تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     21-08-2015

مگر وہ بات کہاں‘ مولوی مدن کی سی!

دو برس بعد لندن آیا ہوں ۔ لندن سے بہت یادیں جڑی ہیں۔ وقت بہت بدل گیا ہے لیکن لندن نہیں بدلا۔ لگتا ہے ایک سو برس بعد بھی لندن ایسے ہی رہے گا اور یہی لندن کی خوبی ہے۔ اس شہر کے ساتھ جڑے ناسٹلجیا کی کبھی موت نہیں ہوگی۔ امریکہ سے لندن پہنچا تو محسوس ہوا جدید دنیا سے گائوں میں پہنچ گیا ہوں۔ شاید لندن نے اپنے آپ کو بدلنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ روایت پسندوں کا شہر ہے‘ کسی نے اب تک لندن کی سڑکوں پر کدال لے کر کھدائی شروع نہیں کی ۔
لندن پہلی دفعہ ستمبر 2006ء میں آیا تھا ۔ ایک نئی دنیا، نئے لوگ اور نئے خیالات۔ کالج میں داخلہ اور اوپر سے بینظیربھٹو اور نواز شریف نے لندن میں رنگ جمایا ہوا تھا ۔ پڑھائی سے زیادہ توجہ رپورٹنگ پر تھی۔ پورا پاکستان لندن کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف پاکستان بدلنے کے ایسے وعدے کرتے تو لگتا یہ ملک کو راتوں رات بدل دیں گے۔ ایسی ایسی جذباتی گفتگو کی جاتی کہ ڈیوک اسٹریٹ پر واقع دفتر میں جمع مجمع کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے۔ ماضی سے سیکھنے کی سنجیدہ قسمیں‘ پورا لندن گواہ بنا کر نئے پاکستان کی شروعات کے وعدے۔ 
وہی مولانا فضل الرحمن آج کل جن کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ان کے خلاف لندن میں جو گفتگو یہ بڑے لوگ کرتے کہ کیسے جنرل مشرف نے انہیں خرید رکھا ہے وہ اپنی جگہ ایک کلاسک ٹچ ہوتا تھا ۔ وہ تمام لوگ جو جنرل مشرف کے وزیر تھے ان سب کے مذاق اڑائے ہوئے تھے۔ ان کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا اور پھر سب زور سے ہنستے۔اور پھر ایک دن وہ بھی آیا وہ سب وزیر جن کے مذاق اڑتے تھے وہ ضرورت بن گئے۔ وہی آفتاب شیر پائو جس نے 10ستمبر 2007ء کو لندن سے واپسی پر ایئرپورٹ پر گھسٹوایا تھا وہ سب سے قریبی مشیر ٹھہرا۔ وہ اچکزئی صاحب جو نوازشریف کی 2008ء کے الیکشن میں قوم پرستوں کے ساتھ دھوکے پر پنجابیوں کو مختلف ناموں سے یاد کر کے گالیاں دیتے تھے وہ بھی نواز شریف کے چہیتے ٹھہرے۔ سب کو کچھ نہ کچھ مل گیا تھا۔ 
پھر جناب عزت مآب جنرل کیانی نے لندن پہنچ کر باقاعدہ بینظیر بھٹو کو گارنٹی دی‘ کیانی صاحب چھ برس تک آرمی چیف رہے۔ پھر چل سو چل۔
ان سب نام نہاد جمہوریت پسندوں نے مل کر اس ملک کو اس طرح نچوڑا اور بھنبھوڑا کہ اب ہڈیاں بچی ہیں ۔ اب ہر سال پانچ ارب ڈالرز کا قرضہ لیا جاتا ہے جس کا کچھ پتہ نہیں کہاںجارہا ہے۔ ماشاء اللہ وزیراعظم نواز شریف اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے اپنے کاروبار ترقی کر رہے ہیں‘ ملک کا کاروبار تباہ ہوگیا ہے‘ سٹیل مل ہو، یا پھر کوئی اور ادارہ‘ سب کچھ تباہ۔ وہی سٹیل مل جو 2008ء میں اربوں روپے کے پرافٹ میںچل رہی تھی آج ڈیڑھ سو ارب روپے کے نقصان کا شکار ہے۔ یہ سب مالی نقصان جناب زرداری کے دور میں ہوا جنہوں نے ''رج‘‘ کر جمہوریت سے انتقام لیا۔ اب لوگوں کے سامنے جمہوریت کا نام لو تو کسی کی چیخ‘ تو کسی کی ہنسی نکل جاتی ہے۔ سٹیل ملز کرپشن کی انکوائری سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ نے کی تھی ۔ انہوں نے یہ کام اپنے ایک قابل، محنتی اور ایماندار پولیس افسر میر زبیر کے ذمے لگایا ۔ جب انکوائری کا کام قریب پہنچا تو پھر ایک دن صدر زرداری نے فون کر کے طارق کھوسہ پر اپنا رعب جھاڑنے کی کوشش کی ۔طارق کھوسہ بھی بلوچ تھے‘ انہوں نے بھی اپنی آواز سخت کر لی‘ لیکن پھر طارق کھوسہ بھی ڈی جی ایف آئی اے نہ رہے۔ پروموشن کے نام پر انہیں وہاں سے ہٹایا گیا اور پھر کسی کو کچھ پتہ نہیں زرداری کے کن دوستوں نے سٹیل ملز کو تباہ کیا ۔ نیب سے لے کر ایف آئی اے اور سپریم کورٹ تک ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی کیونکہ جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ۔ آج وہی مل تباہ ہوگئی ہے۔ جنہوںنے تباہ کیا ہے وہ لندن کے اس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ موصوف انتظار کر رہے ہیں کب نئے این آر او کا ڈرافٹ لکھا جائے گا ۔ کب اس کام کے لیے رحمن ملک، رضا ربانی، لطیف کھوسہ کی خدمات لی جائیں گی ۔ پھر کوئی نیا جنرل لندن آئے گا اور اپنی ضمانت پر ان لاڈلوں کو لے جائے گا کہ آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ بدلے میں وہ بھی من کی مراد پائے گا۔ یہ پھر اپنے ہزاروں مقدمات سیٹل کرائیں گے۔ جرائم پیشہ کراچی میں رہا ہوں گے‘ کراچی میں تین سو پولیس والوں کو چن چن کر مارا جائے گا ۔ جیل سے پینتیس قاتل جنرل مشرف دور کی طرح رہا ہوں گے۔ کراچی میں دو سو ارب روپے سے زیادہ بھتہ اکٹھا ہوگا، پھر دہشت گردوں کو کھلی چھٹی ہوگی۔ سات برس میں دس ہزار بندہ کراچی میں مارا جائے گا۔ کیا یہ پاکستان ایسے ہی رہے گا ؟ یہ سوچ کر ہی جھرجھری آگئی۔
جنرل مشرف پاکستان صاف کرنے آئے تھے، مزید خرابیاں پیدا کر گئے۔ اکبر بگٹی کو بلوچستان میں مار کر وہاں آگ لگائی ۔ متحدہ مجلس کو جتوا کر ان کے ووٹوں سے پارلیمنٹ میں وردی کے ساتھ ووٹ لیا ۔ طالبان کے حامیوں کو اقتدار میں حصہ دیا جنہوں نے اس ملک میں ساٹھ ہزار بے گناہ مار ڈالے۔جنرل مشرف کو سیاست اور اقتدار کا چسکا پڑگیا تھا ۔ اس کے لیے انہوں نے پاکستان پہلے کے نام پر اپنے مفادات پہلے چنے۔ انہوں نے اپنی ذات کے نام پر نیب زدہ تمام سیاستدانوں کو اقتدار دیا ، مزے کرائے اور آج اچھے بھی بنے ہوئے ہیں۔ زرداری ایک ہاتھ آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے سب کو کہا جس کو جو چاہیے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لے‘ کون سا اپنی جیب سے جارہا ہے۔ پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی۔ لندن دبئی میں سب کے کاروبار چمک گئے۔ ڈالروں سے بھری لانچیں پکڑی گئیں۔ بیسمنٹ سے اربوں برآمد ہونے کی کہانیاں سامنے آئیں۔ نئی نئی جائیدادوں کے منصوبے بن گئے۔ اب پتہ چل رہا ہے اس ملک کا کیا کیا کچھ لٹ گیا ہے۔ آخری دفعہ وہ فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے پاکستان گئے تھے، اس کے بعد ملک سے غائب ہیں۔ پھر کسی دن مدبر جیسا حلیہ بنا کر لوٹیں گے، میرے جیسے صحافیوں کو بلائیں گے، طویل بھاشن ہوں گے، ہم بھی اپنے کالموں میں جمہوریت کے لیے ان کی جیل کی خدمات گنوائیں گے۔ بدلے میں ایوان صدر میں ہمیں راتوں کو بلا کر عوام کے پیسے سے کھانا پینا ہوگا۔ کوئی کالم نگار زیادہ چہیتا نکلا تو اسے اکیلے بلا کر ذرا بے تکلف انداز میں گفتگو اور میرے جیسے صحافی دل و جان سے ان پر صدقے واری۔ واہ کیا بات ہے یاروں کے یار کی۔ اس یاروں کے یار نے کبھی اپنی جیب سے کسی یار پر کچھ خرچ نہیں کیا ۔ سب کچھ عوام کی جیب سے قربان کیا ۔ ذوالفقار مرزا کو دی گئی ایک شوگر مل تک برداشت نہ ہوئی کیونکہ وہ سرکاری مل نہ تھی۔ اپنے کسی دوست کو اپنی شوگر مل کا جی ایم نہیں لگایا لیکن دوستوں کے حوالے پوری سٹیل مل کر دی کہ مزے کرو میرے یار... اور سب نے مزے کیے۔ 
نوازشریف صاحب نے کہا زرداری اسٹائل ہی چلنے دو؛ حالانکہ جب نواز شریف ایوان صدر میں زرداری سے ملنے جاتے تھے تو وہ انہیں سبق دیتے جناب فوجی جرنیلوں کے سامنے ڈٹ جائو۔ اپنے واقعات سناتے کیسے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود پر فیصل آباد میں ان کی پراپرٹی کو کمرشل کا درجہ دے کر کروڑوں روپے کا فائدہ دیا ۔ احسانات کیے لیکن بارہ اکتوبر کو پھر وہی جنرل محمود ہتھکڑیاں لے کر وزیراعظم ہائوس سے گرفتار کر کے لے گیا تھا۔ زرداری کو بتاتے تھے کہ جنرل کسی کے نہیں ہوتے۔ 
زرداری جواباً کہتے‘ سر جی! ہم نے بہت قتل کرا لیے‘ اب کوئی اور پھانسی لگے۔ اورپھر ایک دن یوں ہوا مشاہداللہ نے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا تو وہی نواز شریف جو زرداری کو فوج کے خلاف بہادری دکھانے کی ترغیب دیتے تھے ایک گھنٹہ بھی برداشت نہ کر سکے اور مشاہد اللہ سے کہا گیا کہ مالدیپ سے ہی استعفیٰ بھیج دو۔ یقینا آج کل لندن کے ٹھنڈے موسم میں جناب زرداری ہنستے ہوں گے یہ وہی نواز شریف ہیں جو انہیں ایوان صدر میں بہادر بننے کی ترغیب دیتے تھے؟ یا پھر نواز شریف زرداری پر ہنستے ہوں گے جناب آپ اینٹیں لینے پاکستان سے باہر گئے تھے۔ کیا ہوا‘ اینٹیں مہنگی ہوگئی ہیں یا کوئی ادھار پر مال نہیں دے رہا ؟ آپ کا شدت سے انتظار ہے تاکہ آپ لوٹ کر اینٹیں بجائیں تو کچھ ان پر دبائو کم ہو ؟
دریائے ٹیمز کے کنارے پرانی یادوں کو یاد کرتے ہوئے یوں لگا لندن کہانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ 2007ء میں کیا کچھ یہاں نہیں دیکھا‘ جمہوریت کے نام پر عوام کو دھوکا دینے کے جس جو کنٹریکٹ پر دستخط ہوئے تھے اور جس کے ضامن جنرل کیانی تھے اس کا انہی سیاستدانوں نے کیا انجام کیا ہے‘ سات برس بعد پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
لندن میں خبر گرم ہے جناب زرداری کو دبئی سے زیادہ لندن پسند آگیا ہے۔ سنا ہے اچھی نسل کی اینٹیں خریدنے کے لیے وہ ایک پرانی لیکن تگڑی پارٹی سے سودا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکیوں سے تگڑی پارٹیاں لندن میں رہتی ہیں جنہوں نے پہلے بھی این آر او لے کر دیا تھا اب بھی شاید وہ دوبارہ رحم کریں ۔ ویسے جس گورے صاحب نے جنرل مشرف اور پیپلز پارٹی کے درمیان کونڈالیزا رائس کی مدد اور جنرل کیانی کی گارنٹی سے ڈیل کرائی تھی، وہ موصوف سین سے چند برس غائب رہنے کے بعد اگلے چند دنوں میں برطانیہ کے فارن آفس میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہونے والے ہیں۔ 
زرداری صاحب کا ہدف اس دفعہ واشنگٹن کی بجائے لندن ہے جہاں سے انہیں نروان پانے کی امید ہوسکتی ہے۔ دیکھیں کب تک انہیں برگد کے درخت کے نیچے بیٹھنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں لندن میں اگر کمی ہے تو صرف حسین حقانی کی، کیونکہ واجد شمس الحسن میں وہ بات کہاں! 
بڑھائی شیخ نے داڑھی ہزار سن کی سی
مگر وہ بات کہاں‘ مولوی مدن کی سی! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved