تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     23-08-2015

کیا لاحاصل اعتماد‘ مجروح ہو گیا

یقینی طور پر کشمیر کے مجاہدین کو پاکستان کی طرف سے کوئی اچھا پیغام نہیں ملا ہو گا‘ اسی لئے ان میں وہ جوش و جذبہ دکھائی نہیں دیا‘ جو ان کے جذبہ حریت کا نشان ہوتا ہے۔ وہ 68 سالوں سے بھارت کے ظلم و جبر کو برداشت کرتے آئے مگر ان کے جذبہ آزادی کی تمازت میں کبھی کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ ان پر کیسے کیسے ستم نہیں ڈھائے گئے؟ مگر ان کے دلوں میں آزادی کی شمع ہمیشہ فروزاں رہی۔ پاکستان میں کئی کمزور دل حکمران ایسے بھی آئے‘ جنہوں نے بھارت کے آگے چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھی مگر وہ ستم کی سیاہ راتوں میں بھی آزادی کے خواب دیکھتے رہے اور ظلم و تشدد سے بھرے روز و شب میں سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے‘ آزادی کے خواب کو اپنے ہی خون سے سینچتے رہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے کبھی ان کی ٹھوس حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اور نہ ہی اتنا حوصلہ دیا گیا کہ ان کے پاکستانی بھائی‘ جنگ آزادی میں کامیابی کی طرف بڑھنے میں ان کی عملی مدد کرتے۔ پاکستان کے نااہل اور خود غرض حکمرانوں نے جب بھی انہیں اسلحہ یا مدد دی‘ تو کبھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔ ہمارے حکمرانوں نے جب بھی مسلح پاکستانیوں کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کیا‘ ان کی منصوبہ بندی اتنی ناقص اور تیاری انتہائی بھونڈی تھی کہ ایک موقعے پر نیم تربیت یافتہ پاکستانیوں کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کیا تو وہ قابض بھارتی فوجیوں کے ہتھے چڑھ گئے اور انہیں جیلوں اور گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے حکمرانوں کی ''مہربانی‘‘ پہلے کے ستائے ہوئے مظلوم کشمیریوں پر مزید ظلم و ستم کا باعث بنی۔
1965ء میں باقاعدہ فوجی کارروائی کی گئی تو ہماری بہادر فوج نے اس تیز رفتاری سے پیش قدمی کی کہ بھارتیوں کے ہوش اڑ گئے اور بھارت کی طرف سے جوابی حملے کے ڈر سے‘ فوجی کارروائی کو منزل سے پہلے ہی روک دیا گیا حالانکہ کشمیر کو بھارت سے ملانے والا واحد راستہ تھوڑی دور رہ گیا تھا۔ ہم ابھی کچھ بھی نہیں کر پائے تھے کہ بھارت نے لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر جنگ چھیڑ دی اور ہمارے حکمرانوں نے گھبرا کر اپنے روایتی سرپرست امریکہ سے مدد کی درخواست کی۔ امریکہ نے مہربانی فرماتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کرادی اور ہمیں بھارت کے دوست سوویت یونین کے پاس بھیج دیا کہ وہاں جا کر فوجی کارروائیاں بند کرنے کا معاہدہ کر لو۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہم تنازع کشمیر میں اپنے بنیادی موقف سے دستبردار ہوئے۔ معاہدہ تاشقند پر دستخط کر دیے گئے اور پہلی مرتبہ یہ طے پایا کہ دونوں ملک‘ تنازع کشمیر باہمی مذاکرات سے طے کریں گے۔ یوں ہم نے اقوام متحدہ کو ان ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا‘ جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نتیجے میں اس کے سپرد ہوئی تھیں۔ ظاہر ہے جب کوئی فریق میدان جنگ میں برتری ثابت نہ کر سکے تو اسے مسلسل دبائو میں رہنا پڑتا ہے۔ یہی دبائو ہم پر آیا۔ ہم محض مطالبات کرتے رہے اور بھارت نے مشرقی پاکستان میں اندر ہی اندر‘ اپنی سیاسی جڑیں پھیلا دیں۔ دوسری طرف فوجی حکمرانی کے طویل دور میں پاکستان کی وہ سیاسی قیادت‘ جس نے قائد اعظمؒ کی رہنمائی میں آزادی حاصل کی تھی‘ وہ ابھی دستور سازی سے فارغ ہی ہوئی تھی کہ ایوب خان نے تمام سیاسی ادارے اور آئین سب کچھ توڑ کے مارشل لا مسلط کر دیا۔ مشرقی پاکستانی جو اکثریت میں تھے‘ انہیں عملاً مغربی پا کستان کی کالونی بنا کر رکھ دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت پوری طرح مایوس ہو گئی اور اس نے چھ نکات کے تحت‘ کنفیڈریشن کے آئینی انتظام کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کی کوشش کی‘ لیکن ہمارے فوجی حکمرانوں نے عزت و آبرو کے ساتھ‘ پاکستان کو بچانے کا آخری موقع بھی گنوا دیا اور بھارت میں فوج کشی کر کے‘ اپنے ہی عوا م کے اندر گھری ہوئی فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔
اس جنگ کے نتیجے میں ہم نے مشرقی پاکستان تو گنوایا ہی تھا‘ تنازع کشمیر سے بھی اقوام متحدہ کو لاتعلق کر دیا جس کی وجہ سے ہم عالمی برادری کی مدد لے کر کشمیریوں کو ان کے حقوق دلوا سکتے تھے۔ 1971ء کی جنگ کے بعد ہم نے شملہ معاہدہ کیا‘ اس میں پابند ہو گئے کہ بھارت کے ساتھ باہمی تنازعات میں کسی تیسری قوت یا تنظیم کو مداخلت کا حق نہیں دیں گے اور باہمی معاملات خود طے کریں گے۔ تاشقند کے بعد یہ دوسرا موقع تھا‘ جب ہم نے تنازع کشمیر سے عالمی برادری کو بے دخل کر کے‘ مظلوم کشمیریوں کو تنہا چھوڑ دیا۔ 65ء اور 71ء کی شکستوں کے بعد بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام نے آزادی کی جدوجہد جاری رکھی۔ خون بہاتے رہے‘ اپنے سر کٹواتے رہے‘ گھر جلواتے رہے لیکن قابض بھارتی فوج کو اپنے وطن پر جابرانہ قبضہ مستحکم کرنے کا موقع نہیں دیا۔ بھارت نے ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا۔ کشمیر کی سیاسی قیادت نے بعض لوگوں کو اپنا پٹھو بنا کر نام نہاد جمہوری حکومتیں قائم کرنے کی کوششیں کیں مگر آفرین ہے کشمیر کے مجاہدین آزادی پر کہ انہوں نے اسلحہ اور طاقت کے بل بوتے پر بھارتیوں کو اپنے وطن پر تسلط قائم کرنے کا کوئی موقع نہ دیا اور جتنے بھی انتخابی ڈرامے کیے گئے‘ سب کو بری طرح سے ناکام بنایا۔ 1999ء تک پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں عالمی برادری کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت میں منظم ہونے لگی اور خود بھارت کے عوام بھی یہ محسوس کرنے لگے کہ کشمیریوں کو ظلم و جبر کی طاقت سے ہم غلام بنا کر نہیں رکھ سکیں گے۔ ساری دنیا میں کشمیریوں کی مظلومیت کو دیکھ کر ہمدردی کے جذبات غالب آنے لگے۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنی حاشیہ بردار ایک سیاسی جماعت کی مدد سے‘ مقبوضہ کشمیر میں مسلح مداخلت کار بھیجنا شروع کر دیے۔ انہوں نے شہری آبادی پر اس بری طرح سے حملے کیے کہ عالمی رائے عامہ کی ہمدردیاں پُرامن شہریوں کے ساتھ ہو گئیں اور ان مداخلت کاروں کی وجہ سے آزادی کے حقیقی مجاہدین کے خلاف بھی جذبات ابھر آئے۔ بھارتی میڈیا‘ جو مظلوم کشمیریوں کے حق میں ہو چکا تھا‘ کا رویہ بھی ایک دم بدل گیا۔ پاکستان اور آزادی کی حقیقی جدوجہد کرنے والے مجاہدین پر تشدد اور خون خواری کی تہمت لگ گئی‘ کارگل کے محاذ پر احمقانہ فوج کشی کے ذریعے جنگ کا ماحول پیدا کر دیا گیا اور اس وقت کی فوجی قیادت نے خوشامدیں کر کے اپنے وزیر اعظم کو مجبور کیا کہ وہ امریکہ کی مدد لے کر بھارت کو جنگ سے روکیں‘ ورنہ نتائج ہمارے حق میں انتہائی تباہ کن ہوں گے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف فوراً ہی امریکہ روانہ ہو گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے پاکستان کی جمہوری طاقتوں کی ضمانت دے کر بھارت کے نرغے میں آئے ہوئے فوجیوں کو واپس آنے کا راستہ لے کر دیا اور اس طرح دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کا بڑھتا ہوا خطرہ ٹل گیا۔ یہ آخری موقع تھا جب پُرامن کشمیری عوام پر بھارتی فوج کا شکنجہ مضبوط کر دیا گیا اور پاکستان پر جارحیت پسندی کا لیبل لگا کے ہم پر حصول انصاف کے سارے دروازے بند کر دیے گئے۔ کشمیر کے مظلوم عوام نے ہر حال میں شمع آزادی کو روشن رکھا۔ متعصب ہندو پارٹی بی جے پی بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو کر اقتدار میں آ گئی اور اس کی مسلم دشمن قیادت نے بھارت کے اندر‘ فیصلہ کن فتح کے نشے میں سرشار ہو کر‘ ساری طاقت اور وسائل مقبوضہ کشمیر میں جھونک دیے کہ انتخابات میں فیصلہ کن فتح حاصل کی جائے لیکن وادی کشمیر کے عوام نے تمام تر مایوسیوں کے باوجود‘ بی جے پی کو انتخابات کے ذریعے مقبوضہ کشمیر پر مسلط ہونے کی اجازت نہیں دی اور اسے مجبور کر دیا کہ وہ ایک آزادی پسند جماعت کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائے۔ ہمارے انتہا پسند مفتی سعید کو بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے پر تنقید کرنے لگے‘ لیکن کشمیریوں کی اکثریت نے اپنے حقوق خود لینے کا فیصلہ کر کے بھارتی نظام کے اندر ہی اپنی آزادی کی 
راہیں تلاش کرنا شروع کر دیں۔ اس کے باوجود آزادی کے دیوانے پاکستان سے امیدیں لگائے رہے۔ وہ ہر طرح کے حالات میں پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔ پاکستانی حکمران‘ غلطی پہ غلطی کرتے رہے لیکن آزادی پسند کشمیری قیادت‘ ہر حال میں پُرامید رہی مگر ان کی رہی سہی امیدیں اس وقت ماند پڑ گئیں جب پاکستان نے اوفا کے مشترکہ اعلامیے میں‘ کشمیر کا ذکر غائب کر کے‘ ان کے اوسان خطا کر دیے گئے۔ پاکستانی حکمرانوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کا حق ادا کرنے کی نہ تو صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی نیت۔ اوفا کے اعلان کے بعد‘ انہوں نے سکیورٹی مذاکرات شروع کرنے سے پہلے‘ حسب روایت کشمیریوں کے ساتھ ملاقات کا انتظام کیا‘ لیکن حریت پسند کشمیریوں کا اعتماد مجروح ہو چکا تھا۔ ادھر پاکستانی حکمران دکھاوے کی ضد کر رہے تھے کہ وہ کشمیریوں کو مذاکرات میں شریک کریں گے یا ان کے لئے کانفرنس روم میں ایک کرسی رکھوا دیں گے لیکن اب مظلوم اور بہادر کشمیری قوم نے پاکستان پر مزید اعتماد کرنے سے گریز شروع کر دیا۔ ادھر پاکستان کے حکمران کشمیریوں سے ہمدردی کا بھرم رکھنے کی خاطر مذاکرات سے پہلے کشمیری قیادت سے ملاقات کی کوشش میں تھے۔ ادھر کشمیری قیادت کی دلچسپی ختم ہونے لگی تھی۔ کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک نے کوئی وجہ بتائے بغیر نئی دہلی میں پاکستانی وفد کے ساتھ مجوزہ ملاقات سے گریز کیا۔ حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی خود دہلی جا رہے تھے‘ لیکن انہوں نے 23 اگست کے بجائے 24 اگست کو ملاقات کا وقت رکھا۔ اس تاخیر کا مطلب صاف ظاہر تھا کہ سرتاج عزیز کی بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے ایک دن بعد‘ علی گیلانی ہمارے مشیر خارجہ سے ملاقات کریں گے۔ میر واعظ عمر فاروق بھی اتوار کو دہلی جائیں گے لیکن ان کو جو ملاقات کا وقت دیا گیا ہے‘ وہ پاکستانی اور بھارتی وفود کے مذاکرات ختم ہونے کے بعد کا ہے۔ کشمیر کی حریت پسند قیادت‘ اس بے نتیجہ معمول سے کافی بددل ہو چکی ہے اور اس میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ پاکستانی محض دکھاوے کے لئے بھارت کے ساتھ مذاکرات سے پہلے ان کے ساتھ نام نہاد مشاورت کر لیتے ہیں مگر اس کا مطلب کچھ نہیں ہوتا۔ کشمیریوں کا جذبہ آزادی اور ہمت و حوصلہ دیکھ کر یقین برقرار رہتا ہے کہ انشاء اللہ وہ ایک نہ ایک دن آزادی حاصل کر کے رہیں گے‘ مگر پاکستانی حکمرانوں اور یہاں کی مفاد پرست سیاسی جماعتوں سے ان کی امیدیں ماند پڑ گئی ہیں۔ ان کی امیدوں کا آخری مرکز پاک فوج ہے۔ وہ اپنی صبح آزادی کو پاکستانی عوام اور فوج کی حمایت اور اپنے جذبہ قربانی کو جدوجہد آزادی کا ذریعہ بنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ حالات کو مظلوم کشمیریوں کے حق میں ضرور ہموار کرے گا اور شاید پاکستانی حکمرانوں کی نام نہاد ہمدردی کے فریب سے نکل کر‘ انہیں عالمی رائے عامہ کی حمایت اور محب وطن پاکستانیوں کی مدد سے‘ آزادی کی منزل کی طرف اپنی قوت بازو سے پیش قدمی کریں گے۔ ہمت مرداں‘ مدد خدا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved