تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-08-2015

تحقیق کے بے زبان اہداف

ترقی یافتہ دنیا کی ایک بڑی نفسی الجھن یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں خود کو بلند ترین معیار پر متمکن سمجھتی ہے مگر ذرا سا غور کرنے پر تضاد بہت تیزی سے نمایاں ہوجاتا ہے۔ اگر ہم ترقی یافتہ دنیا کی نفسی الجھنوں پر غور کریں تو یقین کیجیے ہماری طرح آپ کو بھی یقین آجائے گا کہ ترقی نہ کرنے میں اتنی قباحتیں نہیں جتنی ترقی کرنے میں ہیں! ایسے میں دنیا کو ہمیں یعنی تیسری دنیا کے لوگوں کو داد دینا چاہیے کہ ہم نے ترقی نہ کرکے خود کو بہت سی نفسی الجھنوں سے بال بال بچالیا ہے! 
مغرب کی ترقی یافتہ اقوام نے حقوق کا راگ اس قدر الاپا ہے کہ جانوروں کے بھی مزے ہوگئے ہیں۔ اب مغربی دنیا میں جانوروں سے عمومی سطح پر جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ تو انہی ترقی یافتہ اقوام کے زیر اثر یعنی ان کے انگوٹھے تلے جینے والے ممالک کے باشندوں سے بھی روا نہیں رکھا جاتا! 
اخبارات میں آئے دن ایسی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ مغرب میں حیوانات سے بہتر سلوک کی تحریک دینے والی تنظیم نے کسی جانور سے بدسلوکی کے خلاف احتجاج کیا اور اس احتجاج کے نتیجے میں متعلقہ شخص یا ادارے کو ہرجانے، جرمانے یا سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ہمارے ہاں بہت سے لوگ ایسی خبریں پڑھ کر مغربی معاشرے کے لیے اپنے دل میں پہلے سے زیادہ احترام محسوس کرنے لگتے ہیں۔ کرنا بھی چاہیے۔ جب مرعوب ہونا ہی ٹھہرا تو کسی بھی معاملے میں مرعوب ہو رہنے میں کیسی شرم اور کہاں کی ہچکچاہٹ؟ 
ایسا نہیں ہے کہ بیشتر معاملات میں مغرب نے جو معیار قائم کیا ہے اس سے ہمیں کوئی چڑ ہے۔ ہم تو یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہر معاملے میں مغرب کو معیار بنانا درست نہیں۔ اس دنیا میں ایسا بہت کچھ ہے جو ویسا نہیں ہوتا جیسا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ اہل مغرب نے بہت سے شعبوں میں ترقی کے ناقابل یقین معیارات قائم کئے ہیں۔ ایک زمانہ اُن سے مستفید ہوتا ہے۔ ایسے میں ہم کون ہوتے ہیں کسی بھی بات پر معترض ہونے والے؟ مگر صاحب، خرابی اگر دکھائی دے گی تو اس کی نشاندہی تو کرنا ہی پڑے گی۔ 
مغربی دنیا کے لوگ حقوق کا احترام کرنے کے حوالے سے ایسا ڈھول پیٹتے ہیں کہ کبھی کبھی تو ان پر غصہ آنے لگتاہے۔ ایک طرف تو وہ حیوانات کے حقوق کا احترام کا درس دیتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی حیوانات کو اذیت سے دوچار کرنے کا وسیلہ بھی بنتے ہیں۔ یہ تضاد ایک ایسی خلیج کے مانند ہے جو دن بہ دن وسیع اور گہری ہوتی جارہی ہے۔ 
سوئٹزر لینڈ میں ایک سائنس دان نے جانوروں کے رویّوں پر تحقیق کی ٹھانی تو اپنے شوق کو لبادہ بناکر پورے وجود پر پہن لیا۔ وہ ایسے کہ انہوں نے حیوانات کے ماحول پر تحقیق کے دوران حیوانات کی صف میں شامل ہونا مناسب جانا۔ تھامس تھوائٹس نے الپس کے کوہستانی سلسلے پر بکروں اور بکریوں کے درمیان تین دن گزارے۔ ان تین دنوں کے دوران وہ بکروں اور بکریوں کے ساتھ اُنہی کی طرح یعنی چلتے رہے! اس کام کے لیے انہوں نے ایک ڈیزائنر کے تیار کردہ خصوصی مشینی ہاتھ استعمال کئے جنہیں پہن لینے پر وہ بکروں اور بکریوں کو اپنے اپنے سے دکھائی دیئے! 
تھامس تھوائٹس نے بتایا کہ وہ چاہتے تھے بکرے اور بکریاں انہیں اجنبی نہ سمجھیں اور مانوس ہوجائیں۔ دشوار گزار پہاڑی راستوں پر وہ ریوڑ کے ساتھ چار ٹانگوں کی مدد سے چلتے رہے۔ ابتداء میں جانور کچھ ہچکچائے۔ پھر وہ تھامس تھوائٹس سے مانوس ہوتے گئے اور آخرکار انہوں نے تھامس تھوائٹس کو اپنے ریوڑ کا حصہ سمجھ لیا! 
ہم یہ خبر پڑھ کر بہت دیر تک غور کرتے رہے مگر یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ تھامس تھوائٹس بکروں کے ریوڑ میں تین گزار کر کیا دیکھنا چاہتے تھے۔ حقیقت پسندی تو یہ ہے کہ بکروں، بکریوں کے رویّوں سے زیادہ اس امر پر تحقیق کی جائے کہ ان کا گوشت کس طرح پکایا جائے کہ زیادہ سے زیادہ لذت حاصل ہو! 
تھامس تھوائٹس نے تین دن تک بکروں اور بکریوں کا ایسی ڈھٹائی سے تعاقب کیا اور ان کی صفوں میں ایسی ''اولو العزمی‘‘ سے گھسے رہے کہ ان بے زبانوں کے پاس اِس ''گھس بیٹھیے‘‘ کو اپنانے کے سِوا چارہ نہ رہا! بکروں اور بکریوں کے لیے یہ ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ والا کیس تھا۔ اور تھامس تھوائٹس یہ سمجھ بیٹھے کہ ریوڑ نے انہیں قبول کرلیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِسے زبردستی کہا جائے یا خود فریبی! 
تھامس تھوائٹس نے جس ریوڑ کے پاس تین دن گزارے وہ اگر اُنہیں قبول نہ کرتا تو اور کیا کرتا۔ اگر اس کام وہ ریوڑ دیر لگاتا تو تحقیق کا دورانیہ بڑھ جاتا اور یوں تھامس تھوائٹس مزید کچھ دن اُس ریوڑ کے لیے دردِ سر بنے رہتے! 
مغرب کے ''حیوان نواز‘‘ ماہرین کو ہم اب تک سمجھ نہیں پائے۔ یہ لوگ آخر حیوانات میں کیا تلاش کرتے رہتے ہیں یا ان سے کیا سیکھنا چاہتے ہیں۔ نیشنل جیو گرافک اور اسی قبیل کے دیگر اداروں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں محققین دن رات افریقا کے جنگلات میں حیوانات کے شب و روز کا جائزہ لیتے پھرتے ہیں۔ جانور الگ پریشان کہ یہ کون سی بلائیں نازل ہوگئیں جو ہر وقت کیمرا تھامے ہماری پرائیویسی کا پردہ چاک کرنے پر تُلی رہتی ہیں! جیسے ہی کوئی شیر یا چیتا کسی ہرن کا تعاقب کرتا ہے، یہ ''حیوانی ماہرین‘‘ کیمرے سنبھالتے ہیں اور گاڑیاں دوڑاتے ہوئے نزدیک پہنچ کر شکار کے لمحات کا سارا حُسن غارت کر دیتے ہیں۔ ہرن جان سے جاتا ہے مگر درندوں کو مزا نہیں آتا! درندے شکار کے وقت کسی طرح کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ کسی اور سیّارے کی مخلوق دخل در معقولات کر رہی ہو تو وہ کچھ سمجھائیں بھی۔ انسانوں کو حیوانات یہ بات کہاں سمجھا سکتے ہیں! 
حیوانات کے شب و روز اور شکار کے معمولات پر تحقیق کرنے والوں کی سمجھ میں یہ بات آج تک نہیں آئی کہ حیوانات جنگل میں اِسی لیے تو آباد ہیں کہ وہ انسانوں میں رہنا پسند نہیں کرتے! جب انسان تحقیق کے نام پر جنگل کا رخ کرتا ہے تو حیوانات کے دلوں میں وہی شکایت ابھرتی ہے جو اس شعر میں بیانی کی گئی ہے ع 
چین سے سو رہا تھا میں اوڑھے کفن مزار میں 
یاں بھی ستانے آگئے، کس نے پتہ بتا دیا! 
جب جنگلی حیات کا شکار غیر معمولی حد تک کیا جانے لگا تو ''مہذب‘‘ دنیا نے شکار پر پابندی لگائی تاکہ معدوم ہوجانے کے خطرے سے دوچار حیوانات کو تحفظ ملے۔ مگر یہ کیا؟ جو گولی سے بچ رہے تھے وہ اب ''ہدفِ تحقیق‘‘ ہوکر رہ گئے ہیں! جنگلی حیات کے لیے قدرتی ماحول کا رقبہ ویسے ہی بہت کم رہ گیا ہے اور پھر اُس میں بھی انسانوں کی مداخلت؟ یہ تو ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ جیسا معاملہ ہوا! 
جنگل کے حیوانات بے زبان ہوتے ہیں ورنہ وہ سامنے آکر شکوہ ضرور کرتے کہ اے نادان انسانو، پہلے اپنی دنیا پر تو جامع تحقیق کا حق ادا کرلو! وہ یہ بھی ضرور کہتے کہ انسانوں کی دنیا میں ایسا بہت کچھ اب بھی تحقیق طلب ہے۔ انسانی رویّوں میں پائی جانے والی بہت سی پیچیدگیاں آج بھی اس امر کی متقاضی ہیں کہ ان پر دادِ تحقیق دی جائے تاکہ اُن سے نجات کی کوئی معقول صورت نکلے۔ 
مانا کہ حیوانی رویّوں میں بہت کچھ ہے جو خام ہے مگر خیر، پختگی کا فقدان تو انسانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ انسانی رویّوں کی پیچیدگیاں دن بہ دن بڑھتی ہی جاتی ہیں۔ ایسے میں یہ بات کتنی عجیب ہے کہ انسانوں کے حوالے سے تحقیق کا دائرہ وسیع کرنے کے بجائے حیوانات کو تنگ کیا جائے، ان کے ماحول کا سُکون ٹھکانے لگانے کی کوشش کی جائے۔ 
تھامس تھوائٹس اور اُن کے قبیل کے دوسرے ہزاروں محققین کو ہم یہی مشورہ دینا پسند کریں گے کہ حیوانات پر دادِ تحقیق دینے کے بجائے انسانوں کو ''ہدفِ تحقیق‘‘ بنائیں تاکہ انسانی رویّوں کی تفہیم سے اُن کا اپنا بھی کچھ بھلا ہو۔ حیوانات ''جیسے ہیں، جہاں ہیں‘‘ کی بنیاد پر بہت خوش ہیں۔ ان کے آرام میں خلل ڈالنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہوجائے تو اِسے ''حیوان نوازی‘‘ کا درجۂ کمال سمجھیے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved