تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     24-08-2015

سری لنکا کی سیاسی صورت ِحال

میرے سری لنکا کے دوست بہت خوشی اور طمانیت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیںکیونکہ گزشتہ ہفتے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق سابق صدر مہندا راجا پاکسے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں ناکام ہوگئے۔گزشتہ جنوری میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں متھرائی سری سینا، جو اُن کی کابینہ میں وزیر ِصحت اور اُن کی جماعت کے سیکرٹری جنرل تھے، کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد راجا پاکسے کے حامی پارلیمان میں زیادہ نشستیں لے کر انہیں وزارت ِ اعظمیٰ کے عہدے تک پہنچانے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ راجا پاکسے نے آئینی مدت سے ایک سال پہلے ہی صدارتی انتخابات کا اعلان کردیا تھا۔ اُنہیں امید تھی کہ وہ اپنے متوقع حریف رانیل وکرما سنگھے کو آسانی سے زیر کرلیں گے، لیکن اپوزیشن نے عین وقت پر ایک نادر چال چلتے ہوئے سری سینا کو حکومتی صفوںسے الگ کرکے اپنا صدارتی امیدوار بنالیا۔ اس سے حکمران جماعت میں دراڑ پڑگئی اور راجا پاکسے کیمپ کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ سری سینا دیہاتی علاقوں میں مقیم سنہالی آبادی کے لیے وکرما سنگھے سے زیادہ قابل ِ قبول تھے۔ یہ علاقے سابق صدرکے مرکزی انتخابی حلقے تھے۔دوسری طرف وکرما سنگھے کو کولمبوکی شہری اشرافیہ کی حمایت حاصل تھی۔ 
تاہم اچھی خاصی اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد سری سینا اپنے وعدے کے مطابق کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ان کی طرف سے پیش کیا گیا ''سودن کا ایجنڈا‘‘ شروع میں ہی عملی سے زیادہ تخیلاتی دکھائی دیتا تھا اور ایسا ہی ہوا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ سابق حکمران خاندان پر بدعنوانی کے الزامات، جن کا انتخابات کے دوران بہت چرچا کیاگیا، ثابت نہ کرسکے۔ان کی طرف سے ایک مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی کہ اُنہوں نے صدارتی ایگزیکٹو کے عہدے میں مرتکز طاقت کو تحلیل کرکے وزیر ِاعظم کو چیف ایگزیکٹو بنادیا؛ تاہم اس مثبت آئینی تبدیلی کے بعد سری سینا حکومت عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہوئی۔ بدعنوانی کے سنگین الزامات کی تحقیقات کی وجہ سے چین کی طرف سے فراہم کردہ فنڈز سے شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔ان منصوبوں پر چینی فرمیں ہی کام کررہی تھیں۔ان منصوبوں پرکام بند ہونے کے نتیجے میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح سابق صدر راجا پاکسے کے اس دعوے میں جان ڈالتی محسوس ہوئی کہ وہ ملک کو تعمیرکرنے کی کوشش کررہے تھے جبکہ موجودہ حکومت ان کوششوںکو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ 
سابق صدر نے سری سینا حکومت کی طرف سے شمال اور مشرق میں آباد تامل گروہوںکو مرکزی سیاست میں لانے کی پالیسی کو شدید تنقیدکانشانہ بنایا۔سری سینا تامل گروہوںکوکچھ زمین جس پر خانہ جنگی کے دوران فوج نے قبضہ کر لیا تھا، واپس کرتے ہوئے ان کے ساتھ افہام و تفہیم کے عمل کو آگے بڑھانے کا وعدہ کیا۔ راجا پاکسے نے سری سینا پر الزام لگایا کہ وہ تامل علیحدگی پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے ملک کی سکیورٹی دائو پر لگا رہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے، جنوری سے اگست کے درمیان راجا پاکسے کے حامی جوق درجوق ملک کے جنوبی حصے میں واقع تنگالی (Tangalle) قصبے میںاُن سے ملنے اور اپنی حمایت کا اعلان کرنے آرہے تھے۔ وہ سیاسی حلقے جو راجاپاکسے کی شکست پر شادیانے بجارہے تھے، کو یکایک احساس ہوا کہ شکست کے باوجود وہ 47 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور انہیں زیادہ تر ووٹ سنہالی آبادی نے دیے تھے کیونکہ ان کے نزدیک وہ ایک جنگی ہیرو تھے جنہوں نے تامل شورش پسندی کو شکست دی اور کئی عشروں سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ کیا۔ 
تاہم انتخابات کے نزدیک وہ تامل اور مسلم ووٹ سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ان دونوں اقلیتوں نے عہد کیا تھا کہ وہ راجاپاکسے کے علاوہ کسی کو بھی ووٹ دیںگے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ راجاپاکسے نے اُس بدھ انتہا پسندتنظیم کے ساتھ وابستگی جاری رکھی جس نے مسلمانوں کی مساجد پر حملے کیے اور کاروبار کو نقصان پہنچایا۔ اس طرح سری لنکا جو روایتی طور پر مذہبی رواداری کاحامل ملک تھا، کوراجا پاکسے کی غلط پالیسیوں نے مذہبی بنیادوں پر نفرت کا شکارکردیا۔ گزشتہ سوموارکوسری لنکن اقلیتوںنے راجا پاکسے کے مخالف امیدواروںکو ووٹ دیے۔ اس تمام صورت ِحال کے باوجود وہ ایک ایسے رہنما کے طور پر سیاسی میدان میں موجود ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے حامی امیدوار 225 میں سے 95 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔اس طرح وہ صرف 18 نشستوں کی کمی سے اکثریت حاصل نہ کرسکے ۔ پاکستان کے برعکس یہاں ایک رکن پارلیمنٹ اپنی وفاداری تبدیل کرسکتا ہے۔ عام فہم الفاظ میں ہارس ٹریڈنگ کی اجازت ہے۔ راجا پاکسے کی مہارت کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے مزید 18 ارکان کی حمایت حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیںہوگا۔ 
اس دوران سری سینا اور ان کے وزیر ِاعظم وکرما سنگھے کے سامنے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہیں۔عالمی منڈی میں چائے اور ربڑ، جو سری لنکا کی اہم برآمدات ہیں،کی طلب کم ہوچکی اور ملک پر بیرونی قرضے جی ڈی پی کے پچاس فیصد سے زائد ہیں۔اگرچہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم کی قیمت میں کمی کا رجحان پایا جاتا ہے لیکن اس کی معیشت استحکام سے دور ہے۔ سری لنکا کے پاس تیل، گیس اورکوئلے کے ذخائر موجود نہیں، لہٰذا اسے یہ چیزیںدرآمد کرنا پڑتی ہیں۔ راجا پاکسے کے دور میں سری لنکا کی خارجہ پالیسی کا جھکائو چین کی طرف تھا۔ چین کو بھی سری لنکا میں انسانی حقوق کی صورت ِحال پرکوئی تشویش نہیں تھی۔دوسری طرف مغربی ممالک خانہ جنگی کے دوران تامل باشندوں کے قتل ِعام اور سری لنکن حکومت کے صحافیوں اور اپوزیشن کے ساتھ ناروا سلوک کے ناقد تھے۔ درحقیقت راجا پاکسے کے چھوٹے بیٹے پر رگبی کے ایک مقبول کھلاڑی کی ہلاکت کے الزام کی تحقیقات جاری ہیں۔ 
نئی حکومت کو تازہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذرائع تک رسائی درکار ہے۔اس کے لیے اسے ماضی کی اُن پالیسیوں پر نظر ِ ثانی کرنے کی ضرورت ہوگی جن کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ان میں سے ایک پالیسی غیر ملکی افراد پر جائیداد خریدنے کی پابندی تھی۔اس اقدام نے سرمایہ کارکے اعتمادکو مجروع کیا اور پراپرٹی مارکیٹ گرگئی۔بورڈ آف انوسٹمنٹ نے اس پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ اس معاشی انحطاط کے اس جزیرے پر جو بھی اثرات مرتب ہوں، یہ اُس سے کہیں زیادہ پرسکون ہوگا جتنا راجا پاکسے کے عہد میں تھا۔سابق دور میں میڈیا کو جو دھمکیاں ملتی تھیں اب وہ ان سے آزاد ہوچکا ہے۔ امیدکی جانی چاہیے کہ اب یہاں صحافیوںکو زدوکوب کرنے، ڈرانے دھمکانے حتیٰ کہ قتل کرنے کی روایت کو نہیں دہرایا جائے گا۔ راجا پاکسے کو پارلیمنٹ میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے اور اُن کے خاندان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی فوری تحقیقات کی جائیں۔''دی ٹائمز‘‘ نے حالیہ دنوں اس تجویزکا ذکرکیا ہے کہ ان مقدمات کی پیروی نہ کرنے پرخاموشی سے ہونے والے معاہدے کے تحت راجاپاکسے سیاست سے ریٹائر منٹ کا اعلان کرسکتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved