تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-08-2015

پھندا

اس دنیا میں سب سے عجیب معاملہ مال و منال کا ہے۔ ہر شخص یہی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دولت کو اپنے جُوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ لاکھ کوشش کر دیکھیے، کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کا خواہش مند ہے‘ اور جب عمل کی کسوٹی پر پرکھیے تو وہ دولت کا بندہ نکلتا ہے! 
جو اپنے آپ کو دولت کا جس قدر غیر ضرورت مند ظاہر کرتا ہے وہ دولت کا اُسی قدر ضرورت مند، بلکہ لالچی نکلتا ہے۔ اگر دولت واقعی ضرورت ہے تو اِس ضرورت کا اعتراف یا اقرار کرلینے میں ہرج کیا ہے؟ دولت جب زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے تو اُسے پانے کی کوشش کرنے پر شرمندگی کیسی؟ یہ بھی دولت ہی کا ''کمال‘‘ ہے کہ وہ اپنے حصول کی کوشش کرنے والوں کو جُھوٹ بولنے پر مجبور کرتی ہے! غایت کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ ایک طرف تو لوگ دولت کے حصول کی خواہش اور کوشش سے انکار کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ طمع کے جال میں گرفتار نہیں۔ اور دوسری طرف اپنی کمائی ہوئی یا کسی نہ کسی طور حاصل کی ہوئی دولت کو وہ ضرورت مندوں سے محفوظ بھی رکھنا چاہتے ہیں! 
دولت کا لالچ انسان کو کیا سے کیا بنادیتا ہے اور کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے اِس حوالے سے خبریں آئے دن ہماری سماعت سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ بھارت سے خبر آئی ہے کہ ایک سرکاری افسر کے گھر پر چھاپا مارا گیا تو 24 کروڑ روپے برآمد ہوئے۔ کرپشن کے ذریعے بٹوری ہوئی یہ ''دھن راشی‘‘ اُس نے گدّوں، تکیوں، بوریوں، ڈبّوں اور الماریوں کے خانوں میں چھپا رکھی تھی۔ کسی نہ کسی طور گھر لائی ہوئی لکشمی کا ایک معتدبہ حصہ ریفریجریٹر میں بھی پایا گیا! 
جس دولت کی خاطر اِس سرکاری افسر نے اپنا کردار اور ایمان بیچ کر جو دولت بٹوری اُسی نے اُس کے دل و دماغ کو اِس قدر ماؤف کردیا کہ یہ حرام کی کمائی چُھپانے کے لیے اُسے سُوجھا بھی تو اپنا ہی گھر! کیا اُسے اندازہ نہیں تھا کہ ذرا سی بھنک پڑنے پر سی بی آئی اور دیگر متعلقہ محکموں کے اہلکار اُس کے گھر پر چھاپا مارنے میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے اور ساری مایا ضبط کرلیں گے؟ 
معاملہ یہ ہے کہ جو دولت کی ہوس رکھتا ہو وہ کسی پر بھروسہ کیوں کرے گا؟ اِس بات پر اُس کا ایمان نہیں رہتا کہ بہتر زندگی کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ پوری دیانت سے کوشش کرنے پر ملے گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ جس کے گھر سے 24 کروڑ روپے برآمد ہوئے اُسے تو بھگوان ہی پر بھروسہ نہیں تھا! اور جب بھگوان پر بھروسہ نہیں تھا تو کسی اور پر کیسے اور کیوں بھروسہ ہوتا؟ 
دولت کا معاملہ ہے ہی بہت عجیب۔ اِس کے نہ ہونے سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں مگر اِس کے ہونے سے قباحتیں نہ صرف بڑھ جاتی ہیں بلکہ انتہائی پیچیدہ شکل بھی اختیار کرلیتی ہیں۔ 
ہزاروں سال سے بہبودِ عامہ کے حوالے سے سوچنے والے بتاتے آئے ہیں کہ ضرورت سے بہت زیادہ دولت ہماری سکت سے کہیں زیادہ الجھنیں پیدا کرتی ہے۔ اس حوالے سے روشن مثالیں ہمارے ماحول میں ہر طرف بکھری پڑی ہیں مگر ہم ہیں کہ غور کرنے پر مائل ہی نہیں ہوتے۔ 
کسی بھی طور زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہر دور میں زندگی کا سب سے بڑا عمومی مقصد ٹھہرا ہے۔ اس معاملے میں آج کا زمانہ بھی استثنیٰ نہیں رکھتا۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر، کسی نہ کسی طور، زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر دولت حاصل ہوجائے تو سوچے سمجھے بغیر ہی خرچ کرتے ہیں۔ اس دو طرفہ عمل میں دانش یا حکمت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اور جس عمل میں دانش نظر نہ آتی ہو اُس کی کوکھ سے کسی بہتر اور مثبت نتیجے کے برآمد ہونے کی توقع رکھنا حماقت کے سِوا کیا کہلائے گا؟ 
جب ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی ہو کہ دولت سے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے یا یہ کہ دولت نہ ہو تو کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا تب ہر معاملہ دولت کے گرد گھومنے لگتا ہے۔ پھر اوروں کا بھلا یاد رہتا ہے نہ اپنی بہبود کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ صرف دولت کے حصول کی فکر لاحق رہتی ہو تو زندگی کے دامن میں صرف پریشانیاں اور الجھنیں رہ جاتی ہیں۔ 
اس میں کیا شک ہے کہ دولت ہو تو بہت سے بنیادی مسائل حل ہوجاتے ہیں؟ دولت بہت سی راحتوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ دولت ہی ہے جو ہمارے دل و دماغ کو سکون فراہم کرکے ہمیں زیادہ بامقصد اور بامعنی زندگی بسر کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ 
آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرے گا کہ اگر دولت کی مدد سے بہت سی راحتیں حاصل کی جاسکتی ہیں تو وہ ہمیں حاصل ہوتی دکھائی کیوں نہیں دیتیں۔ دولت اگر بہت کچھ خرید سکتی ہے تو خریدتی کیوں نہیں؟ عام مشاہدہ ہے کہ جیسے جیسے کسی کے پاس دولت آتی جاتی ہے، اُس کی پریشانیاں بڑھتی جاتی ہیں‘ یعنی دولت ناکام رہتی ہے۔ کیوں؟ 
اس پیچیدہ دکھائی دینے والے سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ دولت از خود نوٹس نہیں لے سکتی! وہ خود کوئی فیصلہ کرسکتی ہے نہ کسی فیصلے پر عمل کی سکت اُس میں پائی جاتی ہے۔ دولت کوئی بھی مثبت اور بار آور کردار اسی وقت ادا کرسکتی ہے جب اسے یہ کردار سونپا جائے۔ دولت کیا کرے گی اور کیا نہیں کرے گی اس کا مدار دولت حاصل اور خرچ کرنے والے کی سوچ پر ہے۔ دولت کے بارے میں جیسی سوچ ہم اپناتے ہیں ویسے ہی نتائج دولت کی کوکھ سے برآمد ہوتے ہیں۔ دولت کبھی ناکام نہیں رہتی۔ ناکامی دولت استعمال کرنے والوں کا مقدر بنتی ہے۔ 
اچھی خاصی دولت پاکر بھی بہت سے لوگ دکھی یا پریشان اس لیے رہتے ہیں کہ ان کا مقصد صرف دولت حاصل کرنا ہوتا ہے، اُسے عمدگی سے بروئے کار لانا نہیں۔ دولت کا محض حصول کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔ اصل سوال اس سے کماحقہ مستفید ہونے کا ہے۔ 
آپ کو اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو رات دن دولت کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور حاصل ہوجانے والی دولت کو دیکھ دیکھ کر یا گِن گِن کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ مگر یہ خوشی کتنے دن کی ہے؟ جب کمائی ہوئی یا حاصل کی ہوئی دولت بہتر منصوبہ بندی سے اور مثبت سوچ کے ساتھ خرچ نہ کی جائے تو زندگی وہیں کی وہیں پڑی رہتی ہے، ایک قدم آگے نہیں بڑھتی۔ اگر دولت کا محض حصول زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہو تو بہت کچھ ہاتھ آنے پر بھی کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ 
جس طور دولت خرچ نہ کرنے سے کوئی راحت نصیب نہیں ہوتی بالکل اُسی طور بے سوچے سمجھے بہت زیادہ دولت خرچ کرنے سے بھی کچھ ہاتھ نہیں آتا‘ اور حرام ذرائع سے حاصل کردہ دولت بہت زیادہ خرچ کئے جانے پر بھی زندگی کا معیار بلند نہیں کرتی۔ کرپٹ بھارتی افسر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ چاہتا تو گھر میں رکھے ہوئے کروڑوں روپوں سے بہت سے غریبوں کا بھلا کردیتا۔ نہ جانے کتنوں کو بہتر ذریعۂ معاش بخشتا۔ پتہ نہیں کتنے ہی نادار مریضوں کا علاج کرادیتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتا؟ حرام کی دولت ذہن کو کسی بھی مثبت بات کی طرف نہیں جانے دیتی! جس دولت کے لیے اس سرکاری افسر نے سب کچھ داؤ پر لگادیا اُس نے کچھ بھی نہ دیا۔ اب سزا بھگتنا ہوگی اور باقی زندگی اُس لکشمی کو یاد کرکے رونا مقدر ہے جو گھر لائے جانے پر بھی اپنی نہ ہوسکی! 
دولت کو حاصل کرنے سے پہلے اُس کے مجموعی طلسم کو سمجھنا لازم ہے۔ یہ مایا نگری اپنے مسافروں کو قدم قدم پر حیرت زدہ کرتی ہے۔ اِس طلسم کدے میں مُڑ کر دیکھنے والے پتھر کے ہوجایا کرتے ہیں! 
دولت اگر جائز طریقے سے بھی بڑے پیمانے پر اور قدرے آسانی سے آرہی ہو تو انسان کے ذہن میں یہ واہمہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ بہت عقل مند ہے! اور اگر حرام کے ذرائع سے بہت زیادہ دولت بٹورنے کا موقع مل رہا ہو تو انسان خود کو عقل مند سمجھنے کے ساتھ ساتھ باقی سب کو بے وقوف بھی سمجھتا ہے! یہ ہے دولت کا سب سے بڑا ''انسائڈ ایفیکٹ‘‘... سائڈ ایفیکٹ کا معاملہ پھر کبھی سہی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved