جنگ اب کوئی چیلنج نہیں۔ بھارتی ''را‘‘ کے باوجود جیت لی جائے گی۔ سوال ایک نظامِ عدل کی تشکیل کا ہے کہ بستیاں ہمیشہ پُرامن رہیں۔ عدل ہی انصاف کی کلید ہوتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالمالک سمیت سیاستدانوں کے لیے اصل چیلنج یہی ہے۔
بلوچستان بدل رہا ہے؛ اگرچہ قومی پریس میں بدلتے ہوئے بلوچستان کی تصویر دکھائی نہیں دیتی۔ کیا اتنی بڑی خوش خبری کے لیے ہم تیار نہ تھے؟ مایوسی تو کراچی اور وزیرستان کے باب میں بھی تھی مگر میڈیا نے اس پر توجہ مبذول کی۔ کراچی پر اس لیے کہ ہمیشہ سے پریس میں وہ نمایاں تھا۔ ہر چھوٹا بڑا واقعہ فوراً ہی آشکار ہو جاتا‘ کبھی کبھی تو ضرورت سے زیادہ بھی۔ ضرب عضب کا آغاز ایک دھماکے سے ہوا۔ جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت‘ فوج کے 23 جانبازوں کا بہیمانہ قتل اور پشاور میں چرچ کے خونیں واقعات نے وہ فضا مہیا کر دی کہ مذاکرات جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔ قوم یکسو ہوئی تو فوجی قیادت بھی یکسو ہو گئی۔ موزوں ماحول میں جنرل راحیل شریف نے جرأت مندانہ اقدام کا فیصلہ کیا تو سول قیادت نے بھی حالات کے تقاضوں کا ادراک کیا۔ بہت تیزی سے ایک قومی اتفاق رائے وجود میں آیا اور میڈیا اس کا حصہ بنا۔
بلوچستان بہت دور دراز واقع ہے۔ چھوٹا سا کوئٹہ شہر اور اس کے گردونواح میں پھیلی ہوئی 90,80 لاکھ کی آبادی۔ 13 اگست کو شمالی کمان کے سربراہ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے ملک بھر سے جمع ہونے والے شاعروں اور ٹی وی میزبانوں کو ایک سلائیڈ دکھائی۔ ہنستے ہوئے انہوں نے کہا: یہ سلائیڈ میں نے ایف سی والوں سے لی ہے مگر ضروری نہیں کہ واپس بھی کروں۔ پنجاب‘ سندھ اور سرحد کے نقشوں کو کمپیوٹر نے اٹھایا اور بلوچستان میں لا ڈالا۔ سب کے سب اس میں مدغم ہو گئے۔ ''بلوچستان‘ ملک کا پچھواڑا نہیں‘ اس کی اگاڑی ہے‘‘۔ 15 اگست کی دوپہر ایف سی کے جنرل شیر افگن نے اپنے دفتر میں کہا۔ ان اقدامات کی تفصیل بھی جو فوج‘ پولیس اور صوبائی حکومت کی مدد سے انہوں نے شورش کو تحلیل کرنے کے لیے اب تک کیے ہیں۔
جو چیز بلوچستان میں سب سے زیادہ خوش کن ہے اور پہلی ہی نظر میں‘ جس کا اندازہ ہو جاتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ عسکری اور سول انتظامیہ میں ایک مثالی تعاون کارفرما ہے۔ جنرل جنجوعہ کی خوش اخلاقی ضرب المثل ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ وہ داد کے طالب نہیں۔ تحسین کی آرزو ایک بنیادی انسانی کمزوری ہے مگر جنرل صاحب اپنی ذات سے اوپر اٹھنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ایک آدھ دن میں یہ بات پیدا نہیں ہوتی۔ شخصیت اور مزاج کا کبھی نہ الگ ہونے والا حصہ‘ فطرت ثانیہ بننے میں اسے بہت وقت درکار ہوتا ہے۔ بلوچستان کے لیے جنرل ناصر جنجوعہ قدرت کا ایک انعام ہیں۔ کوئٹہ میں چھ روزہ قیام کے دوران‘ میں نے محسوس کیا کہ اس مجروح صوبے کے لیے ان کی خدمات کی حیثیت وہی ہے‘ جو 1960ء کے مشرقی پاکستان میں جنرل اعظم خان کی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ جنرل اعظم کی مقبولیت سے فیلڈ مارشل ایوب خان پریشان ہو گئے تھے۔ جنرل جنجوعہ کی کامیابیوں نے راولپنڈی میں ان کے قائد راحیل شریف کو خورسند کیا ہے۔ وہ ان پر اعتماد رکھتے اور انہیں تھپکی دیتے رہتے ہیں۔
میری ان سے بارہا طویل ملاقاتیں ہوئیں اور فون پر بھی رابطہ رہا۔ سبھی اخبار نویسوں کو وہ میسر رہتے ہیں‘ اگر وہ مصروف نہ ہوں اور بات کرنے والا خود کو موضوع تک محدود رکھے۔ بلوچستان سے انہوں نے ٹوٹ کر محبت کی ہے۔ وہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ فلاں کارنامہ میں نے انجام دیا ہے۔ اپنی قیادت کا ذکر ہمیشہ شکر گزاری سے کرتے ہیں۔ اتنی ہی محبت سے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ اور دوسرے سیاستدانوں کی مدد کے بغیر بلوچستان کبھی نہ بدل سکتا‘ جو سر تا پا تبدیل ہو رہا ہے۔ اس عمل کو اگر مہمیز دی جاتی رہی تو نہ صرف یہ پاکستان کی عظیم فتح ہو گی بلکہ خود بلوچستان کی بھی۔ ہم نے انہیں بلوچستان کے کسی لیڈر اور کسی افسر کے بارے میں ناگواری کا اظہار کرتے نہیں پایا۔ کسی کی روش سے اختلاف ہے تو اس کا ذکر شائستگی سے کرتے ہیں۔ اس کی ناسمجھی اور اندازِ فکر کی خامی کا۔
بلوچستان انتظامیہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ مقامی فوجی سربراہ... اگرچہ ان کا دائرہ کار نواح لاہور سے کراچی کے ساحل تک پھیلا ہے... وزیر اعلیٰ‘ آئی جی فرنٹیئر کانسٹیبلری‘ چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کے مراسم مثالی ہیں۔ کرید کرید کر پوچھا مگر ان سب میں سے کسی کو دوسرے سے شکایت نہ تھی۔ چیف سیکرٹری صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی مگر باقی سب کے ساتھ تفصیل سے تبادلۂ خیال ہوا۔ جنرل ناصر جنجوعہ شاکی تھے کہ یہ ناچیز ان کی خدمت میں حاضر نہ ہوا اور بگتی سٹیڈیم میں 13 اور 14 اگست کی تقریبات میں شریک نہ ہو سکا۔ ایک دن بہت تھوڑی دیر کے لیے‘ دوسرے دن سرے سے نہیں کہ حبیب اکرم اور میں زیارت سے واپسی پر دو گھنٹے اژدہام میں پھنسے رہے‘ جہاں بلوچ اور پشتون نوجوان ایک دوسرے پر پانی اور جھاگ اچھال رہے تھے۔ جھاگ کی قیمتی بوتلیں وہ خرید کر لائے تھے اور برسرِ راہ بِک بھی رہی تھیں۔ ہم نے حیرت سے دیکھا کہ جو پانی اور جھاگ کا ہدف تھے‘ دوسروں سے کم لطف وہ نہ اٹھا رہے تھے۔ پورا شہر ایک میلے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بلوچستان کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا جشن کبھی برپا نہ ہوا ہو گا۔ اس کا پیغام یہ تھا: آویزش اور تلخیوں سے ہم تنگ آ چکے۔ اب ہم امن‘ فراغت اور شادمانی چاہتے ہیں۔
جنرل صاحب اصرار کرتے رہے مگر تکان کے باعث جا نہ سکا۔ اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ میرے کمرے میں تشریف لائے اور دو گھنٹے تشریف فرما رہے۔ حبیب اکرم اس پر حیران تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ذاتی عنایت اپنی جگہ‘ جنرل صاحب کا عمومی رویہ بھی یہی ہے۔ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اسی دوپہر زیارت میں ایک بلوچ نوجوان سے وہ کس طرح پیش آئے۔ اپنے ہاں کے عشائیے اور بریفنگ میں شاعروں اور اخبار نویسوں سے کس تپاک‘ انس اور الفت کے ساتھ ملے۔
زیارت میں‘ جہاں تخریب کاروں کی طرف سے جلا دینے والی ریذیڈنسی از سر نو تعمیر ہو چکی کہ قائد اعظم نے اپنے آخری ایام وہاں گزارے تھے‘ ڈاکٹر عبدالمالک سے اس وقت آمنا سامنا ہوا‘ جب تقریب نمٹا کر وہ واپس جا رہے تھے۔ کہا: مجھ سے ملے بغیر‘ تم میرے شہر سے واپس کیسے جا سکتے ہو۔ ان کے دونوں ہاتھ تھامے میں کھڑا رہا‘ ان سے معذرت کرتا رہا۔ اگلے دن ان کے ہاں حاضر ہوا۔ عجیب آدمی ہیں‘ ان کے اپنے وسیع و عریض دفتر میں ملاقاتیوں کا ہجوم تھا اور وہ عقب کے کمرے میں‘ ایک چھوٹی سی میز کے گرد بیٹھے تھے۔ پچھلی دفعہ بھی یہیں ملے تھے‘ جب ایک بم دھماکے کی وجہ سے‘ بات ادھوری رہ گئی تھی۔ سوال کیا: آپ اپنے دفتر میں کیوں تشریف نہیں رکھتے۔ بولے: میں یہاں زیادہ آسودہ محسوس کرتا ہوں۔ معذرت کی اور پہلے سے موجود دو آدمیوں سے بات کرتے رہے۔ متوجہ ہوئے‘ تب بے تکلفی سے تبادلۂ خیال کیا۔ ہر سوال کا اس قدر کھل کر جواب دیا کہ ہم حیران رہ گئے۔ حبیب اکرم کو فکر لاحق تھی کہ وزیر اعلیٰ کی تبدیلی سے‘ جو چند ماہ میں برپا ہونے والی ہے‘ معاملات الجھ سکتے ہیں۔ میں نے گزارش کی کہ پیمان کی پاسداری لازم ہے۔ اگر کوئی تدبیر کی جا سکتی ہے تو سردار ثناء اللہ زہری کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب بولے: میرے دامن میں اعتبار کے سوا کیا رکھا ہے کہ اس سے دستبردار ہو جائوں۔ عمر بھر اپنی عزت کی حفاظت کی ہے۔ آئندہ بھی یہی کروں گا۔ ثناء اللہ زہری جس مزاج اور اہلیت کے آدمی ہیں‘ صوبے کا کاروبار چلانا ان کے لیے مشکل ہو گا بلکہ بہت مشکل۔ چار عدد اور امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ ان میں سے ایک سرفراز بگتی ہیں۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ بہادر‘ معاملہ فہم اور خوبصورت گفتگو کرنے والے آدمی ہیں۔ بہرحال وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا انحصار اور بہت سی چیزوں پر ہے۔ ازراہ کرم وہ ہوٹل میں تشریف لائے اور مشورہ مانگا۔ وزارت اعلیٰ نہیں کہ اس کے لیے ہرگز وہ بے تاب نہیں بلکہ عمومی طور پر۔ بے حد اپنائیت۔ ایسا لگا کہ کسی پرانے دوست سے بات کر رہا ہوں۔ گزارش کی کہ جو سیاستدان اپنے علاقے یا صوبے میں الجھ جاتا ہے‘ وہ کبھی ایک بڑا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ ثانیاً‘ خود سیاست کے تقاضوں کا ادراک ضروری ہے۔ سیاستدان کو خود سے اوپر اٹھنا چاہیے اور بدلتے ہوئے تقاضوں کو سمجھنے کے لیے ریاضت کرنی چاہیے۔
آئی جی ایف سی جنرل شیر افگن سے پوچھا: کس علاقے سے آپ کا تعلق ہے؟ بولے: پاکستان سے‘ فی الحال بلوچستان سے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ میرپور آزاد کشمیر سے۔ واقعہ یہ ہے کہ کشمیریوں سے بڑا پاکستانی کوئی نہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس عملش خان ایک اساطیری افسر ہیں۔ دھیمے‘ بہادر اور شفاف۔ انسداد دہشت گردی کے لیے پولیس کا ایک بہترین دستہ انہوں نے تیار کیا ہے۔ ایسا کہ چھاپوں میں ایف سی کی بجائے‘ اکثر انہیں ساتھ لے جایا جاتا ہے۔
مذہبی فرقہ پرست‘ بلوچ علیحدگی پسند اور طالبان سبھی شکست خوردہ ہیں۔ ان کی قوت اسی فیصد کم ہو چکی‘ اسی قدر دہشت گردی بھی۔ دور دراز کے جن مقامات پر پاکستانی پرچم لہرایا نہ جا سکتا تھا‘ وہاں چائے کے کھوکھوں‘ موٹر سائیکلوں‘ حتیٰ کہ بکریوں کے سینگوں پر بھی پھڑپھڑا رہا تھا۔ پانچ سو سے زیادہ فراری ہتھیار ڈال چکے۔ علیحدگی پسند لیڈروں کی اکثریت واپسی کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
جنگ اب کوئی چیلنج نہیں۔ بھارتی ''را‘‘ کے باوجود جیت لی جائے گی۔ سوال ایک نظامِ عدل کی تشکیل کا ہے کہ بستیاں ہمیشہ پُرامن رہیں۔ عدل ہی انصاف کی کلید ہوتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالمالک سمیت سیاستدانوں کے لیے اصل چیلنج یہی ہے۔