہے۔ اور یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ مفتوح ہندوستان کے کروڑوں افراد نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ مسلمانوں کے افکار اور اعمال (یعنی عمومی زندگی) کی روشنی میں کیا ہوگا کیونکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے مستفید ہونا ان کی ذہنی استطاعت سے باہر کی بات تھی! سادہ الفاظ میں کہیے تو مسلمانوں کے عمومی رویّوں نے دین کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔
موہن داس کرم چند گاندھی سے ہم آپ اچھی طرح واقف ہیں۔ برطانوی راج ختم کرنے کی تحریک چلانے میں ان کا بھی اہم کردار تھا۔ گاندھی جی کی زندگی کے چند اہم واقعات پر کتاب ''باپو نی جھانکھی‘‘ (باپو کی جھلک) ان کے ذاتی معاون مہا دیو بھائی ڈیسائی نے گجراتی زبان میں مرتب کی تھی۔ اس کتاب میں گاندھی کے بچپن کا ایک ایسا واقعہ بھی درج ہے جو محض چند سطروں میں بیان ہوکر بھی کتاب کے برابر ہے۔ بہتر ہے کہ آپ یہ واقعہ گاندھی جی کے الفاظ میں پڑھیں۔ (قوسین میں وضاحت خاکسار کی طرف سے ہے۔)
''میں روتا روتا گھر آیا۔ ماں نے پوچھا کیا ہوا، کیوں رو رہا ہے۔ میں نے کہا کہ ماں! مجھے 'ڈھیریا‘ (خاکروب یعنی نچلی ذات کا ہندو) چُھو گیا۔ (اس کا مطلب یہ ہوا کہ دھرم بھرشٹ ہوگیا، ایمان آلودہ ہوگیا کیونکہ گاندھی اونچی ذات کے تھے!) ماں نے کہا اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ تو 'میاں بھائی‘ (مسلمان) کو ہاتھ لگالے!‘‘
مندرجہ بالا پیرا گراف کو ایک بار پھر غور سے پڑھیے۔ نچلی ذات کے ہندو کے چُھو جانے سے جب گاندھی کا ایمان یا مذہبی حیثیت آلودہ ہوگئی تو اُن کی ماں نے یہ نہیں کہا کہ کسی سربرآوردہ برہمن کو ہاتھ لگالو۔ اور یہ بھی نہیں کہا کہ کسی ایسی مسلمان شخصیت کو ہاتھ لگالو جو عبادت اور ریاضت کی بدولت کسی بلند درجے پر فائز دکھائی دیتی ہو۔ سیدھا سا جملہ ہے کہ جاؤ اور (کسی بھی) مسلمان کو ہاتھ لگالو!
جس وقت یہ واقعہ رونما ہوا تب گاندھی جی کی عمر سات آٹھ سال تھی۔ ہم 1876 عیسوی کے آس پاس کی بات کر رہے ہیں۔ تب مسلمان شدید سیاسی، معاشی اور معاشرتی زوال کے دور سے گزر رہے تھے۔ ایسے گئے گزرے زمانے میں بھی مسلمانوں کا معاشرتی معیار اس قدر بلند تھا کہ اعلیٰ ذات کے ہندو گھرانے کی ایک عورت اپنے بچے سے کہہ رہی ہے کہ نچلی ذات کے ہندو کے چُھونے سے دھرم پر سنکٹ آگیا ہے تو جاکر کسی بھی مسلمان کو چُھولے، سنکٹ دور ہوجائے گا!
یہ واقعہ اس امر کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ برطانوی سلطنت کے ہاتھوں شکست کھاکر حکمرانی کے حق سے محروم ہوجانے پر بھی مسلمانوں کی معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی برتری نے دم نہیں توڑا تھا اور ہندوؤں کی نظر میں وہ ویسے گِرے ہوئے نہیں تھے جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے۔ صدیوں کی مخاصمت اپنی جگہ مگر یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے اپنے لیے گڑھے خود کھودے ہیں۔ اس بات پر ہمیں غور کرنا ہی چاہیے کہ ہمیں چُھونے سے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا بھلا ہوجایا کرتا تھا تو اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ہمیں ہاتھ لگانے سے بھی گریز کیا جانے لگا ہے! جن کے دلوں میں ہمارے لیے مخاصمت اور نفرت ہے ان کے افکار و اعمال اپنی جگہ مگر اولین مرحلہ اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہے!