تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     22-08-2015

طلسم ہوشربا

میرے ایک چچا پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔وہ گاؤں گاؤں پھر کر دندان سازی کرتے اور نوجوان عورتوں کے دانتوں پر نقلی سونے کے خول چڑھا کر انہیں زیادہ دلکش انداز میں مسکرانے اور ہنسنے کاموقع دیتے تھے۔جب فارغ ہوتے تو مجھ سے '' داستان امیر حمزہ‘‘ سنتے اور ایک نشست کے لئے مجھے ایک پیسہ عطا کرتے تھے‘ جس پر ایڈورڈ گنجے کی شبیہ ہوتی تھی۔ان کو عمر و عیار‘ جسے وہ اْمرا یار کہتے تھے‘ بہت اچھا لگتا تھا۔ان کا دوسرا پسندیدہ کردار سعد بن لندھور تھا جس کے کارناموں پر وہ فدا تھے۔یہ داستان اور اس کے کردار مشرقی پنجاب میں رہ گئے اور ان کو چاہنے والے بھی چل بسے۔ کتابی تدریس (بْک لٹریسی) کی جگہ اب انٹر نیٹ (کمپیوٹر لٹریسی ) کا دور دورہ ہے مگر شاہناز اعجاز الدین کی سْوئی بچپن سے امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا کی دوسری داستانوں پر ٹکی ہوئی ہے اور انہوں نے طلسم کا انگریزی ترجمہ کر ڈالا ہے‘ جو نو سو صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔وہ شہر شہر اس ضخیم جلد کی نمائش کرتی پھرتی ہیں۔لاہور میں انتظار حسین نے یہ جلد دیکھی تو بقول ان کے حیران رہ گئے۔ضیا محی الدین‘ خالد احمد اور دہلی کے دانشوروں نے بھی اس پر تبصرے کئے‘ جن سے مترجم نے قابل قبول جملے نکال کر انہیں واشنگٹن کی ایک محفل میں تقسیم کیا۔جب ان کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی گئی کہ داستانوں کا دور گزر چکا ہے‘ تو انہوں نے فراخدلی سے تسلیم کیا کہ واقعی وہ لیٹ ہیں۔محفل میں ڈاکٹر معظم صدیقی جیسے مبصر موجود تھے جو سب کو خوش رکھتے ہیں‘ مگر ڈاکٹر ستیہ پال آنند چپ رہے۔ نظیرہ اعظم‘ جنہوں نے ماں باپ سے چوری طلسم ہوش ربا پڑھ رکھی تھی‘ بڑھ بڑھ کر بولتی رہیں۔حلقہ ارباب ذوق شمالی امریکہ کی اس نشست میں یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کتنے لوگوں نے یہ کتاب پڑھی ہے۔ بیگم اعجاز الدین کا خیال تھا کہ لڑکیوں کو یہ کتاب پڑھنے کی ممانعت تھی‘ اس لئے بہت کم ان کرداروں سے واقف ہوں گے۔فی الفور ان کی تصحیح گئی۔ بیشتر ارباب ذوق نے بچپن میں یہ کتاب بھی دیکھی تھی۔
سنا تھا کہ یہ داستانیں شہنشاہ اکبر (1542-1605ء) کے نو رتنوں میں سے دو نے‘ جنہیں بادشاہ کے ایجاد کردہ دین الٰہی سے تشویش تھی‘ ہندومت کے شکتی وان دیوی دیوتاؤں سے ان کا دھیان ہٹانے کی غرض سے گھڑوائی تھیں اور ان کی جگہ طاقت ور اور زیرک کردار جن کے نام مسلمانوں کے ناموں سے ملتے جلتے تھے‘ وضع کرائے تھے چنانچہ بادشاہ کی زندگی میں اور ان کے بعد بڑے بڑے داستان گو پیدا ہوئے اورشبینہ محفلوں پر سحر طاری کرتے رہے حتیٰ کہ طباعت کا دور آ پہنچا تو منشی نولکشور نے لکھنو میں اپنا پرنٹنگ پریس قائم کیا اور داستانوں کے قلمی نسخوں سے طلسم ہوشربا چھا پ کر پیسے کمائے۔اس کام میں دو ڈھائی سو سال لگ گئے اور اس کا ایک انگریزی ترجمہ پنگون کلاسیکس کے ہاتھ آنے تک مزید ایک سو سال صرف ہوئے اور اس نے Enchantment of the Senses کی صورت میں اسے شا ئع کیا۔اب اسے کون خریدے گا اور کس وقت پڑھے گا؟باقر علی اور محمد حسین داستان گو کو بھی اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے ایک زمانہ بیت چکا ہے۔
بیگم اعجاز نے طلسم ہوشربا میں بادشاہوں‘ وزیروں ‘ عیاروں ‘ جنوں ‘ پریوں‘ جادو گروں‘ جادو گرنیوں اور کٹنیوں کا تذکرہ کیا اور مانا کہ اسلام کی بنیادی اقدار سے ان کا کوئی تعلق نہیں مگر ان کو اردو مخطوطے پڑھنے میں خاصی دشواریاں پیش آئیں۔اس پر ایک صاحب نے پوچھا:کیا لکھنو کے عوام یہ زبان سمجھتے تھے؟ یہاں بھی معظم صاحب بیگم صاحبہ کے کام آ ئے اور وضاحت کی کہ اس زمانے میں مقفع و مسجع عبارت پسند کی جاتی تھی اور منشی نولکشور نے داستانوں کے مسودے لکھوانے کے لئے فارسی زبان کے عالم اکٹھے کئے تھے‘ جنہوں نے یہ بات پیش نظر رکھی کہ کرداروں میں سے ہر ایک نا قابل مواخذہ ہو۔ایک نظریہ جو یہاں زیر بحث کم آیا یہ تھا کہ یہ عوام کے سونے کا دور تھا اور اس میں وہی ادب شاہ اور اس کے حواریوں کو مطلوب تھا جو لوگوں کو گہری نیند سْلا سکے اور وہ اپنے حالات کی تلخی سے بے خبر رہیں۔
حلقہ در اصل اس نشست کے لئے ڈاکٹر آنند کا مقروض تھا۔ ''نوْر کیا ہے؟‘‘ ا صل میں یہ نظم انہوں نے پاکستان اور بھارت کے تیسویں ( نہ جانے ) سفر پر روانہ ہونے سے پہلے لکھی تھی اور حلقے کے ماہانہ اجلاس میں پڑھی تھی مگر اس کی نقول دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے واپس لے لی گئی تھی۔آج انٹر نیٹ پرنٹر کی بدولت وہ یاروں کے پیشگی مطالعے کے لئے موجود تھی۔ 
'' بھاپ سی اٹھتی ہے میرے ذہن کے تحت الثریٰ سے
دھند کا محلول بادل
الکحل کی نشہ آور گرم چادر سا
مجھے چاروں طرف سے ڈھانپ کر للکارتا ہے
گہری نا بینائی کے عالم میں آنکھوں کے دیے بجھنے سے پہلے
ڈھونڈو اپنی روشنی جو کھو چکے ہو!‘‘ 
ڈاکٹر صدیقی نے نظم کے چھ بندوں کی تشریح کی اور واضح کیا کہ کس طرح شاعر نے شیخ ابو سعید ابو الخیر‘ فریدالدین عطار‘ مولانا رومی ‘ سوامی وویکا نند اور سوامی رام تیرتھ اور دوسرے اہلِ علم کے فلسفے سے استفادہ کیا۔صدیقی صاحب نے نظم کے آخری بند کو نتیجہ خیز قرار دیا۔ 
ایک چْپ
گنگ‘ نا گویا تھے سب ملائے مکتب‘ عالم و فاضل‘ معلم!
گو مگو کی صرف اک موہوم سی صورت نظر آئی
کہ جس کا مدعا بس اس قدر تھا... 
واقف علم الٰہی تو یقینا ہم سبھی ہیں لو ذعی عالم نہیں ہیں
ستیہ پال آنند صاحب !!!!
ڈاکٹر آنند بتاتے ہیں کہ عطار نے تصوف کے جو سات راستے گنوائے ہیں نظم میں ان سے بطور خاص فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ مذہب '' تنوع میں اتحاد‘‘ کا نقیب ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یسوع مسیح‘ محمد مصطفی ؐ اور بابا گرو نانک نے خدا کا پیغام انسانوں تک پہنچایا مگرپروردگار تک پہنچنے اور واپس آنے کا اعزاز صرف محمدﷺ کے حصے میں آیا۔ جب ان سے کہا گیا کہ دنیائے اسلام میں یہ بحث جاری ہے کہ معراج مصطفی‘ جسمانی تھی یا روحانی اور مودودیؒ جیسے سکالر اسے جسمانی مانتے ہیں‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اس بحث سے واقف ہیں۔ابو الحسن نغمی نے معراج النبی میں تسخیر کائنات کا منظر دیکھا اور اقبال کا یہ شعر پڑھا ؎
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے 
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں 
ڈاکٹر صدیقی نے نظم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد کلیم اللہ کا حوالہ دیا جنہوں نے حلقے کی گزشتہ میٹنگ میں نور اور ضیا کے درمیان خط فاصل کھینچا تھا۔انہوں نے نور کو آسمانی اور ضیا کو زمینی بتایا تھا۔کلیم اللہ ایک امریکی سائنسدان ہیں اور واشنگٹن کے علاقے میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔جب وہ ملتان کے ایک یتیم خانے سے پہلی بار سکول گئے تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ اسلحہ سازی میں حصہ لینے کے بعدایک امریکی لیب سے سبکدوش ہوں گے۔ لندن میں انہوں نے ایک دہریہ پروفیسر کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا مگر اب وہ اللہ کو زمین اور آسمانوں کا نور کہتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سارا سائنسی علم خدا کے وجود کی تصدیق کرتا ہے۔
ڈاکٹر آنند نے بتایا کہ عطار کے صوفیانہ طریقوں پر غور و خو ض کے لئے کچھ ہم عصر دوستوں کے خیالات سے استفادہ کرنا ضروری سمجھا گیا جو اس اجتماع میں بکھرے پائے گئے۔ وہ چکوال میں پیدا ہوئے تھے اور ابتدائی تعلیم منشی تلوک چند محروم سے حاصل کی تھی۔کہنے لگے کہ سوامی رام تیرتھ تو جدید انسان تھے اور بٹوارے سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھاتے تھے۔گیان پا کر سوامی ہو گئے اور جنگلوں کی طرف نکل گئے۔ تصوف اور بھگتی تحریک کے حوالے سے عشق یا نقطۂ جذب و کشش کے لئے سوامی رام تیرتھ کے خیالات بیش بہا ثابت ہوئے۔اس محفل میں ایک انڈین امریکن خاتون دلیر آشنا دیول نے بھی اپنا کلام سنایا جو دیوناگری رسم الخط میں ہونے کے باوجود کسی کی سمجھ سے بالا تر نہیں تھا۔حلقے کا اگلا اجلاس ایک مشاعرہ تھا۔ اس میں مسز دیول نے ایک نظم پڑھی۔'' میں کون؟ ‘‘ یہ سوال اکثر دانشوروں نے اٹھا یا ہے اور جب سے اسلام کے نام پر دہشت گردی عام ہوئی ہے اسلامی تصوف فکر انسانی پر چھا رہا ہے۔ ڈاکٹر صدیقی نے بتایا کہ جلال الدین رومی (کہ من خود را نمی دانم) سے بلہے شاہ (کی جاناں میں کون؟) تک مغرب اور مشرق کے متعدد شاعروں نے اپنے آپ سے یہ سوال پوچھا ہے اور پھر سوال کی گہرائیوں میں کھو گئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved