ایک جینوئن اور بڑے ادیب/شاعر کے دماغ میں ایک فرما فٹ ہوتا ہے اور تخلیقی عمل کے دوران کوئی جملہ پیرا گراف یا شعر اس میں سے باہر نکل ہی نہیں سکتا اور وہیں مر جاتا ہے اگر وہ تخلیق کار کے معیار کے مطابق نہ ہو جبکہ اس ضمن میں کسی کمپرو مائز کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔ بڑا تخلیق کار نہ صرف معیاروں کا معیار ہوجاتا ہے بلکہ وہ معیار گر کی بھی حیثیت رکھتا ہے کہ میر کی طرح اس کا فرمایا ہوا ہر لحاظ سے مستند ہوتا ہے یعنی وہ ٹھیک ہو گا جسے وہ ٹھیک کہہ دے اور اس طرح کا سرٹیفکیٹ وہ بلاوجہ بھی جاری نہیں کرتا بلکہ اس کے عقب میں وہ سارا سفر ہوتا ہے جو وہ اپنی اُپج اور انفرادیت کے ساتھ ذہنی طور پر کر چکا ہوتا ہے!
''مستنصر حسین تارڑ کی 15کہانیاں‘‘ اس کی تازہ ترین تصنیف ہے جو سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے اپنی روایتی آب و تاب کے ساتھ شائع کی ہے اور اس کی قیمت 895روپے رکھی ہے ‘ اور اگر ان کے بارے میں اتنا ہی کہہ دیا جائے کہ یہ کہانیاں مستنصر حسین تارڑ نے لکھی ہیں تو مزید کچھ کہنے سننے کی گنجائش کم ہی رہ جاتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اسے حیران کن تخلیقی سرگرمیوں کی عادت پڑ چکی ہے اور وہ اپنی اس عادت کے ہاتھوں مجبور ہے‘ تو بھی کچھ ایسا غلط نہ ہو گا۔
واضح رہے کہ میں یہ کالم صرف مزہ لینے کے لیے لکھ رہا ہوں ورنہ کہانی‘ اس کی تکنیک اور اس کے اسرار و رموز کے بارے میں مجھے اتنا ہی علم ہے جتنا کوئی تھانیدار کسی سول سرجن کے کام سے واقف ہو‘ بلکہ میں تو فکشن کا باقاعدہ قاری بھی نہیں ہوں اس لیے میرا اس کے بارے کچھ فرمانا اتناہی مستند ہو سکتا ہے ‘ ان حالات میں آپ جتنا بھی اندازہ لگا لیں۔ میں نے یہ افسانے کوئی دو ڈھائی نشستوں میں پڑھ ڈالے ہیں اور یہ کام خلاف معمول اس لیے بھی کر گزرا ہوں کہ پچھلے دنوں
عزیزی علی اکبر ناطق مجھے بہلا پھسلا کر اپنا ناول ''نولکھی کوٹھی‘‘ پورے کا پورا پڑھوا چکا ہے‘ چنانچہ اسی روانی میں میں یہ کہانیاں بھی پڑھ گیا‘ چنانچہ آپ اسے تبصرہ تو ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ میں اپنے آپ کو اس کا اہل بھی نہیں سمجھتا۔ یہ کہانیاں اگر ایک سے بڑھ کر ایک ہیں تو اس میں تارڑ کا کوئی کمال نہیں کہ اس نے تو یہ سب کچھ بس عادتاً ہی کر دیا ہے۔ اگر ان کہانیوں کے حوالے سے مصنف کے سحر کارانہ انداز بیان یا زبردست مشاہدے کی بات کی جائے تو بھی یہ ایک کار فضول ہو گا‘ اور نہ ہی میں فردا ً فرداً ان کہانیوں کا جائزہ لے سکتا ہوںکیونکہ یہ میرا میدان ہی نہیں ہے‘ اگرچہ یہ بات اپنے طور پر درست ہو گی کہ شاعری‘ جو میرا میدان ہے‘ میں نے اس میں کون سا تیر مار لیا ہے جو میں تارڑ جیسے فکشن رائٹر پر بات کرنے بیٹھ جائوں جس پر ہر کوئی یہی کہے گا کہ ؎
