تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     24-08-2015

ایلی بائی

ہفتہ رفتہ plea of alibi پر مبنی قتل کا مقدمہ میں نے سپریم کورٹ کے فُل بنچ کے سامنے لڑا۔ میں مقدمے کے مدعی فریق کی طرف سے ملک کی آخری عدالت میں پیش ہوا۔سوات کے ایک پولیس کانسٹیبل نے ڈیوٹی کے دوران سرکاری بندوق سے گھر جا کر پڑوسی کو قتل کیا اور اسے سزا ہوئی۔ایلی بائی فوجداری قانون کا ایک معروف نظریہ ہے جس کو defences یعنی فوجداری مقدمے میں دفاع کے طریقوں میں سے اہم ترین بے گناہی سمجھا جاتا ہے۔اس کی رو سے اکثر کاریگر ملزم وقوعہ والے دن دبئی یا امریکہ چلے جاتے ہیں۔پیچھے کارندوں کے ذریعے سے واردات کرواتے ہیں۔پھر تفتیش کے وقت تفتیشی افسر کو پاسپورٹ دکھا دیتے ہیں یا کسی سرکاری ہسپتال میں''انصاف پسند‘‘ ڈاکٹر مل جائے تو وہ چند لاکھ کے عوض مریض کو کسی شدید بیماری پر ہسپتال میںداخلے کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیتا ہے۔ہسپتال کے اکثر مریضوںکے داخلہ رجسٹر میں خالی صفحے چھوڑ دیے جاتے ہیں، جو بعد ازاںقتل،اغوا،ڈکیتی جیسے سنگین جرائم کے ضرورت مند ملزموں کے کام آتے ہیں۔
کسی زمانے میں مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس کو تفتیش کا حق ہوتا تھا۔مشہور شاعر مصطفی زیدی کے قتل کے مقدمے میںاس وقت کے سندھ بلوچستان ہائی کورٹ نے شہنازگل وغیرہ کے حوالے سے تفتیش میں مداخلت کی۔مقدمہ سپریم کورٹ تک چلا گیا جہاں عدالت عظمیٰ نے کہا اعلیٰ عدلیہ تفتیش میں مداخلت نہیں کر سکتی۔چنانچہ پاکستان میں مصطفی زیدی کیس نظامِ تفتیش کی اساس سمجھا جانے لگا۔کئی عشروں تک جوڈیشل حلقوں میں تابعداری سے اسی اصول کی پیروی کی گئی۔
پھر اس چیف جسٹس کی باری آئی جس نے اپنے سیاستدان دوستوں کی خوشنودی کے لیے سیاسی مخالفین کے خلاف فرمائشی پٹیشنزداخل کروائیں۔اپنے لوگ کھڑے کیے،خود ہی پرچے کروائے ،تفتیش کروائی ،کراچی کے رینجرز پر خود دہشت گردی لگوائی اور لوگوں کو پھانسی گھاٹ تک پہنچایا۔
ذرا غورکریں، جس مقدمے میں سپریم کورٹ کا جج حکم دے ڈالے کہ بندہ پکڑکر لائو۔آئی جی کو عدالت میں طلب کرے اور آرڈر دے کہ تفتیش کی نگرانی کرو اور رپورٹ سمیت ضمنیاں عدالت میں پیش کرتے رہو،اس ماحول میں تھر تھر کانپتے آئی جی کو دیکھ کر کون سا مائی کا لال انسپکٹر، سب انسپکٹر یا اے ایس آئی آزادانہ تفتیش کرے گا اور بے گناہ ملزم کو بے گناہ قرار دے سکے گا۔ایک اور دلچسپ بات بھی سن لیں اور وہ یہ کہ پولیس رولز کے مطابق تھانے میں پہلا تفتیشی ہیڈ کانسٹیبل ہوتا ہے۔جس جگہ سے آئی جی پولیس نوکری بچاتے ہوئے پتلون کی پیٹی تھام کر دفتر واپس پہنچے اس نظام کے ہیڈ کا نسٹیبل سے کیا گلہ؟سیاسی چیف جسٹس تو چلا گیا لیکن اس کی بد روح قانون کے نظام کا ابھی تک پیچھا کر رہی ہے۔صرف چار مثالیں سن لیجئے۔
پہلی مثال لاہور میں پلازے گرانے کا معاملہ تھا۔پتا چلا کہ عام تاجروں اور انویسٹروں کے پلازے تو گرائے جا رہے ہیں لیکن ایک منہ زور وزیر کے پلازوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگا رہا۔حکومت پنجاب نے اپنی عادت کے عین مطابق تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی۔اس کمیٹی نے مذہبی فریضہ سمجھ کر ان پلازوں کو تحفظ دیا، لہٰذا نہ کوئی فیصلہ آیا نہ کمیٹی کی میٹنگ ہونے دی گئی۔
دوسری مثال جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سیلاب کمیشن رپورٹ کی ہے۔2010 ء کے سیلاب میں دریاؤں کے بند توڑکر ہزاروں انسان،جانوراور گھر''انجینئرڈ سیلاب‘‘ کے ذریعے دریا برد کرنے کا وقوعہ سامنے آیا۔جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے ہزاروںدستاویزات پر مشتمل کھوج نکالی۔سینکڑوں صفحات پر مقدمے کا فیصلہ لکھا۔پھر ملزم نامزد کر کے حکومتِ پنجاب سے کہا کہ ان کے خلاف کارروائی کرو۔سیلاب کمیشن والی رپورٹ کی عمر اب 5 سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔ پنجاب میں آج بھی وہی ٹولہ سرکاری وسائل پر قابض ہے جس کے کارندے ملزم نامزد ہوئے تھے۔اجتماعی قتل،بربادی اور تباہی کے کسی ملزم کے خلاف کارروائی تو دورکی بات ہے‘ اس رپورٹ کوآج تک ہوا بھی نہ لگ سکی،کیونکہ اسے کبھی لوہے کے صندوق سے باہر آنے ہی نہیں دیا گیا۔
تیسرے ، ماڈل ٹاؤن قتلِ عام اوّل اور قتلِ عام ثانی پر جسٹس باقر نجفی کا جوڈیشل کمیشن حکومت پنجاب کی درخواست پر بنایا گیا۔اس دلیرجج اور شاہ زادے نے اپنے لہو کی لاج رکھی۔ ڈر، خوف، لالچ اور دھمکیوں سے متاثر ہوئے بغیر ظلم کی داستان میں ملوث کالے سیاہ مکروہ چہرے بے نقاب کرڈالے۔یہ رپورٹ بھی کسی کال کوٹھری کی نذر ہو گئی۔ بر سرِ عام گرائے گئے17لاشے بھی پاکستان کے نظامِ انصاف کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔عدل کا عالم یہ ہے کہ جن قاتلوں نے ٹی وی کیمروں کے سامنے قتل کروائے اور جن وحشت گروں نے سرکاری اہلکاروں کے روپ میں نہتی عورتوں کو گولیوں سے بھون ڈالا انہیں پروموشن اور پہلے سے بہتر عہدے دے دیئے گئے۔شاہی درباروں میں کرائے کے گوریلوں کو انعام ایسے ہی ملتا ہے۔
اس المیے کا المناک ترین پہلو یہ ہے کہ قاتلوں ،ڈاکوؤں ،قبضہ گروپوں اور آبرو باختہ گروہ کے بارے میں ملزموںکو بچانے کے لیے ایک ہی آواز ایلی بائی لے کر سامنے آئی۔ پنجاب سرکار کی آواز۔ پاکستان کے فوجداری نظام کے مطابق پرچہ درج ہونے کے بعد مجرم یا تو متعلقہ عدالت سے ضمانت طلب کرتا ہے یا گرفتار ہوتا ہے۔اس کے بعد اسے شاملِ تفتیش کرکے اس کے گنہگار یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔سانحہ قصور سمیت ان سارے مقدمات میں پرچہ ہونے سے پہلے ہی سرکار نے ملزموں کی ایلی بائی پیش کر دی۔اس ایلی بائی کی کامیابی کے لیے پنجاب پولیس کے حامیوں نے پنجاب پولیس کے دفاع کا بیڑہ اٹھایا۔دفاعی ٹیم کی قیادت ایسے بزرگوار کو سونپی گئی جس نے قومی الیکشن کو کامیابی سے پنکچر لگائے۔ جناب نے اس مرتبہ تو حدکر دی۔کہا، قصور جیسا جرم پاکستان کے ہرگاؤں میں بے شمار ہوتا ہے اور سب کو پتا ہے۔ایسی ہی ایک دلیل ایک دفعہ ایک جج صاحب نے عدالت میں دی۔ میں اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ناصر سعید شیخ دونوں فریقوں کے وکیل تھے۔میں مظلوم بچے کی طرف سے کھڑا ہوا۔جج نے سوال کیا: وقوعہ یعنی واردات کا وقت کیا ہے۔میں نے جواب دیا صبح پونے آٹھ بجے۔کمرۂ عدالت وکلا سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔جج صاحب بولے: نو،نو،نو۔ پھر انگریزی میں فرمایا: '' یہ وقت اس کام کے لیے بالکل بھی موزوں نہیں‘‘۔ادب سے جواب دیا: آپ کی رائے اس کمرے میں سب دلائل پر بھاری ہے۔
پنکچر سے لافانی شہرت حاصل کرنے والے موصوف سے کون پوچھے ،انہوں نے جو ماہرانہ رائے قوم کے سامنے رکھی۔ اس پر کیا تبصرہ کیا جائے۔ پنجاب کے مظلوموںکو ان تلخ تجربات کے بعد ایک بات تو سمجھ آ گئی ۔ہر جرم کے تانے بانے کس سے ملتے ہیں؟ہرجُرم کا'کُھرا‘ پنجاب کے کس مجرم پرست گروہ کے دروازے تک جاتا ہے؟اور ہر جرم کی پناہ گاہ کس کا سرکاری ڈیرہ ہے؟محترم ظفر اقبال نے اپنے کالم میں کسی شاعر کا پنجابی زبان کا نو حہ لکھا تھا:
اس دشت سے کوئی تو اٹھے قیسِ عامری
کوئی توشہ دماغ بھی دیوانہ چاہیے
پنجاب اپنے زخم دکھائے گا بالضرور
اب اس کی گفتگو بھی دلیرانہ چاہیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved