آپ ہی کے اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق بھارت میں پولیس اہلکاروں نے ایک طوطے کو بزرگ خاتون کو گالیاں دینے کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔ تفصیلات درج کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ جانتے ہی ہوں گے۔البتہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس بدزبانی کی وجہ کیا تھی‘ یعنی ہو سکتا ہے کہ اس بزرگ خاتون نے کوئی زیادتی کی ہو جس کے جواب میں طوطے نے دشنام طرازی شروع کردی ہو کیونکہ گالی دینے والا بے شک طوطا ہی کیوں نہ ہو‘ ایک بزرگ خاتون کے ساتھ ایسی بدتمیزی بلاوجہ نہیں کر سکتا اورضرور دال میں کچھ کالا ہوگا‘ وغیرہ وغیرہ
بدزبان طوطوں کے بارے میں پہلے بھی ایسی شکایات منظرعام پر آ چکی ہیں جن میں سے ایک کے مطابق ایک صاحب نے اپنے پالتو طوطے کا پنجرہ باہر گلی میں لٹکا رکھا تھا کہ ایک شخص نے ان سے شکایت کی کہ وہ جب بھی وہاں سے گزرتا ہے‘ اس کا طوطا اسے گالیاں دیتا ہے‘ جس پر مالک نے طوطے کی ٹھیک ٹھاک سرزنش کی اور آئندہ ایسی حرکت کرنے سے سختی سے منع کردیا۔ دوسرے روز وہ شخص وہاں سے گزرا تو پیچھے سے طوطا قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ شخص مذکور نے پیچھے مڑ کر پوچھا‘ کیا کہا؟ تو طوطا بولا۔
''تم سمجھ تو گئے ہو گے!‘‘
ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اپنے طوطوں کو چُوری کھلا کھلا کر اس قدر بے باک کردیا ہے کہ وہ گالی دینے سے بھی باز نہیں آتے‘ حتیٰ کہ چُوری کھلانے کے بعد بھی اگر طوطے سے پوچھا جائے کہ میاں مٹھو چُوری کھانی ہے؟ تو وہ جواب میں ہاں ہی کہے گا جیسا کہ ہمارے حکمرانوں کا پیٹ چُوری سے نہیں بھرتا اور وہ ہر وقت چُوری بلکہ مزید چُوری کھانے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ گالیاں دینا تو ایک طرف رہا‘ بعض طوطے تو باقاعدہ اخلاق باختہ پائے گئے ہیں۔ ایک ایسے ہی طوطے کے بارے منقول ہے کہ اس نے جب پرواز بھری تو دوپہر تک واپس نہ آیا۔ دوسرے طوطوں کو تشویش لاحق ہوئی تو وہ اسے ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے۔ تلاشِ بسیار کے بعد وہ انہیں ایک چٹیل میدان میں نیم مردہ حالت میں پڑا نظر آیا جب کہ ایک چیل اس کے اوپر چکر لگا رہی تھی۔ انہوں نے اسے کہا‘ گھر چلو‘ یہاں کیا کر رہے ہو‘ جس پر طوطا سرگوشی میں بولا۔
''شش... چیل پھنسا رہا ہوں‘‘
سو طوطا مینا کی جو کہانی بیان کی جاتی ہے اس کا پس منظر بھی کچھ ایسا ہی ہو سکتا ہے‘ ورنہ طوطا مینا کی بجائے طوطا طوطی کی کہانی مشہور ہوتی‘ حتیٰ کہ بعض نیک پاک اور عبادت گزار طوطے بھی اندر سے پورے سورے ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک صاحب اپنے ایک دوست سے ملنے گئے تو اس نے انہیں اپنے دو طوطوں کے متعلق بتایا کہ ہر وقت عبادت میں مصروف رہتے ہیں جبکہ ان کے دوست نے دیکھا کہ دونوں سجدے میں پڑے ہوئے ہیں۔ دوست نے انہیں دیکھ کر کہا کہ میں کل آئوں گا۔ دوسرے دن وہ صاحب آئے تو اپنے ساتھ ایک خوبصورت طوطی بھی لیتے آئے جو انہوں نے پنجرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل کردی جس پر ایک طوطے نے سجدے میں پڑے دوسرے طوطے سے کہا۔
''اُٹھو بھائی جی اللہ میاں نے دعائیں قبول کرلی ہیں؟‘‘
اپنے منہ میاں مٹھو بننے میں اگرچہ ہر طبقہ شامل ہے لیکن ہمارے شاعر ادیب یہ طرزِ عمل کچھ زیادہ ہی اختیار کرتے پائے گئے ہیں۔ شاید اس لئے کہ اگر کوئی اور ان کی تعریف نہیں کرتا تو کیا وہ اپنی تعریف خود بھی نہ کریں؟ چنانچہ اس کارِخیر میں وہ ہمہ وقت مصروف ہی پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں لیڈر کا طوطی بول رہا ہے۔ پہلے تو ہمیں تذکیر و تانیث کے اس الٹے چکر نے کافی پریشان رکھا اور پھر کہیں جا کر معلوم ہوا کہ فارسی میں طوطے کو طوطی ہی کہا جاتا ہے حالانکہ فارسی کے اس مخمصے میں پڑنے کی بجائے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فلاں کا طوطا بول رہا ہے؟
سبزرنگ کو بالعموم طوطا رنگ کہا جاتا ہے حالانکہ اس کے سر اور چونچ کے رنگ مختلف ہوتے ہیں بلکہ اب تو طوطے بھی مختلف رنگوں کے دریافت ہو چکے ہیں‘ منقول ہے کہ ایک صاحب نے دو بڑے مہنگے طوطے پال رکھے تھے‘ ایک سبزرنگ اور دوسرا سرخ رنگ کا۔ ایک بار پنجرے کا دروازہ کہیں کھلا رہ گیا تو دونوں طوطے اُڑ کر گھر کے سامنے والے درخت پر جا بیٹھے۔ مالک نے محلے ہی کے ایک لڑکے کو پانچ روپے کا نوٹ تھمایا اور کہا کہ درخت پر چڑھ کر دونوں طوطوں کو اتار لائے۔ لڑکا درخت پر چڑھا اور سرخ رنگ والا طوطا اتار لایا جس پر مالک نے کہا‘ دوسرا نہیں اتارا؟ تو لڑکا بولا۔
''وہ ابھی کچا تھا‘‘
جیسا کہ مڑی ہوئی ناک کو طوطا کہا جاتا ہے‘ اسی طرح ایک عجیب و غریب محاورہ ہاتھوں کے طوطے اُڑ جانا بھی ہے اور جس کا مطلب ہے کہ کسی صاحب نے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک طوطا پکڑ رکھا تھا‘ جو اُڑ گئے‘ جس سے اس کے اوسان خطا ہوگئے اور یہ محاورہ ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اسی طرح ایک کہانی کے مطابق ایک طوطے نے جال میں پھنسے پرندوں کا جال کاٹ کاٹ کر انہیں رہائی دلائی‘ حالانکہ وہ ایک دوسری کہانی کے مطابق جال کو ساتھ لے کر بھی اُڑ سکتے تھے۔ سو‘ اُمید ہے کہ بڑھیا نے گرفتار طوطے کو معاف کردیا ہوگا یا وہ ضمانت پر رہا ہو چکا ہوگا‘ بصورت دیگر اسے قید تو نہیں ہوسکتی‘ جرمانہ ضرور ہو سکتا ہے۔
مسئلہ شاگردی
شاعر قمر رضا شہزاد نے لکھا ہے کہ وہ کبھی بیدل حیدری کے شاگرد نہیں رہے۔ اس ضمن میں انہوں نے بیدل حیدری کے خط کا عکس بھی بھجوایا ہے جس میں قمر رضا شہزاد کے بارے کہا گیا ہے کہ وہ ان کے شاگرد نہیں۔ اسی طرح عباس تابش نے بھی بتایا کہ وہ کبھی ان کے شاگرد نہیں رہے اور ان کے شہر میلسی کے کبیروالا سے قریب ہونے کی بنا پر کچھ لوگوں نے ایسا فرض کرلیا۔ انہوں نے بتایا کہ بیدل حیدری ایک چالاک آدمی تھا‘ وہ اپنے شاگردوں کو شعر لکھ لکھ کر دیتا اور پھر انہیں بلیک میل کرتا کہ وہ سب کو بتا دے گا کہ یہ شعر اس کے ہیں‘ جس کی وجہ سے شاگردوں سے نذرانہ مقرر کر رکھا تھا۔ البتہ ڈاکٹر اختر شمار نے نہ صرف ان کا شاگرد ہونے کا اعتراف کیا بلکہ فیس بک پر ایک پوسٹ کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا اور یہ بھی لکھا کہ ظفراقبال کی شاعری میں بھی یہ یہ نقائص پائے جاتے ہیں۔ قارئین اپنا ریکارڈ درست کرلیں!
آج کا مطلع
روکو گے تو ہم کریں گے دنگا
بن جائے گا بات کا بتنگا