لائن آف کنٹرول کے کنارے آباد بستیوں میں سانس لیتی زندگی ہمہ وقت خدشات کی زد میں رہتی ہے۔ خوف کے بادل ہر وقت فضا پر چھائے رہتے ہیں۔ ان بستیوں میں جہاں سرحد پر تڑتڑاتی گولیوں کی آواز سے کان بند ہونے لگتے ہوں‘ وہاں زندگی شاید ہی کھل کر مسکراتی ہو۔ دھڑکا ہمہ وقت جان کو لگا رہتا ہے‘ جانے کون سی گولی ان ہنستے بستے گھروں کے آنگن میں کھیلتے بچوں کو آلگے۔ صحن میں کام کرتی خواتین کو نشانہ بنا لے یا پھر کھیتوں میں خون پسینہ ایک کرتے دہقان کو زندگی سے دور موت کی وادی میں لے جائے۔ جی ہاں! زندگی کو یہاں اسی رنگ میں جینا پڑتا ہے ؎
تیر سارے کڑی کمان میں تھے
ہم ترے شہر بے امان میں تھے
آگ بھڑکی تو جل کے راکھ ہوئے
خواب ایسے بھی شہر جان میں تھے
شہرِ بے امان میں رہنے کا دُکھ صحیح معنوں میں وہ لوگ جھیلتے ہیں جو لائن آف کنٹرول کے کنارے بستیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سرحد پر ہونے والی دشمن کی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری ان کی زندگیوں میں قیامت برپا کر دیتی ہے۔ امن کی فضا کو پاش پاش کر کے‘ بدامنی اور خوف کا ماحول بنا دیتی ہے۔ گھروں میں نارمل زندگیاں گزارتے ہوئے لوگ‘ ایسے کسی سانحے کے بعد خود کو میدان جنگ میں دشمن کے سامنے نہتا محسوس کرتے ہیں۔ حالات زیادہ کشیدہ ہو جائیں تو بھرے بھرائے گھروں کو چھوڑ کر عارضی نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے
ہیں۔ اِن سرحدی علاقوں میں بچوں کے سکول خاص طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ حال ہی میں نکیال سیالکوٹ ‘ نیزہ پور سیکٹر میں بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ سے جہاں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا وہیں بچوں کے سکول بند کرنا پڑے کیونکہ یہ وہ جنگ ہے جس کا نشانہ دشمن خاص طور پر نہتی شہری آبادی کو بناتا ہے؛ تاکہ خوف اور دہشت کو بڑھاوا ملے۔ اگست کا مہینہ جہاں پورا ملک آزادی کا جشن منانے میں مصروف تھا لائن آف کنٹرول کے کنارے آباد زندگی پر یہ دن بہت بھاری گزرے۔ وقفے وقفے سے سرحد پار سے شدید گولہ باری ہوتی رہی‘ نہتے پاکستانی شہید ہوتے رہے‘ بیسوں زخمی ہوئے۔ صرف ایک ہفتے میں چار دفعہ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ بلا کر حکومت پاکستان کی طرف سے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ ہر بار پاکستان نے بھارت کو 2003ء کا لائن آف کنٹرول امن معاہدہ یاد کرا کر اس جارحیت پر احتجاج کیا مگرہر بارہی کنٹرول لائن پر دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ ہر بار سویلین آبادی بچے‘ بوڑھے‘ جوان اور خواتین کنٹرول لائن سے ہونے والی اس دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہے۔ اگست کا مہینہ تو بہت بھاری گزر رہا ہے۔ صرف جولائی 2015ء سے اگست 2015ء یعنی صرف ایک ماہ کے دوران بھارتی سرحدی فورس(BSF)نے ستر بار لائن آف کنٹرول امن معاہدے کی دھجیاں
اڑائیں ۔ 4اگست 2015ء کو سیالکوٹ سیکٹر میں سکھیال گائوں کا 14سالہ عاطف اور 22برس کا جوان محمد عدنان‘ دشمن کی بلا اشتعال فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ 4اگست سے سرحد پر ہونے والا دہشت گردی کا سلسلہ رکا ‘ جاری ہے۔7اگست ‘9اگست‘ 14اگست‘ 15اگست ‘17اگست اور 19اگست کو دشمن کی جنونی جارحیت سے کتنے ہی ہنستے بستے پاکستانیوں کی قیمتی جانیں چلی گئیں۔ نیزہ پور سیکٹر کے ایک گائوں میں بچوں کے سکول کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد علاقے کے سبھی سکول بند کرنا پڑے۔ بھارت کی جنگی جارحیت نے لائن آف کنٹرول کے کنارے آباد گائوں اور بستیوں کی فضا بہت کشیدہ کر دی ہے۔ گزشتہ دنوں‘ یو این او کی نیوز ویب سائٹ پر ایک تصویر شائع ہوئی‘ جس میں چار بچے‘ جن کی عمریں‘ چھ اور سات سال کے درمیان ہیں وہ اپنے ہاتھ میں لوہے کا ایک ٹکڑا پکڑے حیرت سے اسے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر بھولپن ہے مگر خوف کا تاثر بہت گہرا ہے۔ نکیال سیکٹر کے گائوں کے یہ بچے دشمن کی طرف سے سویلین آبادی پر گرائے گئے مارٹر گولے کا ایک ناکارہ ٹکڑا پکڑے‘ امن کے لیے جدوجہد کرتی عالمی تنظیموں کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کے پیارے ان کے سامنے دشمن کی جارحیت کا نشانہ بنتے ہیں۔ کبھی ان کے سکول فائرنگ کی زد میں آ کر بند کر دیئے جاتے ہیں‘ کبھی گولہ باری سے ان کے کچے گھروں کی دیواریں ڈھے اور چھتیں گر جاتی ہیں۔ ان کے پیارے پیارے گھر آن کی آن میں ملبہ بن جاتے ہیں‘ یہ بھی پاکستانی بچے ہیں‘ ان کے معصوم ذہنوں پر ہر وقت دہشت اور خوف کی فضا کیا غضب ڈھاتی ہوگی۔؟
کنٹرول لائن پر ہونے والی دشمن کی جنگی جارحیت‘ اس دہشت گردی کی لہر کا ایک رخ ہے‘ جو اس وقت وطن عزیز میں مختلف شکلوں میں سر اٹھائے ہوئے ہے۔ اگست کا مہینہ تو اس لحاظ سے بہت بھاری گزرا ہے۔ پنجاب کو دوسرے صوبوں کے مقابل‘ قدرے پرامن صوبہ سمجھا جاتا ہے‘16اگست کو پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خان زادہ دہشت گردی کے ایک بڑے حملے میں اپنے کئی ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے‘ اس سے یقیناً لوگوں میں بھی عدم تحفظ بڑھا‘ خوف اور دہشت کی فضا میں اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ حکومتی اور میدان سیاست کے وی آئی پیز میں بھی‘ عدم تحفظ کا احساس بڑھا کیونکہ دہشت گرد اب اہم ملکی شخصیات کو نشانہ بنانے کے درپے ہیں۔
شجاع خانزادہ اپنے نام کی طرح بہادر اورجری انسان تھے۔ مگر ایک درویشانہ بے نیازی بھی ان کی شخصیت کا حصہ تھی اسی لیے تو‘ دہشت گردی کے نیٹ ورک پر گہری نگاہ رکھنے کے باوجود انہوں نے اپنی ذاتی سکیورٹی کو بالکل نظر انداز کیا۔ بے خوف انداز میں امن و امان کے معاملات سلجھانے میں ہمہ تن مصروف رہے۔ سیاست کے منظر نامے پر ایسے نڈر اور بے نیاز سیاستدان خال خال ہی ہیں۔ پاکستان بھارت کے درمیان ہونے والی روایتی جنگوں میں انہوں نے بھر پور حصہ لیا اور غازی ٹھہرے‘ مگر ایک چھپے ہوئے دشمن کے خلاف غیر روایتی‘ گمبھیر اور مشکل جنگ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت عطا کی۔ وہ نیشنل ایکشن پلان کو عملی طور پر بروئے کار لانے کے لیے بھی کوشاں رہے۔ جس کے لیے انہوں نے پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر یقیناً کچھ مشکل فیصلے کیے اسی لیے وہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر موجود تھے۔پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت کئی شکلوں میں انسانی امن کا دشمن ہے۔خود کش بمبار کا جیتی جاگتی زندگیوں کے پرخچے اڑانا دہشت گردی ہے تو لائن آف کنٹرول پر دشمن کی بلا اشتعال فائرنگ سے خوف و دہشت اور بدامنی کی فضا میں نہتے شہریوں کا جاں سے گزر جانا بھی بدترین دہشت گردی ہے۔ اس لیے ان خبروں کو سرحد پر ہونے والی معمول کی جھڑپیں سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ گھروں کی چار دیواری میں بھی غیر محفوظ ہونے کی قیامت جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے!! کہ یہ معمول کی جھڑپیں ان کی زندگیوں کو کیسے اتھل پتھل کر دیتی ہیں۔