تو کارِ زمین را نِکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی
چنانچہ کہانی ''ایک سنو ٹائیگر کی سرگزشت‘‘ میں جب ایک بھوکا شیر تلاش رزق میں پھرتا پھراتا ایک جھونپڑی میں پہنچتا ہے جہاں ایک خوبصورت لڑکی موجود ہوتی ہے اور غضب کی اشتہا کے باوجود وہ اسے کھانے کی بجائے اس پر عاشق ہو جاتا ہے اور لڑکی اس پر ‘ تو ظاہر ہے ایک انہونی بات ہے لیکن چونکہ تارڑ نے کہی ہے اس لیے اس پر تمام تر صدق دِل سے یقین کرنے کو جی چاہتا ہے‘ حتیٰ کہ ایک دوسرے کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر سردی اور بھوک کے مارے چند ہی دنوں میں پڑے پڑے دونوں خاک ہو جاتے ہیں اور کہانی ختم ہو جاتی ہے۔
البتہ میری کچھ طفلانہ سی خواہشات ضرور ہیں جو ظاہر ہے کہ پوری نہیں ہوسکتیں کیونکہ ان کی بنیاد ہی درست نہیں ہے۔ پہلی تو مثلاً یہ ہے کہ کہانیوں کا ہر کردار اپنے علم اور حیثیت کے مطابق مکالمے ادا کرتا تو میں زیادہ خوشی محسوس کرتا کیونکہ وہ مصنف کا باپ ہو‘ ہوٹل کا بیرہ ہو یا ایک پہاڑی مزدور جو بیشک گائیڈ کے طور پر کام کر رہا ہو‘ وہی زبان بولتا اور اس ادبی لب و لہجے میں بات کرتا ہے جو مصنف کا اپنا ہے تو ذرا الجھن ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض کردار ایسے ہوتے ہیں جن میں مصنف اس قدر ڈوب کر لکھتا ہے کہ وہ ایک طرح سے خود ہی اس کردار میں منقلب ہو جاتا ہے کہ مصنف کا لب و لہجہ پوری آب و تاب کے ساتھ اس کردار کے مکالموں اور بیانیہ میں دوڑتا ہے‘ اور اگر کہانی کے ہر چھوٹے بڑے کردار کے ساتھ مصنف کا اس لحاظ سے سلوک ایک ہی جیسا ہو تو جدید فکشن کے تقاضوں کو نہ سمجھنے والا قاری پریشانی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
میں نے بچپن میں کہیں پڑھا تھا کہ کہانی کار کے لیے لازم ہے کہ کہانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کو قائل بھی کرتا جائے اور کہانی کو تعقلاتی منطقے سے کسی صورت باہر نہ نکلنے دے لیکن شاید اب یہ ممکن نہ ہو کیونکہ کہانی ایک طویل سفر طے کر کے بہت آگے جا چکی ہے اور بچپن میں پڑھی یا سنی ہوئی باتیں متروک ہو چکی ہیں، اس لیے 'مکوڑے‘ ڈھک مکوڑے‘ کہانی کے کچھ پہلو غیر واقعاتی محسوس ہو سکتے ہیں۔ تالاب اگرچہ جھیل نہیں ہوتا اور تالاب ہی ہوتا ہے‘ لڑکے بالے جس میں گھس کر گایوں بھینسوں کو نہلاتے ہیں اور جس میں ایک جوان لڑکی عام حالات میں ڈوب کر مر نہیں سکتی‘ تو قصور وار قاری کا کم مطالعہ ہونا ہوتا ہے‘ مصنف نہیں۔ اسی طرح کہانی''سکوٹر کی پچھلی نشست پر بیٹھی لڑکی جو ہنس دی تھی‘‘ میں سکوٹر چلانے والا لڑکا شاید نابینا تھا جسے نہ بند اشارہ نظر آتا ہے نہ سامنے سے گزرتا ہوا بے ہنگم ٹریفک‘ اور وہ اس میں جا گھستا ہے اور دونوں وہیں اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ کہانی''زرد پیراہن کا بن‘‘ میں افسانے کا ہیرو دروازے سے ٹنگے جس لباس کی بو سے مست ہو کر اس نادیدہ لڑکی کا عاشق ہو جاتا ہے اور عمر بھر اس کے عشق میں مبتلا رہتا ہے‘ وہ لباس کسی بڑھیا کا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ایک بڑھیا اور جوان لڑکی کے پسینے اور ان کی بو میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔
''ان کی مائیں بھی روتی ہیں‘‘ میں ہیرو ایک بلند چوٹی سر کرنے اور اس فتح کا تحفہ اپنی منگیتر کو شادی کے موقع پر پیش کرنے کے لیے اس قدرخراب موسم‘ خطرناک اور دشوار گزار راستوں پر اسے ساتھ لے جاتا ہے‘ اس میں کوئی تک نظر نہیں آتی جہاں وہ رات بھر ایک گائیڈ کی موجودگی میں شدید بخار میں مبتلا ہو کر ختم ہو جاتی ہے جبکہ یہ تحفہ وہ اسے گھر بیٹھی کو بھی دے سکتا تھا۔ علاوہ ازیں آرمی پبلک سکول سانحہ اور بھٹے کی آگ میں جھونکے گئے مسیحی جوڑے کی کہانیوں کو مزید اشاراتی انداز میں پیش کیا جا سکتا تھا کیونکہ تارڑ سے زیادہ اس بات کا واقف کون ہو سکتا ہے کہ آرٹ زندگی کی مبہم تصویر ہوتا ہے۔ صاف شفاف فوٹو گراف نہیں۔
''آرٹ گیلری میں بیتھووں کی چاندنی رات ‘‘ ایک دلگداز کہانی ہے جس میں مصنف کا پرانا عکس اپنے کمال اور شباب پر نظر آتا ہے۔ شاعر حسین سحر نے کافی عرصہ پہلے کہا تھا کہ غزل ظفر اقبال کی انگلیوں پر ناچتی ہے۔ اگلے روز سلیم کوثر(کراچی) کہہ رہے تھے کہ آپ اسے جیسا بھی بنا دیں غزل آپ کے رحم و کرم پر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات تارڑ پر زیادہ صادق آتی ہے کیونکہ وہ کہانی کو جیسا چاہے بنا سکتا ہے جو اس کے رحم و کرم پر ہوتی اور اس کی انگلیوں پر ناچتی ہے۔ اس مجموعے کی آخری کہانی ''دھند کے پیچھے شہر تھا‘‘ جتنی طویل ہے‘ اتنی ہی صبر آزما بھی۔ پتھر چونکہ بھاری تھا‘ اس لیے میں نے اسے چوم کر چھوڑ دیا۔ امید ہے ان کہانیوں پر اس گفتگو کے حوالے سے آپ نے میرے ''علم و فضل‘‘ کا ٹھیک ٹھاک اندازہ لگا لیا ہو‘ آئندہ اپنی جہالت کو مزید واشگاف کرنے کی بجائے اس بے وقت کی راگنی کو یہیں ختم کرتا ہوں‘ اس دعا کے ساتھ کہ ہمارا محبوب کہانی کار اسی طرح تندرست و توانا رہے۔ ہمیں اپنے نت نئے شاہکاروں سے شاد کام کرتے ہوئے۔
آج کا مطلع
غم کا چرچا تو کرو‘ زخم کو رسوا تو کرو
کیا خبر راہ پہ آ جائیں‘ تقاضا تو کرو