گو ہ کو عربی میں '' ضَبّ‘‘‘ اور انگریزی میں Lizard یا Iguana کہتے ہیں ، اگر چہ ڈکشنری میں لزرڈ کے معنیٰ چھپکلی کے بھی ہیں ۔ رسول اللہ ﷺکے دسترخوان پر گوہ لائی گئی ، آپ نے اپنی نفاستِ طبع کے سبب اسے تناول نہیں فرمایا ، لیکن اس سے منع بھی نہیں فرمایا۔ اس سے معلوم ہو ا کہ یہ جانور حرام نہیں ہے۔ آپ ﷺ سے گوہ کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا :'' میں اسے کھاتا بھی نہیں اور اسے حرام بھی قرار نہیں دیتا‘‘ (ترمذی :1790) اس حدیث کی شرح میں امام ترمذی نے لکھا ہے کہ بعض صحابۂ کرام نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔ گوہ کا ذکر تو ضمناً آ گیا ہے ، در اصل رسول اللہ ﷺکی ایک حدیث کی طرف آپ کو متوجہ کرنا مقصود ہے ، آپﷺ نے فرمایا :''تم ضرور پچھلی امتوںکے طریقوں کی( بعینہٖ )پیروی کروگے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گو ہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے ، تو تُم بھی ان کی پیروی کروگے۔ ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ ﷺ! آپ کی مراد یہودو نصاریٰ ہیں ، آپ ﷺنے فرمایا : اور کون؟‘‘ (صحیح بخاری : 7320) عربی زبان کا محاورہ ہے: فُلانٌ اَحْیَرُ مِنَ الضَّبِّیعنی فلاں شخص گو ہ سے بھی زیادہ حیرت میں ڈالنے والا ہے ‘‘۔ اہلِ عرب کے ہاں یہ معروف تھا کہ گوہ کے داخل ہونے والے سوراخ کا تو پتا چل جاتا ہے ، لیکن نکلنے والے سوراخ کا پتا نہیں چلتا ، لہذا اسے حیرت کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺکے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ جن فتنوں میں اہلِ کتاب مبتلا ہو ئے ، ان کے انجام سے باخبر ہونے کے باوجود تم ان فتنوں میں مبتلا ہو گے، کیونکہ انسان بالعموم تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتا،جب تک کہ وہ خود اس تجربے سے نہ گزرے۔ لیکن اس وقت اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے: ''اب پچھتائے کیا ہووت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ‘‘ ۔ یہ پس منظر میں نے اس لیے بیان کیا کہ پارلیمنٹ سے استعفوں کا آپشن پاکستان تحریک ِ انصاف پہلے استعمال کر چکی تھی اور اس کے نتیجے میں ان کے ہاتھ ندامت کے سوا کچھ نہ آیا۔ سب جماعتوں نے اس کا خوب لطف اُٹھایا۔ ان لطف اندوز ہونے والی جماعتوں میں متحدہ قومی موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام سر فہرست ہیں۔ اس کے باوجود ایم کیو ایم نے پارلیمنٹ کے سب ایوانوں سے مستعفی ہونے کا آپشن استعمال کر نا ضروری سمجھا ۔ اگر چہ ایم کیو ایم کے ارکانِ پارلیمنٹ کے استعفے جمع ہونے کے بعد ایک گھنٹے کے اندر ہی ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین بعض پرائیوٹ ٹیلی ویژن چینلز پر یکے بعد دیگرے آئے اور یہ عندیہ دیا کہ وہ استعفے واپس لے سکتے ہیں ۔ اسی طرح استعفے جمع کرانے کے بعد قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر جناب ڈاکٹر فاروق عبدالستار نے بھی میڈیا کے سامنے آکر کہا کہ ہم نے استعفے بطور احتجاج دیے ہیں، اس بیان میں بھی استعفوں کی واپسی کا اشارہ موجود تھا ۔
