تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     23-08-2015

سرخیاں‘ متن اور اقتدار جاوید کی نظمیں

''ملک میں لیڈی پالیٹکس اُبھر 
رہی ہے... آصف علی زرداری 
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ملک میں لیڈی پالیٹکس اُبھر رہی ہے‘‘ حالانکہ یہ ایک مردانہ کام ہے اور پوری مردانگی سے کیا جاتا ہے جیسا کہ ہم نے اپنے پانچ سالہ دور میں کر دکھایا ہے کہ ڈنکے کی چوٹ پر دونوں ہاتھوں سے عوام کی خدمت کی حتیٰ کہ جب ہاتھ تھک جاتے تھے تو دونوں پائوں اس کام میں لگ جاتے تھے البتہ دونوں کان اور آنکھیں بند رکھتے تھے تاکہ خدمت سے متاثرہ عوام کا واویلا نہ سن سکیں اور نہ خدمت کے بعد ہو جانے والی اُن کی حالت دیکھ سکیں کہ ویسے بھی نیکی کا کام اندھا دُھند یعنی آنکھیں بند کر کے ہی کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''بعض لوگوں کو سیاست نہیں آتی‘‘ جس کا پہلا سبق ہی یہ ہے کہ اکیلے مت کھائو بلکہ مخالفین کو بھی پورا پورا موقعہ دو تاکہ اخوت اور بھائی چارے میں اضافہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ''مسٹر عمران بھی وزیراعظم ہونے کے امیدوار ہیں‘‘ مگر وہ ہمارے دونوں میں سے ایک بھی وزیراعظم کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘ چنانچہ ان بزرگوں سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں ایک نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں گفتگو کر رہے تھے۔ 
بھارت ہمیشہ مذاکرات کی گیند لے کر 
بھاگ جاتا ہے... پرویز رشید 
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''بھارت ہمیشہ مذاکرات کی گیند لے کر بھاگ جاتا ہے‘‘ جبکہ ہم گیندیں بنا بنا کر تھک چکے ہیں اور اسحق ڈار صاحب کو ہدایت کر رکھی ہے کہ پیسے بنانا بند کر کے گیندیں بنانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں جبکہ حالیہ گیند لے کر موصوف کے بھاگ جانے کے بعد ایک اور گیند ہم نے تیار کر رکھی ہے جو آموں کے تحفے کے ساتھ بھجوانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ پھر اسے لے کر بھاگ سکیں حالانکہ وہ بھاگنے کی بجائے آرام آرام سے بھی اسے ٹھکانے لگا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں‘‘ کیونکہ اس کام کے لیے ہم اس کے باوجود تیار رہتے ہیں کہ یا تو بھارت بات چیت سے ایک بار پھر مُکر جائے گا‘ یا اگر بات چیت ہو بھی گئی تو ہمیشہ کی طرح بے نتیجہ ہی رہے گی جس سے ان کا کام بھی چلتا رہے گا اور ہمارا بھی۔ انہوں نے کہا کہ ''بھارت نے کشمیریوں کے حقوق غصب کر رکھے ہیں‘‘ جس کا مجھے حال ہی میں پتا چلا ہے اور سب کو بتا رہا ہوں تاکہ ان کے علم میں بھی اضافہ ہو۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ 
پیپلز پارٹی اور کشمیریوں کو کوئی الگ 
نہیں کر سکتا... بلاول بھٹو زرداری 
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی کو کشمیریوں سے کوئی الگ نہیں کر سکتا‘‘ جبکہ پوری دنیا اپنے سارے کام چھوڑ کر پیپلز پارٹی کو کشمیریوں سے الگ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور بڑی مشکل سے ہمیں پاکستانی عوام سے الگ کرنے کی کوشش میں ہی کامیاب ہوئی ہے اگرچہ ہمارے کارہائے نمایاں و خفیہ کے ہوتے ہوئے اسے اس تکلف میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ جو کام اپنے آپ ہو رہا ہو‘ اس میں ٹانگ اڑانا محض وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جلد آزاد کشمیر کا دورہ کروں گا‘‘ اگرچہ میں نے والد صاحب کے بغیر پنجاب کا دورہ کرنے سے انکار کردیا ہے کیونکہ جو کچھ ہمارے پچھلے دور میں ہوتا رہا ہے اور جس کی وجہ سے پنجاب میں ہماری چھٹی کرا دی گئی ہے اس کا سارا کریڈٹ صاحبِ موصوف اور اُن کی قابلِ رشک ٹیم کو ہی جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کشمیری عوام نے ہمیشہ انتخابات میں پیپلز پارٹی ہی کو منتخب کیا‘‘ اور اب تک ہاتھ مل رہے ہیں اور توبہ تائب ہو رہے ہیں اور خدا سے اپنی غلطی کی معافی مانگ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز آزاد کشمیر پی پی کے صدر سردار یعقوب سے کراچی میں ملاقات کر رہے تھے۔ 
کھیوڑہ کی سیر 
مرا سانحہ باپ کے سانحے سے بڑا ہے... مرے باپ نے... آخری سانس مشکل سے کھینچا... نمک کی سفیدی بھری دھول سے... باپ کی سانس کی نالی... گل سڑ گئی تھی... میں چھوٹا سا تھا... جب مرے باپ کا دوست مجھ کو... نمک کی پراسرار کانوں میں لے کر گیا تھا... وہاں میں نے دیکھا تھا... ٹھنڈے اندھیرے کا انبار... انبار پر اک دیا... کچی مٹی کا... گویا طلسمی دیا تھا... جو بجھتا نہیں تھا... وہاں میں نے مدقوق لوگوں کو دیکھا... جنت کے باسی... جہنم بھرا دن سنبھالے کھڑے تھے... وہاں ایک چھوٹی سی لائن تھی... چھوٹا سا انجن تھا... انجن کے پیچھے ٹرالی بندھی تھی... نمک کو... ٹرالی میں بھر بھر کے لاتے تھے باہر... نمک ساری دنیا میں بھجوایا جاتا تھا... گائیڈ نے ہم کو بتایا تھا... بتیس کوسوں تلک غار پھیلا ہوا ہے... ہر اک سمت... نیچے‘ زمیں کے بہت نیچے... کالے پہاڑوں کے اندر بھی... آگے بھی... کانوں پہ لمبی سی سڑکوں کی چھت ہے... اسی چھت کے نیچے... جہاں کان کن کا جہنم بھی ہے... اور جنت بھی ہے... کان کن گہرے ہوتے... جہنم کے اندر اترتے ہیں... اپنا بدن کھینچتے اوپر آتے ہیں... میں نے وہاں... اک بدن کھینچنے والے کی پسلیاں بھی گنی تھیں... وہ چوبیس نوکوں بھری پسلیوں والے گویا... نمک کے ترازو میں تُلتے... نمک رائج الوقت سکہ تھا... کانوں سے بدتر... نمک کھاتی گلیوں میں رُلتی... وہاں میں نے... شفاف نمکیں پانی کا انجانے میں... گھونٹ اک بھر لیا تھا... زباں اور زباں سے بہت آگے تک... تلخ 
تر ذائقہ اب بھی موجود ہے... مجھ کو ابکائی آنے سے آنکھوں کے رستے سے پانی بہا تھا... وہ اک گھونٹ... اب قطرہ قطرہ نکلتا ہے آنکھوں سے... شاید مری آخری سانس تک بھی... وہ کڑواہٹوں سے بھرا گھونٹ... پوری طرح ختم ہونے نہ پائے!! 
ترسیل 
میں کوئی شے دوبارہ نہیں لکھ رہا... صرف دہرا رہا ہوں... کوئی پیش‘ جزم اور زبر تک... بدلنے نہیں جا رہا... یہ حکایت قدمی ہے... یُگ ریت کے دانوں کے ساتھ اڑتے ہیں... لیکن حکایت... کہ ذرہ برابر بھی تبدیل ہوتی نہیں... اس حکایت کا سننا‘ سنانا... زمانے کو دھکا لگانا ہے... آگے بڑھانا ہے... رسیا وہی لوگ ہیں اس حکایت کے جو اس سے معنی نیا اخذ کرنے پہ قادر ہیں... لذت سے بھرپور ہے طبع ان کی... پھلوں سے بھری ٹوکری ہے حکایت... حکایت وہ رنگلا کبوتر ہے... جو پیڑ کے شاخچوں پر نہیں بیٹھتا ہے... مزاروں پہ اڑتا ہے... لوگوں سے جڑتا ہے... دریا ہے کوئی... کہ جس نے پہاڑوں کو اور سبز میدانوں کو چیرتے... ڈیلٹے میں اترنا ہے... رنگوں کا معمورہ ہے یہ حکایت... حکایت کا اک لفظ بھی جس کے اندر اُترتا ہے... وہ اور رنگین ہوتا ہے... رنگین تر ہونے والے کے اندر کوئی جِین ہوتا ہے... جو کہ... دوبارہ حکایت کی تشکیل کرتا ہے... اور آنے والے زمانوں کی جانب حکایت کی ترسیل کرتا ہے! 
آج کا مقطع 
ہم خود ہی درمیاں سے نکل جائیں گے‘ ظفرؔ 
تھوڑا سا اُس کے راہ پہ آنے کی دیر ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved