ایک بے دست و پا ریاست کوئی ریاست نہیں ہوتی۔ آزادی عظیم نعمت ہے مگر ڈسپلن کے بغیر وہ پاگل پن اور جنون کے سوا کیا ہے؟
رشید گوڈیل اور خان زادہ پر اذیت ناک حملوں کا پیغام کیا ہے۔ یہ المناک واقعات کن اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ المیے کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک فرد اور خاندان ہی نہیں کبھی پوری جماعت اس کا شکار ہوتی ہے۔ اپنے پیچھے وہ ماتم گساروں کو چھوڑ جاتے ہیں۔ دل چھلنی ہوتے اور آنسو بہتے ہیں۔ بیوہ عورتیں، یتیم بچے، گریہ کناں بھائی، بہنیں اور بیاہتائیں۔ قرآنِ کریم کہتا ہے: ایک بے گناہ کو جس نے قتل کیا، اس نے گویا پوری انسانیت کو مار ڈالا۔ معاشرہ خوف سے دوچار ہو جاتا ہے۔ جان و مال اور آبرو ہی اگر محفوظ نہیں تو ریاست کیا؟ آدمی نے اختیار جب حکومت کے حوالے کیا تھا تو اپنی ریاضت کے صلے میں اسے حصہ دار بنایا اور خود پر حکم چلانے کا حق دیا۔ اس عہد اور امید پر کہ اسے وہ احساسِ تحفظ عطا کرے گی۔
پچاس ساٹھ ہزار پاکستانی زندگیاں ہار چکے۔ ان میں مسلّح افواج کے چھ ہزار جوان اور افسر شامل ہیں، وہ جی دار جو ملک کی متاع ہیں۔ اساتذہ، دانشور، علما، ڈاکٹر اور انجینئر۔ مارکیٹیں، مساجد اور مزار مقتل ہو گئے۔ عامیوں کی موت کم المناک نہیں ہوتی۔ کوئی زندگی سستی نہیں ہوا کرتی۔ پھر لاہور کا ہسپتال، جہاں قادیانی زخمیوں کو ڈاکٹروں کی مدد سے بھون ڈالا گیا۔ مجموعی طور پر بھی اتنے لوگ 1948ء، 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں جاں بحق نہ ہوئے۔ دشمن کی سازش مگر ہمارے فرقہ واریت اور مذہبی جنون کے مارے لوگ! جہات بے شمار ہیں اور ایک سے
بڑھ کر ایک دکھ پہنچانے والی۔ مرکزی نکتہ یہی کہ ریاست اپنا فرض نبھا نہیں رہی۔ کراچی‘ بلوچستان، قبائلی پٹی، بھارتی اور افغان سرحد پر فوج کی تگ و تاز اور قربانیوں سے امید بندھی مگر دائمی طور پروہ میدانِ جنگ میں نہیں رہ سکتی۔ سول اداروں کا مستقل متبادل وہ نہیں۔ آئین کے تحت اس کا کام سرحد کی حفاظت ہے۔ سول اداروں کی حالت اگر یہی رہی تو مارشل لا ہمارا مقدر ہو گا۔ کیا یہ اس امر کا مظہر نہ ہو گا کہ جمہوری اور شورائی نظام سے برکت پانے کی بجائے، ایک قوم کی حیثیت سے ہم ناکام ہو گئے۔ 1947ء میں اپنا وطن ہم نے اس لیے حاصل کیا تھا کہ دشمن کے جور و ستم سے محفوظ رہیں اور آزادی میں فروغ پائیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہم بھارتی مسلمانوں جیسے شدید معاشی استحصال کا شکار نہیں‘ لیکن اگر عبادت گاہیں بھی غیر محفوظ ہیں تو ہم نے کیا حاصل کیا؟
صرف عمران خان، مولانا فضل الرحمٰن اور چوہدری نثار علی خاں خطرے میں نہیں۔ معلومات کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف، وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کے علاوہ پنجاب کے آئی جی بھی۔ علاوہ ازیں ہر وہ اہم شخص، جس کے لیے سخت حفاظتی انتظام نہیں۔ اس لیے کہ دشمن بے رحم ہے اور انتقام پر تلا ہوا۔ وہ چھپ کر اپنا ہدف تاکتا ہے، منصوبہ بندی کرتا اور خود کش دھماکے سے اڑا دیتا ہے۔ انسانوں کا کوئی گروہ اس سے محفوظ نہیں۔ بلوچستان کے علیحدگی پسند گروپ ہیں، مذہبی فرقہ پرست ہیں، طالبان، القاعدہ اور داعش۔ القاعدہ اور داعش کے سوا کہ ثانی الذکر کو ہم زیادہ نہیں جانتے، تقریباً تمام جنونیوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کی مدد حاصل ہے۔ بعض کو شدّت پسند عربوں اور ایرانیوں کی بھی۔ جنون ایک بیماری ہے، جو پھیلتی ہے تو دور دور تک پھیل جاتی ہے۔ تعصبات کو بھڑکا دیتی اور پاگل پن کو جنم دیتی ہے۔ پھر گروہی مفادات اس سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ اسرائیل کی ''موساد‘‘ بھی سرگرم ہے۔ بلوچستان، پختون خوا اور قبائلی پٹی میں افغانستان کی انٹلی جنس ایجنسی این ڈی ایس بھی‘ ''را‘‘ سے جس کے مراسم ہیں۔ افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات مدّتوں بھڑکائے گئے۔ این ڈی ایس پر صدر اشرف غنی کا کنٹرول نہیں، افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جنہوں نے خود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ریاست کمزور ہوتی ہے تو من مانی کا مرض عام ہو جاتا ہے۔ پھر جتھے وجود میں آتے ہیں؛ چنانچہ سول اداروں کو مضبوط بنائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ پولیس، اس کا تفتیشی عملہ، انٹلی جنس، خاص طور پر سول انٹلی جنس اور عدالتیں۔ دو برس پہلے لندن میں فساد ہوا تو دن رات ججوں نے کام کیا۔ پولیس کی مدد سے شہادت کے لیے جس نے وڈیو کیمروں پر بھی انحصار کیا‘ پانچ ہزار افراد کو سزا سنا دی گئی۔ امریکہ میں نائن الیون، برطانیہ میں سیون الیون کے علاوہ سپین اور بعض دوسرے ممالک میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے تو ان کے سول ادارے ہی بروئے کار آئے۔ از سرِ نو صف بندی کی گئی۔ نئے قوانین تشکیل پائے۔ شہریوں کو اپنے بعض حقوق کی قربانی دینا پڑی مگر ان کی زندگیاں مستقل طور پر محفوظ ہو گئیں۔
ہماری حکومتوں نے فرض ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ سات سال سے پیپلز پارٹی کے وزرا اور ان کے لیڈر آصف علی زرداری لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ کراچی میں ماہانہ تین سو افراد قتل کر دیے جاتے۔ فوج نے ذمہ داری سنبھالی تو اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دی گئی۔ سابق صدر نے پیپلز امن کمیٹی کو از سرِ نو منظم کرنے کی کوشش کی۔ الطاف حسین عملاً قتلِ عام کا لائسنس مانگتے رہے۔ اپنے حامیوں کو انہو ں نے بغاوت کی تلقین کی۔ پھر اقوامِ متحدہ، نیٹو اور بھارت سے مدد مانگی۔ عمران خان، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا سمیع الحق اور جماعتِ اسلامی قاتل طالبان سے مذاکرات کی وکالت کرتے رہے۔ پشاور آرمی پبلک سکول سانحے کے بعد بھی مجبوراً ہی وہ خاموش ہوئے۔ کپتان نے چار ہفتے پہلے بات چیت کا شوشہ پھر چھوڑا، جب مری میں افغان طالبان سے مکالمہ ہوا۔
وزیرِ اعظم بھی بات چیت کے قائل تھے۔ انہوں نے طالبان کے حامی علما کے ذریعے بات چیت کا ڈول ڈالا۔ جنرل ثناء اللہ نیازی، 23 ایف سی اہلکاروں کی شہادت اور چرچ کا قتلِ عام اگر نہ ہوتا تو عسکری قیادت ضربِ عضب کا آغاز نہ کر سکتی۔ قوم کو یاد رہے گا کہ اس کارروائی کے آغاز کا اعلان وزارتِ اطلاعات نہیں بلکہ آئی ایس پی آر نے کیا تھا۔ فرقہ پرستوں کو ایسی آزادی ہے کہ کسی ملک میں نہیں۔ القاعدہ جنگجوئوں کو پناہ دینے والے مولوی عبدالعزیز کو ٹی وی پر مدعو کیا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے دینی مدارس بھی مکمل طور پر آزاد ہیں، جن کا ایجنڈا اصلاً سیاسی ہے۔ بیشتر کی سرپرست مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام ہے۔ بعض کو عالمِ عرب اور ایران سے مدد ملتی ہے۔ وہ کسی نظم کے پابند کیوں نہیں؟ بے مہار آزادی، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی تعلیم، نگرانی کا کوئی نظام کیوں نہ ہو؟ جو چاہیں وہ پڑھائیں اور باغیوں کی نسلیں پیدا کریں؟ دنیا کے کسی ملک میں یہ ممکن نہیں۔
این جی اوز غیر ملکی ایجنڈا پروان چڑھاتی ہیں، جاسوسی تک! دشمن کی سازش ناکام نہیں ہو سکتی اگر مدارس، مذہبی جماتیں اور این جی اوز بے قابو رہیں۔ اگر پولیس، پٹوار اور نچلی عدالت حکمرانوں کی آلہء کار رہے۔ وقت آ پہنچا کہ دینی مدارس پر قانون کی حکمرانی قائم ہو۔ نصاب پارلیمان کی رہنمائی میں تشکیل دیا جائے۔ ناظرہ اور قرآنِ پاک کا ترجمہ سرکاری و نجی ہائی سکولوں میں پڑھایا جائے۔ صرف اعلیٰ مذہبی تعلیم مدارس میں ہو مگر ترکوں کی طرح، جو ڈاکٹر اور انجینئر بھی پیدا کرتے ہیں، صرف ملّا نہیں۔
ایک بے دست و پا ریاست کوئی ریاست نہیں ہوتی۔ آزادی عظیم نعمت ہے مگر ڈسپلن کے بغیر وہ پاگل پن اور جنون کے سوا کیا ہے؟