پیر کی صبح ٹیلی ویژن پر جناب الطاف حسین کے نام سے ٹکر چلتا ہوا دیکھا کہ استعفے ''مائنس الطاف حسین‘‘ کاجواب ہے ، یعنی یہ ثابت ہو گیا کہ ایم کیو ایم پر اُن کا کنٹرول اب بھی قائم ہے اور کسی کو سرِ مُو انحراف کی گنجائش نہیں ہے، اگر کسی کوخوش فہمی تھی تو اب اس کا ازالہ ہو جانا چاہیے ۔ جناب الطاف حسین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اہل کراچی میں سے کوئی بھی ایسی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں تھا ، یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے ، البتہ یہ ضرور ہے کہ بعض حلقوں کے نزدیک یہ پسندیدہ امر نہیں ہے ۔ شاید ایم کیوایم کے اراکینِ پارلیمنٹ کے لیے اس آپشن پر عمل کرنا نسبتاً آسان تھا ، کیونکہ اس کے جواز کے لیے وہ لمبی چوڑی تاویلات اور توجیہات بیان کرسکتے ہیں اور اس پر انہیں کوئی ندامت بھی محسوس نہیں ہوتی، جبکہ اس کے بر عکس اپنے قائدِ محترم کے بعض بیانات کی توجیہات و تاویلات کرتے ہوئے ان کے چہروں کے تاثرات اور بدن بولی کو سمجھنا کسی کے لیے دشوار نہیں۔
یہ تو طے ہے کہ استعفے واپس ہو جائیں گے ، اس سودے بازی میں ایم کیو ایم کو کچھ حاصل ہو گا یا نہیں یا کس قدر حاصل ہو گا ، یہ وقت بتائے گا ۔ سرِ دست مولانا فضل الرحمن کی سفارت کاری ، ذومعنی الفاظ کے چناؤ ، آئین کے حوالہ جات اور''پہلے تولو پھر بولو ‘‘ کے اندازِ تکلُّم کا لطف اٹھائیں۔ بہتر ہو گا کہ ہمارے سیاسی رہنما ان سے متانت ، ٹھہراؤ ، مغلوب الغضب نہ ہونے اور عدمِ جذباتیت کا سبق حاصل کریں ، اسی میں سب کا بھلا ہے ۔ اپنے مفاد سے غرض رکھنی چاہیے ، نہ کہ دوسروں کے الزامات و اِتّہامات سے بے دل ہو کر اپنا نقصان کیا جائے ۔
اسی طرح ایک بات سب کو ذہن نشین کرنی چاہیے کہ اعلیٰ صنعتی و کاروباری طبقے سے لے کر ایک عام مزدور تک سب کو امن کی ضرورت ہے اور جو بھی امن قائم کرے گا ، وہ اسے دل سے چاہیں گے ۔ ملک مزید بے امنی ، فساد ، قتل و غارت اور لا قانونیت کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ نیشنل ایکشن پلان اور اکیسویں آئینی ترمیم میں اس پر قومی اتفاقِ رائے قائم ہو چکا ہے ، اس مقدس مشن کا پر چم مسلح افواج کی قیاد ت نے اٹھا لیا ہے اور اب واپسی کا راستہ نہیں ہے ۔ سب پر لازم ہے کہ اپنی چھوٹی موٹی شکایات کے ازالے کی تدبیر کرنے کے ساتھ ساتھ اس قومی مہم کو کامیاب انجام تک پہنچائیں۔ دل وجان سے اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ کراچی کی صنعتی ، اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کے رواں دواں رہنے کے لیے امن خشتِ اول ہے اور اس کے بغیر اس گوہرِ مقصود کا حاصل ہونا دشوار ہے ۔ کراچی کے حالات کی وجہ سے بہت سے صنعت کار و تاجر یا تو ملک سے باہر جا چکے ہیں یا پنجاب کا رخ کر چکے ہیں۔ میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو لاہور میں رہائش اختیار کرتے اوراپنا کاروبارجماتے ہوئے خود دیکھا ہے اور ظاہر ہے کہ کراچی کا کوئی شہری خوشی سے کراچی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہو تا ۔ میں نے لاہور کی ایک گلی میں اہلِ کراچی کے جفت سازی کے چھوٹے چھوٹے یونٹ خود دیکھے اور مجھے بتایا گیا کہ یہاں سے اربوں روپے کا مال افغانستان برآمد ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ مجبوراًکراچی چھوڑ کر گئے۔ اس سے سرمایہ بھی وہاں منتقل ہوا اور روز گا ر کے مواقع بھی اہلِ کراچی کے ہاتھ سے گئے ۔ ہمارے ہاں ایک بر سرِ روز گا ر شخص ایک خاندان کا کفیل ہوتا ہے اور ایک باروز گار شخص کا روزگار سے محروم ہونا ایک خاندان کے محتاج ہونے کے مترادف ہے ۔
امن و امان کی قیمت ادا کرنا بلاشبہ کڑوی گولی ہے ، لیکن اسے نگل لینے ہی میں ہمارے اجتماعی زندگی کی بقا ہے۔ ہر ایک کی خواہش ہے کہ قیامِ امن کے حوالے سے تمام کارروائیاں شفاف اور غیر جانبدا رہونی چاہئیں‘ لیکن اس کی باگ ڈور کسی کے بھی ہاتھ میں ہو اور بالفرض نیت بھی سو فیصد درست ہو ، تب بھی بشری خطا کا امکان باقی رہتا ہے اور اس کے ازالے کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے ۔یہ بھی ہمارے دینی ، ملی اور قومی مفاد میں ہے کہ اب سیاست اور مذہب دونوں کو جرم اور تشدد سے پاک ہونا چاہیے، Soft Politics اور پُرامن مذہبی ماحول ہی ہمارے قومی ایجنڈے کا نقطہ ٔ آغاز اور اوّلین ترجیح ہونی چاہیے ۔
یہ مقولہ ''بد اچھا بدنام برا‘‘ اردو زبان میں بے مقصد رائج نہیں ہوا ، اس کے پیچھے اہلِ فکر و نظر کا صدیوں کا تجربہ ہے ۔ لہٰذا اگر متحدہ قومی موومنٹ کو پاکستان کی قومی سیاست میں بڑے پیمانے پر نفوذ کرنا ہے ، توزرِ کثیر خرچ کرکے لاہور یا کسی اور مقام پر کانفرنسیں منعقد کرنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لیے مثبت اقدامات کر کے اور اپنے رویے اور طرزِ گفتار میں اصلاح کر کے بدنامی کے داغ کو دھونا پڑے گا ۔ اپنی محدودیت سے نکل کر قومی سطح پر آنا ہوگا ، یہ مقصد تصنُّع اور نمائشی اقدامات سے نہیں بلکہ رویّوں میں حقیقی تبدیلی سے حاصل ہوگا ۔ 1970ء کے قومی انتخابات کو آج تک سب سے شفاف انتخابات قرار دیا جاتا ہے ۔ ان میں جناب ذوالفقار بھٹو کو اپنے آبائی صوبے سندھ میں ایسی ہمہ گیر فتح، جسے ہماری سیاسی اصطلاح میں Landslide Victory کہا جاتا ہے ،حاصل نہیں ہوئی تھی جیسی کہ صوبۂ پنجاب میں ملی۔ اس میں یہ پیغام مضمر ہے کہ اہلِ پاکستان کے دل پیغامِ محبت کے لیے کھلے رہتے ہیں، عصبیت کے غلافوں میں ملفوف (Wrapped)نہیں رہتے ، کوئی آ کر پیار و محبت کی زبان میں ان کے دلوں پر دستک دے کرتو دیکھے ۔