وزیر اعظم نے دورہ کراچی میں کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ ان کا دورہ کراچی انتہائی مختصر تھا اور طے شدہ مصروفیات بھی انتہائی اہم تھیں۔ انہیں 1200 میگاواٹ کے طاقتور ایٹمی بجلی گھر کا سنگ بنیاد رکھنا تھا۔ سندھ حکومت کے ساتھ اپیکس کمیٹی کی میٹنگ میں شریک ہونا تھا۔ حکومت سندھ کافی عرصہ پہلے سے مختلف مسائل پر وزیر اعظم سے بات کرنے کی خواہش مند تھی۔ وزیر اعظم نے سندھ حکومت کو بھی دل کا غبار نکالنے کا موقع فراہم کیا اور یہ ہدایت جاری کر دی کہ وفاقی ادارے کوئی بھی ایکشن لینے سے پہلے‘ سندھ کی حکومت سے مشاورت کیا کریں۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے گلہ کیا کہ وفاقی اداروں کی طرف سے براہ راست کارروائیوں کے نتیجے میں‘ صوبائی انتظامیہ شدید دبائو میں رہتی ہے اور اس کا بڑا حصہ کام کرنے سے ڈرنے لگا ہے۔ وزیر اعظم نے اس سلسلے میں بھی ہدایات جاری کیں۔ لیکن جیسے ہی وزیر اعظم اسلام آباد کے لئے واپس روانہ ہوئے‘ فاروق ستار نے شکایت کی کہ انہیں اپنے تحفظات وزیر اعظم کی خدمت میں پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ تحفظات کے معاملے میں ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن کا طرز عمل ایک ہی جیسا ہے۔ دونوں کو روزانہ یہ شکایت رہتی ہے کہ حکومت ان کے تحفظات پر توجہ نہیں دیتی۔ مولانا کے تحفظات کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ حکومت پہلے ہی سے تیاری کر کے بیٹھ جاتی ہے کہ مولانا کی طرف سے کیا تحفظات پیش کئے جائیں گے؟ حکومت عموماً ان تحفظات کو دور کرنے کے لئے حسب ضرورت‘ لفافے سے بریف کیس تک‘ ہر چیز تیار کر لیتی ہے۔ مولانا‘ اپنے نیازمندوں کے لئے سفارشات کی جتنی فائلیں جمع کرتے ہیں‘ انہیں اسحق ڈار ہی نمٹا دیتے ہیں۔ جن تحفظات کا تعلق وزیر اعظم سے ہو‘ وہ مولانا کے ساتھ ہونے والی آئندہ میٹنگ کے لئے محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف ہوں‘ آصف زرداری ہوں یا نواز شریف۔ سب مولانا کے تحفظات کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ مولانا جب بھی ان میں کسی کے ساتھ ملاقات کا وقت لیتے تھے‘ تو میزبان‘ ان کی بات شروع ہونے سے پہلے ہی گنوانا شروع کر دیتے تھے‘ وہ کیا تحفظات لے کر آئے ہیں؟ وہ مولانا کے بیٹھتے ہی ان کے تحفظات گنوا دیتے اور ساتھ ہی بتا دیتے کہ ان کے کون کون سے تحفظات دور کرنے کا بندوبست ہو چکا ہے۔ ملاقات کا باقی وقت‘ دوسرے سیاستدانوں کی غیبت اور تازہ سیاستی واقعات پر بات چیت میں گزر جاتا۔
مولانا کے برعکس‘ ایم کیو ایم کے تحفظات کو شمار کرنا انسان تو کیا کمپیوٹر کے بس میں بھی نہیں۔ رابطہ کمیٹی کے اراکین روزانہ میڈیا کے ساتھ رابطوں میں رہتے ہیں اور سارے ٹاک شو ختم ہونے سے پہلے وہ اپنے ہزاروں تحفظات گنوا چکے ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے تحفظات کا تعلق ہر شعبے سے ہوتا ہے۔ وہ آئی جی سے لے کر وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم تک‘ تحفظات جمع کر کے روزانہ ہی متعلقہ عہدیداروں اور اداروں تک پہنچا دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے تحفظات کا شمار کیا جائے‘ تو سندھ اور وفاق کی پوری مشینری‘ صرف انہی تحفظات کو دور کرنے کے طریقے سوچتی رہتی ہے۔ اسی میں ساری بیوروکریسی کے اوقات کار ختم ہو جاتے ہیں‘ ایم کیو ایم کے تحفظات دور نہیں ہوتے۔ اگر تحفظات کا ورلڈ ریکارڈ دیکھنا ہو تو ایم کیو ایم‘ باقی ساری جماعتوں اور لیڈروں کے مجموعی تحفظات سے بھی بڑا ریکارڈ پیش کر سکتی ہے۔ بعض خاندانوں میں کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں‘ جو والدین کو اپنے تحفظات کے سامنے بے بس کئے رکھتے ہیں۔ یہی کیفیت ایم کیو ایم کی ہے۔ ان کے سارے تحفظات بھی دور کر دیئے جائیں‘ تو حکومتیں تھک جائیں گی مگر ایم کیو ایم کے تحفظات پورے نہیں ہوں گے۔ دور کیوں جائیے‘ وہ ہر ہفتے عشرے کے دوران‘ اپنے گم شدہ اراکین کی فہرست جاری کر کے‘ مطالبہ کر دیتی ہے کہ حکومت انہیں ڈھونڈ کے سامنے لائے۔ پاکستان میں کون سی حکومت کے پاس اتنی مشینری ہوتی ہے کہ وہ سائوتھ افریقہ سے یورپ تک اور امریکہ‘ آسٹریلیا اور تھائی لینڈ وغیرہ میں بیٹھے کارکنوں کو ڈھونڈ کر‘ ایم کیو ایم کی خدمت میں پیش کرے؟ اگر کوئی حساب لگا کر دیکھے‘ تو ایم کیو ایم نے جتنے کارکنوںکے لاپتہ ہونے کے دعوے کئے ہیں‘ ان کی تعداد پاکستان کی نصف آبادی کے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ تو رابطہ کمیٹی کی فراہم کردہ رپورٹوں کا ذکر تھا اور جب ماشاء اللہ الطاف بھائی خطاب فرماتے ہیں‘ تو ان کے تحفظات کی اپنی فہرستیں ہوتی ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ایم کیو ایم ہمیشہ اپوزیشن میں رہتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ شاذ و نادر ہی حکومت سے باہر رہی ہو گی۔ غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ وہ کسی صوبائی یا وفاقی حکومت میں شامل نہیں۔ جب وہ حکومتوں میں شریک بھی رہی‘ اس کے سارے تحفظات کبھی دور نہیں ہوئے۔ ایم کیو ایم اگر تحفظات کی فہرست تیار کرنے میں‘ مولانا فضل الرحمن سے رہنمائی حاصل کر لے‘ تو میرے خیال میں اس کے تحفظات بھی دور ہو جائیں گے اور قربانی کی کھالیں اور عطیات جمع کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ یہ نہ سمجھئے کہ میں ایم کیو ایم کو ڈیزل ٹائپ کا کوئی مشورہ دے رہا ہوں۔ یہ بہت پرانی بات ہے۔ مولانا‘ ڈیزل کو پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل آئے ہیں۔ الطاف بھائی دیگر لیڈروں کے ساتھ زیادہ میل جول نہیں رکھتے۔ ورنہ وہ‘ آصف زرداری‘ پرویز مشرف اور نواز شریف سے کبھی کبھار مل لیا کریں‘ تو مولانا کی طرح‘ براہ راست تحفظات کی فہرست بنانے کا ہنر سیکھ لیں گے۔ الطاف بھائی اس وقت بھی ملک کی چوتھی سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں‘ جبکہ مولانا صرف 13 کے عدد پر تحفظات کا بین الاقوامی تجربہ رکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں لبیا کے کرنل قذافی‘ ان کے تحفظات دور کیا کرتے تھے۔ اسلامی دنیا کے ان گنت فرمانروا بھی مولانا کے تحفظاتی فن کی داد دیتے رہتے ہیں۔ اور تو اور‘ مولانا اپنے تحفظات دور کرنے کے لئے بھارت بھی بڑے ذوق و شوق سے جاتے ہیں۔ یوں تو ہر سیاستدان کے کچھ نہ کچھ تحفظات ہوتے ہیں‘ لیکن مولانا اس ہنر میں یکتا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تحفظات کی اصطلاح کے جتنے مفہوم مولانا صاحب نے کشید کئے ہیں‘ دنیا کا بڑے سے بڑا سیاستدان نہیں کر سکا۔ اگر ایم کیو ایم والے‘ مولانا کی شاگردی اختیار کر لیں‘ تو انہیں روز روز تحفظات کا گلہ نہیں کرنا پڑے گا۔ مولانا کی شاگردی میں‘ انہیں تین مہینوں کے اندر پتہ چل جائے گا کہ کس حکمران سے کتنے تحفظات دور کرنے کے لئے کہنا ہے؟
ہماری صحافی برادری میں بھی فن تحفظات کے بڑے بڑے ماہر پائے جاتے ہیں۔ خصوصاً مضافاتی ایڈیٹرز یا مالکان اخبارات‘ جب بھی کسی صدر یا وزیر اعظم کی بریفنگ میں مدعو کئے جاتے ہیں‘ تو ان کے فرمودات کو سن کر ایسی عبرت حاصل ہوتی ہے کہ انسان زندگی بھر کے لئے تحفظات سے توبہ کر لیتا ہے۔ خدا کرے وہ زندہ سلامت موجود ہوں‘ پشاور کے ایک سفید شاہ ہوا کرتے تھے‘ وہ تحفظات کی فہرست پیش کرنے سے پہلے‘ حکمران کا ایک قصیدہ ضرور بیان کرتے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ حکمران غاصب ہے یا عوام کا نمائندہ‘ وہ اسے ایک ہی جیسے القابات سے یاد کرتے۔ اس کی شان و شوکت پر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کرتے۔ یہاں قیمتی کا مطلب وہ نہیں‘ جو رائج الوقت ہے۔ وہ اپنے قیمتی خیالات کے بہت بھاری نرخ لگایا کرتے۔ وہ اپنے تحفظات کی فہرست سنانا شروع کرتے‘ تو حکمران خوفزدہ ہو کر فوراً ہی انہیں علیحدہ ملاقات کے لئے طلب کر لیتا اور وہ تخلیے میں اپنے تحفظات بیان کر کے‘ شاداں و فرحاں واپس جاتے۔
مولانا صاحب نے ایم کیو ایم اور حکومت کے درمیان ڈیل کا جو بیڑا اٹھایا ہے‘ اس میں بھی حضرت کے کچھ نہ کچھ تحفظات ضرور ہوں گے۔ کچھ تحفظات ایم کیو ایم سے اور بہت سے تحفظات وزیر اعظم سے۔ ایم کیو ایم کا واسطہ مولانا سے ابھی پڑا ہے۔ اس وقت بدقسمتی سے ایم کیو ایم حکومت میں بھی نہیں ہے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے مگر اتفاق کی بات ہے کہ مولانا کو ایم کیو ایم کی ذمہ داری تفویض ہوئی‘ اس وقت وہ کچھ تحفظات دور کرنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن اس کے باوجود تھوڑے بہت تحفظات دور کرنے کی توفیق تو ایم کیو ایم بھی رکھتی ہے اور باقی رہے وزیر اعظم سے ان کے تحفظات‘ تو وہ مولانا کے ساتھ ہر ملاقات سے پہلے‘ ایسے تحفظات کی فہرست اپنے ذہن میں تیار کر لیتے ہیں‘ جنہیں دور کرنے کا وہ ارادہ رکھتے ہوں۔ آپ جانتے ہیں‘ وزیر اعظم کے کندھوں پر سارے ملک کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ انہیں روزانہ ہی بے شمار لوگوں کے تحفظات دور کرنا پڑتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ حکمرانوں سے میرے تحفظات نہیں۔ جامعہ کراچی کے طالب علموں کو‘ ماڈل ایان علی سے یقینا کچھ تحفظات ہوں گے پتہ نہیں دور ہوئے یا نہیں؟ ان سے میرے بھی کچھ تحفظات ہیں۔ ہر کام کے لئے عمر ہوتی ہے‘ جو میرے پاس نہیں۔