تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-08-2015

ناقابلِ فہم

مگر وہ جو اللہ کی کتاب کہتی ہے: اگر میں نہ چاہوں تو تم چاہ بھی نہیں سکتے۔ اٹل ہے‘ تقدیر اٹل ہے۔ 
ایم کیو ایم کے فیصلے نے مجھے حیرت زدہ کر دیا کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی ہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بھی وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ حکومت سے اب وہ مذاکرات بھی نہیں کریں گے۔ یہ ایک ناقابل فہم بات ہے۔ اوّل انہوں نے اشارہ دیا کہ وہ استعفے واپس لینے پر آمادہ ہیں اور پھر بھڑک اٹھے۔ کون؟ رابطہ کمیٹی کے ارکان نہیں بلکہ الطاف حسین۔ کمیٹی کے ارکان نامزد ہیں۔ ایک ممتاز سابق فوجی افسر سے کہا گیا کہ فلاں آدمی کو معاف کر دے۔ اس نے کہا: کر دوں مگر میرے ماتحت نہیں مانتے۔ مشورہ دینے والے نے حیرت کا اظہار کیا اور یہ کہا: فوج میں ماتحت اختلاف کیسے کر سکتے ہیں؟ 2007ء میں میاں محمد نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ غداروں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ الیکشن قریب آیا تو جنرل پرویز مشرف کے وزیر داخلہ سمیت‘ قاف لیگ کے ہر اس شخص کو قبول کر لیا‘ جو انہیں سازگار تھا۔ کیا پارٹی کے اندر سے اختلاف کی کوئی آواز اٹھی؟ 
ایم کیو ایم پر الطاف حسین کی گرفت اس سے کہیں زیادہ ہے‘ کارکن نعرہ لگایا کرتے ہیں کہ ''منزل نہیں ہمیں قائد چاہیے‘‘۔ ''جو قائد کا غدار ہے‘ وہ موت کا حق دار ہے‘‘۔ اپنی مقبولیت جانچنے کے لیے‘ بار بار پارٹی کی قیادت سے وہ مستعفی ہوتے ہیں۔ ایک کہرام مچتا ہے اور وہ لوٹ آتے ہیں۔ عہدیداروں کو وہ بدل ڈالتے ہیں‘ ان کی مذمت اور سرزنش کرتے ہیں‘ مگر مجال ہے کہ کھلے عام کوئی احتجاج کرے۔ پوٹھوہار کے نادر روزگار شاعر میاں محمد بخش نے کہا تھا:
لِسّے دا کی زور محمدؐ، رونا یا نس جانا 
کمزور کی کیا ہستی‘ رو دے گا‘ یا بھاگ جائے گا۔ 
الطاف حسین بائی پولر کے مریض ہیں۔ یہ خیال و خواب کی جنتیں آباد کر دینے والے شیزوفرینیا سے آگے کی چیز ہے۔ اس میں بھی ہوتا یہی ہے کہ مفروضے آدمی قائم کرتا ہے اور ان پر اسے یقین ہوتا ہے۔ زندگی کے حقائق اور قدرت کے قوانین کو نظرانداز کر کے‘ آدمی اپنی مرضی کا جہان تعمیر کرتا ہے۔ شیزوفرینیا سے بڑھ کر اس میں ایک اور سنگین مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ اپنے آپ پر آدمی کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ یہ خود فریبی کی آخری شکل ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں الطاف حسین نے جو تقاریر کیں‘ وہ اسی کی مظہر ہیں۔ مثلاً کارکنوں کو روزانہ ایک گھنٹہ کلفٹن میں فائرنگ کی مشق کرنے کا مشورہ۔ کیا وہ فوج سے لڑیں گے؟ اس سے بھی پہلے سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکن کیا فوج سے لڑنا چاہتے ہیں؟ ان جنرلوں سے‘ جن سے مل کر الطاف حسین انقلاب برپا کرنے کے آرزو مند تھے۔ ان کے خلاف بپھرے اور یہ کہا: ہم دیکھیں گے کہ ظالم کا خون بہتا ہے یا مظلوم کا۔ یہ بھی فرمایا کہ ان کے بلّے اور بیج باقی نہ رہیں گے۔ یہی نہیں‘ بھارت‘ نیٹو اور اقوام متحدہ کو مداخلت کی دعوت دی۔ اس سے بہت پہلے دہلی میں کھڑے ہو کر وہ یہ کہہ چکے تھے کہ پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ طبی سائنس کے ماہرین بتا سکتے ہیں کہ کیا بائی پولر میں خود پسندی اپنے معراج کو پہنچتی ہے؟ کیا خوش فہمی بادل کی طرح چھا جاتی ہے کہ سورج بھی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے۔ 
الطاف حسین کی ان تقاریر نے ایم کیو ایم کو پست کر دیا۔ ایک طرح سے وہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اسی لیے ہر بار وضاحت کرتے ہیں اور بعض اوقات تو معافی بھی مانگتے ہیں۔ قرآن مجید ایک بڑھیا کی مثال دیتا ہے‘ جس نے سوت کاتا اور پھر خود ہی اسے ادھیڑ دیا۔ بڑھیا کیوں؟ ارزلِ عمر کہ جس میں عواقب و نتائج کی پروا نہیں رہتی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں انگریزی محاورہ یہ ہے: He is a gone care۔ وہ آدمی‘ جس کے باب میں امید کا کوئی جواز اور امکان باقی نہیں بچتا۔ 
وزیر اعظم نواز شریف اور باقی سیاسی پارٹیاں نظام کو برقرار رکھنے کی خواہش مند ہیں۔ ایک گمان یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے بعد اگر پیپلز پارٹی یا موقع سے فائدہ اٹھا کر تحریک انصاف مستعفی ہو جائیں تو از سر نو الیکشن کرانا ہوں گے۔ ممکن ہے کہ ہنگامہ بڑھ جائے اور الیکشن ہو نہ سکیں۔ میرا نہیں خیال کہ پیپلز پارٹی استعفے دینے پر غور کرے گی۔ رہی تحریک انصاف‘ اگر اس نے ایم کیو ایم کی تقلید کی تو رائے عامہ اسے مسترد کر دے گی۔ اس مشکل مرحلے میں اپوزیشن کو میاں صاحب کی مدد کرنی چاہیے۔ موصوف بہرحال وسوسوں میں مبتلا ہیں۔ ان کا بس چلے تو استعفے شاید قبول کر لیں مگر وہ خطرہ مول لینے پر آمادہ نہیں۔ کہا: بزدل کا سفینہ کنارے پر ڈوبتا ہے۔ 
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں‘ توڑ دیتا ہوں 
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے 
استعفے قبول کر لیے گئے تو آخری نتیجہ کیا ہو گا؟ الیکشن ہوں گے۔ سینیٹ میں تو ایم کیو ایم کا وجود ہی مٹ جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی نشستوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ رہی صوبائی اور قومی اسمبلی تو ظاہر ہے کہ ایم کیو ایم کا بائیکاٹ کرے گی۔ اس کی سیٹیں تحریک انصاف جیتے گی مگر میرا خیال ہے کہ کئی ایک نون لیگ بھی۔ فائدے میں وہ پارٹی رہے گی جو جماعت اسلامی سے انتخابی معاہدہ کر سکے۔ بدلے میں اسے بھی کچھ نشستیں دینا ہوں گی۔ جماعت اسلامی کے لیے ہمیشہ یہ ایک پل صراط ہوتا ہے۔ ہمیشہ وہ زیادہ حصہ طلب کرتی ہے‘ جیسا کہ 2013ء کے الیکشن میں ہوا۔ بہرحال تنہا بھی لڑے تو تین چار سیٹیں لے مرے گی۔ ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی بھی‘ خواہ اپنے سات سالہ کارناموں کے طفیل سب سے پیچھے رہ جائے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نون لیگ توقع سے بڑھ کر کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے نالاں معتدل مزاج ووٹروں کی وہ اکثریت‘ جو باہم دست و گریبان رہنے والی پی ٹی آئی سے ناخوش ہو‘ نواز شریف کی تائید کر سکتی ہے۔ بحیثیت مجموعی کراچی میں ان کا کردار بہرحال مثبت ہے۔
نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور یہ کوئی ایسا بھی مشکل نہیں۔ اس اقدام سے ایم کیو ایم کو مستقل نقصان پہنچے گا۔ اگر پنجابی‘ پٹھان‘ بلوچ اور سندھی ووٹروں کو متحرک کر لیا گیا‘ مہاجر ووٹ اگر بٹ گئے اور لازماً بٹیں گے تو شہری سیاست یکسر ہی بدل جائے گی۔ ظاہر ہے کہ ایم کیو ایم چند ماہ بعد کے بلدیاتی الیکشن میں حصہ نہ لے سکے گی۔ مشرف عہد کے بعد پہلے بلدیاتی الیکشن کی طرح‘ جس میں وہ خود کو ایم کیو ایم سے دور رکھنے کے خواہش مند تھے کہ فوج کی نظروں میں سرخرو رہیں۔ بلدیاتی الیکشن ایم کیو ایم کا اصل میدان ہے‘ جس میں آسانی کے ساتھ اسے ہرایا نہیں جا سکتا۔ اگر یہ میدان اس نے خالی کر دیا تو شاید اپنی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کرے گی؛ اگرچہ اس کی ابتدا ہو ہی چکی۔ روٹھنے والوں کو منایا جاتا ہے‘ اگر ان کی ضرورت ہو۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوا کرتی ہے۔ تھوڑی سی اس سے زیادہ بھی ادا کی جا سکتی ہے‘ مگر بہت زیادہ نہیں۔ راولپنڈی جیل سے صاحبزادی بے نظیر کے نام‘ آخری خط میں بھٹو نے لکھا تھا: سیاست دان کو خود ترحمی کا شکار نہ ہونا چاہیے۔ 
برصغیر میں بائیکاٹ کا حربہ ہمیشہ ناکام رہا۔ 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن کا ایم آر ڈی نے مقاطعہ کیا اور پچھتائی۔ کراچی کے بلدیاتی الیکشن سے الگ رہ کر ایم کیو ایم پریشان رہی۔ انتہا یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں‘ جہاں مسلم اکثریت بھارت سے نفرت کرتی ہے‘ الیکشن کے بائیکاٹ کی مہم شاذ ہی کامیاب رہی۔ اپنے روزمرہ مسائل کے لیے عام لوگوں کو مدد اور سرپرستی درکار ہوتی ہے۔ گمان اب بھی یہی ہے کہ الطاف حسین فقط حریفوں کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
خوف ایک حربہ ہے‘ جو کبھی کبھی استعمال کیا جاتا ہے‘ بہت اچھی طرح سوچ سمجھ کر۔ وہ والدین احمق ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو دائم خوف زدہ کرتے رہیں۔ وہ لیڈر اور ریاستیں بھی۔ مگر وہ جو اللہ کی کتاب کہتی ہے: اگر میں نہ چاہوں تو تم چاہ بھی نہیں سکتے۔ اٹل ہے‘ تقدیر اٹل ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved