تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     22-08-2015

بے لاگ احتساب‘ بھر پور آپریشن

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اپنی جگہ سچے ہیں ۔ کرپشن پر اب تک کسی نے پوچھا نہیں۔ نیب اور ایف آئی اے دھنیا پی کر سوتے رہے؛ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے مرکز اور سندھ میں پانچ سال پورے کر لیے‘ اب اچانک رینجرز آپریشن سے حوصلہ پا کر نیب اور ایف آئی اے نے بھی سندھ پر چڑھائی کر دی ہے ۔گلہ بنتا تھا ‘جو شاہ جی نے وزیر اعظم سے کھل کر کیا۔
آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو سب سے زیادہ خوش پیپلز پارٹی‘ اے این پی اور ایم کیو ایم تھی۔ خیبر پختونخوا اور سندھ بالخصوص کراچی میں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر عسکری تنظیموں نے اودھم مچا رکھا تھا‘ اس کا مقابلہ ان تنظیموں کے بس کی بات نہ تھی جنہیں پانچ سال تک جمہوریت کے ''فوائد وثمرات ‘‘سمیٹنے سے فرصت تھی نہ پولیس اور انتظامیہ میں مداخلت کے سوا کوئی کام۔ اس مصروفیت کا فائدہ اٹھا کر عسکریت پسند اور دہشت گرد ہر جگہ دندناتے پھر رہے تھے‘ کسی کی جان محفوظ تھی نہ مال اور نہ اولاد۔ کراچی میں تو روزانہ ایک ڈیڑھ درجن افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنتے اور جو شخص ملازمت‘کاروبار یا شاپنگ کے بعد بخیریت گھر پہنچ جاتا وہ کلمہ شکر ادا کرتا اور اہل خانہ کچھ نہ کچھ بانٹتے۔
آپریشن پر سب سے زیادہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والی جماعتوں کو مگر یہ علم نہ تھا کہ ان کی اپنی صفوں میںموجود‘ قانون کو مطلوب افرادبھی آپریشن کی زد میں آئیں گے۔ کہیں بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر‘ کہیں معاشی دہشت گرد اور ان کے سہولت کار اور کہیںاسلحہ کے‘ سمگلر اور منشیات فروش۔ لوٹ مار کا بازار تین چار عشروں سے گرم ہے۔ سیاست کی آڑ میں جرم پروان چڑھا اور سنگین جرائم میں ملوث افراد پارلیمنٹ اور حکومت پر قابض ہو گئے مگر کسی نے تعرض تو خیر کیا کرنا تھا‘ اُلٹا حوصلہ افزائی کی۔ جمہوریت کا حسن سمجھا۔
قائم علی شاہ ہوں یا مفاہمتی سیاست کے دیگر کردار‘ بار بار حکمرانی کا مزہ چکھ چکے۔ مگر حکمرانی میں اس قدر مگن رہے کہ آج تک انہیں فوج کی ساخت و پر داخت پر غور کرنے کا موقع مل سکا‘ نہ فوج اور اس سے متعلقہ اداروں کے طریقہ کار کا۔ 
پاک فوج ملک کا واحد ادارہ ہے جہاں علاقے‘ صوبے‘ قومیت‘ زبان ‘ نسل‘ مسلک حتیٰ کہ مذہب کی بنا پر تعصّب کارفرما ہے‘ نہ اس کی آڑ میں کسی کو اپنے مخالفین سے بدلہ چکانے کی اجازت۔فوج اور اس سے متعلقہ ادارے کسی تفریق اور تعصب کی بنا پر کوئی کارروائی کر ہی نہیں سکتے کیونکہ کسی ایک زبان‘ نسل‘ علاقے یا مسلک سے تعلق رکھنے والے فرد یا گروہ کے خلاف امتیازی سلوک کی صورت میں یہ ادارے داخلی انتشار اور بے چینی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہی متوازن اور غیر متعصبانہ رویہ ہی فوج اور اس کے متعلقہ ادارں میں نظم و ضبط‘ اتحاد و یکجہتی اور بہتر کارگزاری کی ضمانت ہے جس کا ادراک تعصب اور ذاتی پسند ناپسند کے غیر انسانی جذبے سے مغلوب سیاستدانوں کو نہیں ورنہ وہ فوج‘ رینجرز‘ ایف سی یا دیگر اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈے سے عوام میں اپنی ساکھ خراب نہ کرتے۔ شمالی وزیرستان آپریشن اور ضرب عضب کا یہ منطقی اور فطری تقاضا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی‘ تخریب کاری‘ ٹارگٹ کلنگ ‘ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد اور گروہوں کے خلاف حتمی کارروائی کی جائے تاکہ کسی کو امتیازی سلوک کی شکائت ہو نہ جانبداری کی۔ 
ہمارے سیاسی گرگے یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ غربت‘ جہالت اور بے روزگاری نے دہشت گردوں کا کام آسان کیا ہے اور وہ مختلف علاقوں کے مضطرب ‘ بے چین‘ مایوس اور ناراض نوجوانوں کو ریاست کے خلاف اُکسانے اور سنگین جرائم کا راستہ دکھانے میں کامیاب رہے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں۔ ریاست اپنے وسائل سے غربت‘ جہالت اور بیروزگاری کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ مگر ہماری وسائل خور حکمران اشرافیہ نے سول انتظامیہ سے مل کر یہ سارے وسائل اپنے عیش و عشرت پر اڑائے یا بیرون ملک منتقل کر دیئے ۔سوئٹزر لینڈ میں پڑے دو سو ارب ڈالر اور دبئی‘ سپین‘ لندن‘ استنبول‘ کینیڈا وغیرہ میں اربوں ڈالر کی جائیدادیں اور کاروبار اسی لوٹ مار کا نتیجہ ہیں۔ فوج کو 1950ء کے عشرے سے اب تک اسی بنا پر بار بار آپریشن کی ضرورت پیش آتی ہے کہ ناانصافی‘ مایوسی ‘ بے چینی اور ناراضگی کا شکار کوئی نہ کوئی گروہ اور طبقہ کہیں نہ کہیں ریاست کے لیے درد سر بن جاتا ہے اور اس کا قلع قمع فوجی آپریشن کے بغیر ممکن نہیں رہتا۔
نیب اور ایف آئی اے کو سندھ میں کارروائیوں کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہاں حکومت اور ریاست کے ادارے وسیع پیمانے پر لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ صدر آصف علی زرداری‘ مخدوم امین فہیم‘ مخدوم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے پیروکاروں نے یہاں وزارت‘ اسمبلی کی رکنیت اور سرکاری عہدوں کو کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ وزیروں کے گھروں سے اربوں روپے نقد اور ارکان اسمبلی کے گھروں سے اسلحہ برآمد ہوتا ہے۔ لانچیں پکڑی جاتی ہیں اور ایان علی کو سرکاری پروٹوکول ملتا ہے۔ اربوں روپے لوٹنے والے سرکاری افسران کو بھاگنے کی آزادی ہے۔ اب بھی کئی اعلیٰ افسرچھٹی کی درخواستیں لیے وزیر اعلیٰ ہائوس کے چکر لگا رہے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ یہ چھٹیاں منظور کرنے لگیں تو سندھ سول سیکرٹریٹ کے علاوہ ہر محکمے کے اہم دفاتر میں صرف الّو بولتے نظر آئیں کیونکہ ہر منظور کاکا اب بھاگنے کے موڈ میں ہے۔
1988ء سے 2015ء تک ایک محدود وقفے کے سوا سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی حکومت رہی ہے۔ کرپشن‘ بھتہ خوری ‘ چائنہ کٹنگ اور اغوا برائے تاوان میں اضافہ ہوا اور رینجرز کے ہاتھ ثبوت لگے تو انہی کے خلاف‘ جو یہاں حکمران تھے یا ان کے فرنٹ مین اور گماشتے۔ رینجرزایف آئی اے اور نیب باز پرس بھی انہی مجرموں سے کرے گی۔ ''جنہاں کھادیاں گاجراں ڈھڈھ انہاں دے پیڑ‘‘۔ الطاف حسین‘ ڈاکٹر فاروق ستار‘ روئیں پیٹیں یا قائم علی شاہ بھری بزم میں گلہ کریں‘ آپریشن تو رکنے والا نہیں کیونکہ یہ پاکستان کی سلامتی ‘قوم کے مستقبل اور پاک فوج کی ساکھ کا معاملہ ہے۔ بندہ پوچھے کہ جب محکمہ پولیس ایک ارب روپے کے ناکارہ کیمرے خرید رہا تھا‘ جب وزیر روپوں اور ارکان اسمبلی اسلحے کے ڈھیر لگا رہے تھے اور پولیس میں نالائق‘ جرائم پیشہ اور دہشت گردوں کے ساتھی نذرانے لے کر بھرتی کئے جا رہے تھے اور ٹارگٹ کلنگ روز مرہ کا معمول تھا اس وقت تو آپ بولے نہیں‘ ان جرائم پیشہ افراد کا گھیرا تنگ ہواتو آپ شکوہ و شکائت پر اتر آئے ہیں۔ کیا جرائم کی سرپرستی اور لوٹ مار بھی حکمرانوں‘ ارکان اسمبلی اور ان کے چہیتوں کاجمہوری حق ہے اور قانونی اختیار کہ ان سے نیب پوچھے نہ ایف آئی اے چھاپہ مارے۔
لکھ چھوڑیے! نیب اور ایف آئی اے کچھ کرنے سے رہے‘جب تک این آر او سے مستفید ہونے والا ہر سیاسی لیڈر ‘ بیورو کریٹ اور جرائم پیشہ فرد قانون کے شکنجے میں جکڑانہیں جائیگا۔ چھوٹی مچھلیوں کے بجائے مگرمچھوں کی باری نہیں آئے گی اور پارلیمنٹ کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک نہیں کیا جائے گا‘ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ اکاس بیل سے چھٹکارا اس وقت ملتا ہے جب اس کی جڑیں کاٹ کر جلا دی جائیں۔ یہ اکاس بیلیں محفوظ تو ان کی ٹہنیاں(بصورت دہشت گرد‘ را کے ایجنٹ‘ بھتہ خور‘ اغوا کار‘ قبضہ گروپ اور ٹارگٹ کلرز) کاٹنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا‘ جس طرح ماضی کے آپریشنوں سے نہیں پڑا۔ فوج اور رینجرز کو غالباً اس کا احساس ہے مگر مفاہمتی سیاست کے نام پر چاروں صوبوں میں جرائم پیشہ عناصر کے سرپرستوں کو نہیں‘ ورنہ یہ آپریشن ایک سال تک جاری رہنے کے بعد بھی تشنگی کا شکار نہ ہوتا اور میاں صاحب ڈی جی رینجرز کے پیش کردہ حقائق کو نظر انداز کر کے‘ وزیر داخلہ کوقائم علی شاہ کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت نہ فرماتے۔ پنجاب میں بھر پور آپریشن فاروق ستار اور قائم علی شاہ کے تحفظات دور کرنے کا معقول اور مناسب طریقہ ہے ۔تاکہ کسی کو امتیازی سلوک کا گلہ نہ ہو۔ شائد اسی بنا پر کچھ ہلچل ہوئی ہے مگر موثر‘ بھر پور اور تیز رفتار آپریشن کے بغیر چارہ نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved