تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-08-2015

غزل میں کھلنے والی ایک نئی کھڑکی

اردو غزل کو موجودہ یبوست زدگی سے نکالنے کیلئے میں اکثر واویلا کرتا رہا ہوں اور ایسی غزلیں کہنے سے باز بھی نہیں آ رہا کیونکہ نجات کا کوئی راستہ نظر ہی نہیں آ رہا۔ یار لوگ نیا مضمون باندھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں لیکن کوئی نیا مضمون رہ بھی نہیں گیا جو اس ظالم صنفِ سخن سے بچ رہا ہو۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ کسی پرانے مضمون کو ایک نیا زاویہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بلکہ میں نے تو کسی زمانے میں یہ بھی کہا تھا: 
مضمون کوئی باندھیں گے نیا
مضمون کی ایسی تیسی بھی
کیونکہ مضمون کے پیچھے بھاگنے سے کچھ ہاتھ نہیں آتا بلکہ میں تو مضمون کے بغیر شعر کہنے کا بھی نقیب رہا ہوں۔ بہرحال اس بات پر تو عمومی اجماع ہو چکا ہے کہ غزل تازگی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے، لیکن تازگی آئے کہاں سے؟ یعنی بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ لیکن چونکہ ضرورت آدمی سے سب کچھ کرواتی ہے، اس لئے اس سلسلے میں ہاتھ پائوں توڑ کربیٹھ رہنے کی بجائے نئے راستے نکالنے کی کوشش کہیں کہیں نظر آ بھی جاتی ہے‘ جن میں سے ایک تو وہی ہے جس کو غزل کی ری سائیکلنگ یا ولکنائزیشن کہا جاسکتا ہے،اگرچہ یہ کام بھی خال خال ہی ہو رہا ہے اور جسے غنیمت بھی سمجھا جاتا ہے۔
میں اس ضمن میں آج تین مثالیں پیش کرنے جا رہا ہوں اور جس میں پہلی یہ ہے کہ موجودہ فضا کے اندر رہتے ہوئے غزل کا جواز پیش کیا جائے اور یہ محض اتفاق ہے کہ یہ تینوں مثالیں ماہ نامہ''ماہ نو‘‘ کے تازہ شمارے سے لی گئی ہیں، اس سلسلے کی پہلی مثال حمیدہ شاہین کی ہے جس کی غزل کے چار شعر کچھ اس طرح سے ہیں۔
صدیوں تک یہ دل اور دنیا راکھ ہوئے آسانی سے 
پھر ہم آگ بجھانا سیکھے‘ اشکوں سے اور پانی سے 
خود اپنی آواز اٹھانا ہر کردار پہ لازم تھا
میں چپ چاپ نکل آئی ہوں اس پُر شور کہانی سے 
تو بستی کے جس کونے میں روشن ہو میں راضی ہوں
میں نے حجرہ لیپ رکھا ہے تیری ہی تابانی سے
اک دن اپنا آپ سمیٹا، اس کوچے سے کوچ کیا
میں نے اپنی قیمت جانی اپنی ہی ارزانی سے
خوبصورت اشعار ہیں جوموزوں گوئی کے مدار سے نکل کر شاعری میں داخل ہوگئے ہیں اور اپنی انفرادیت سے بھی متاثر کر رہے ہیں اورانہیں ایک سے زیادہ بار بھی پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن شاید یہ بھی جدید غزل کی آخری منزل نہیں ہوسکتی کہ یہ بھی اس صنف کو زیادہ دور تک نہیں لے جاسکتی اوراتنی جان مارنے سے شاعر ویسے بھی ہانپ کر رہ جاتا ہے۔لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور نئے شاعر کواس ضرورت کا احساس بھی ہے‘ چنانچہ ایک نیا اور مختلف انداز دیکھنے میں آ رہا ہے جس میںمضمون اور موضوع کی گراں جانی سے خلاصی حاصل کرنے کی کوشش صاف نظر آتی ہے اور بات بظاہر کچھ بھی نظر نہیں آتی لیکن شعر بن جاتا ہے۔ زاہد مسعود بالعموم نظم کہتے ہیں جو زیادہ تر نثری نظم ہی میں کلام کرتے ہیں اور غزل کبھی کبھار ہی ان کی توجہ حاصل کرتی ہے۔ ان کے یہ اشعار دیکھئے۔
یہ کس نے کھڑکیوں پہ لکھ دیا ہے
ہوا چلنے کا موسم آ رہا ہے
بلا لیتے ہیں اس کو پاس جا کر
جو کافی دیر سے باہر کھڑا ہے
ہتھیلی میں کوئی دستک نہیں ہے
صدا کا زور ہی در کھولتا ہے
چمن میںکھل رہا ہے گھر کا رستہ
کوئی تو ہے جو واپس آ رہا ہے
جس سہولت سے یہ شعر کہے گئے ہیں، غالباً اسی سہولت نے انہیں شعر بنایا بھی ہے کہ کوئی ٹھوس مضمون بھی نہیں‘ نہ ہی کوئی خاص کاوش کارفرما نظر آتی ہے۔ بلکہ ایک آدھ شعر کے بارے میں تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کیا یہ بھی شعر ہے؟ اس لئے کہ ہم اور طرح کے اشعار میں پلے بڑھے ہیں۔ چنانچہ اسی اجنبیت کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ نیز یہ اشعار آپ پر اس طرح کا اثر بھی نہیں چھوڑتے جس قسم کے اثر کے ہم عادی ہو چکے ہیں۔ شاعری میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب لاشعر ہی شعر بن جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس انداز کا کھلے دل سے استقبال کیا جائے گا۔
اب آتے ہیں ظہور احمد کی طرف۔ یہ اس وقت سے میری نظروں میں ہے جب یہ میرے بیٹوں کے ساتھ گورنمنٹ کالج میںزیرتعلیم تھا۔ انہی دنوں اس کی ایک غزل ''راوی‘‘ میں شائع ہوئی جس پر میں نے پورا کالم لکھ دیا تھا۔ مجموعہ کلام شائع ہو چکا ہے لیکن رسالوں میں چھپنے سے شاید ڈاکٹر نے موصوف کو منع کر رکھا ہے۔ اس کے یہ اشعار دیکھیے:
کچھ کچھ کہیں کہیں کوئی پتھر کھڑے رہے
یا پھر شجر یا تھوڑے بہت گھر کھڑے رہے
بارش تھی اور گھپ اندھیرا تھا اور ہم
جھاڑی کی ایک ٹہنی پکڑ کر کھڑے رہے
سیلاب تھا شدید مگر گھر کی یاد میں
ہم چار لوگ جم کے وہیں پر کھڑے رہے
موسم کے ساتھ ساتھ سفر تھا پہاڑکا
نیچے کھڑے رہے‘ کبھی اوپر کھڑے رہے
کیا جانیے کہاں سے وہ گزریں گے کس گھڑی
کھڑکی کھڑی رہی تو کبھی در کھڑے رہے
آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ یہ کس طرح کی شاعری ہے۔سوا‘ عرض ہے کہ ہر نئی چیز کے بارے میں کچھ کہا جاتا ہے۔ دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں گھپ کو تشدید کے ساتھ باندھا گیا ہے۔ ورنہ اس کی بجائے ''گہرا‘‘یا ''گھور‘‘ بھی آ سکتا تھا لیکن یہ بھی شاعرکی افتاد طبع کا ایک حصہ ہوسکتا ہے۔ بے شک بعض حضرات کے نزدیک یہ قابل اعتراض ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ یہاں ایسی صورت حال بھی نظر آتی ہے کہ شعر کی منطق بھی معرض سوال میں آتی دکھائی دیتی ہے۔
ان دونوں شعراء کی یہ کاوش شاعری یعنی غزل کی موجودہ فضا میں ایک نئی کھڑکی کھولنے کے مترادف ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ خودانہیں اس تبدیلی کا احساس کس شدت کے ساتھ ہے اور وہ یہ کام جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا اسے جاری رکھ بھی سکتے ہیں یا نہیں لیکن اسے کوئی اور بھی اچک سکتا ہے کہ یہ انداز نیا بھی ہے اور اپنے اندر ایک کشش بھی رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نیا راستہ شاعر لوگ ہی نکالا کرتے ہیں۔ کہ نقاد کے بس کا یہ روگ بھی نہیں ہے۔بہرحال میں نے اس کا نوٹس لیا ہے اور اگر میرا نوٹس لینا کوئی اہمیت رکھتا ہے تو شاید کچھ اور بھی حضرات یہ جرأت کر دکھائیں،ورنہ مجھ پر نئی نسل کو گمراہ کرنے کا الزام ویسے بھی کوئی نیا نہیں ہے!
آج کا مطلع 
جہاں نگارِ سحر پیرہن اتارتی ہے 
وہیں یہ رات ستاروں کا کھیل ہارتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved