بھارت کے شہر احمد آباد میں ایک میٹرو پروجیکٹ تعمیر کیا گیا ہے جس پر2.4 ملین ڈالر لاگت آئی۔ اسی طرح چین میں تعمیر کی گئی ایک میٹرو لائن پر4.8 ملین ڈالر خرچ ہوئے‘ جبکہ لاہور میں تعمیر کی گئی میٹرو لائن پر298 ملین ڈالر خرچ کئے گئے اور راولپنڈی سے اسلام آباد تک تعمیر کی جانے والی میٹرو لائن پر 443 ملین ڈالر لاگت ظاہر کی گئی۔ جو بھی بھارت اور چین کی میٹرو بسوں کے پروجیکٹس کا پاکستان میں تعمیر کی جانے والی میٹرو سے موازنہ کرتا ہے‘ وہ حیران رہ جاتا ہے اور یقینی طور پر اسے یہ سب نا قابل یقین لگنے لگتا ہے بلکہ کچھ اسے حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کا حصہ قرار دینے لگتے ہیں اور کچھ بے یقینی کی فضا میں غوطے کھانے لگتے ہیں کہ اس قدر فرق کس طرح ہو سکتا ہے لیکن یہ سب ثبوت زمین پر ہی موجود ہیں اور آسانی سے دیکھے اور ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے ''فرق تو صاف ظاہر ہے‘‘۔ یہ کوئی کہانی نہیں کوئی ا دھورا افسانہ بھی نہیں بلکہ یہ وہ حقیقت اور سچائی ہے جو سر چڑھ کر بول رہی ہے اور پھر جب برازیل میں تعمیر کی جانے والی میٹرو کی لاگت سامنے لائی جاتی ہے تو انسان اپنا ماتھا پکڑ کر رہ جاتا ہے۔ وہ خود سے پوچھنے لگتا ہے کہ اس قدر فرق کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ پنجاب کے حکمرانوں نے لاہور اور اسلام آباد راولپنڈی میں تعمیر کی جانے والی میٹرو پر سونے اور چاندی کا پانی استعمال کیا ہو گا؟لیکن جب سائوتھ ایشیا میگزین کی جاری کی گئی رپورٹ میں اسے یہ نظر آتا ہے کہ پاکستان کی میٹرو کے مقابلے میں سپین کے شہر لیون میں تعمیر کی گئی میٹرو پر صرف 1.8ملین ڈالر لاگت آئی تو اسے دن میں تارے دکھائی دینے لگتے ہیں ۔
راولپنڈی سے اسلام آباد تک تعمیر کی گئی میٹرو کی کل لمبائی23 کلومیٹر ہے اور لاہور میں گجو متہ سے شاہدرہ تک تعمیر کی گئی میٹرو بس کا فاصلہ29 کلومیٹر ہے لیکن ان دونوں میٹرو پروجیکٹس کے مقابلے میں برازیل کے شہر سائو پولو میں اب تک تعمیر کی جانے والی سب سے طویل میٹرو کی لمبائی104 کلومیٹر ہے جبکہ اس پر برازیل حکومت کی کل لاگت صرف 3.5ملین ڈالر ہے۔ اب اگر لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد میں تعمیر کی گئی میٹرو کی کل لاگت جمع کر لیں تو وہ 741 ملین ڈالر بنتی ہے۔ اب خود ہی اندازہ کیجئے کہ کہاںسائو پولو برازیل کی 104 کلو میٹر طویل میٹرو اور کہاں لاہور اور اسلام آباد کی دونوں میٹرو کی لمبائی صرف52 کلومیٹر۔اب اگر ملتان میں تعمیر کی جا رہی میٹرو کے17 ارب روپے سامنے رکھیں تو پھر آنکھوں کے سامنے سوائے اندھیروں کے اور کیا رہ جائے گا ۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق ایک ماہ قبل لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ملک کا یہ حال ہو چکا ہے کہ وہ جب میو ہسپتال میں کچھ لوگوں کی عیا دت کو گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک ایک بستر پر دو دو مریض لٹائے گئے تھے۔ کاش وہ لاہور کے کارڈیالوجی ہسپتال کا بھی کبھی ایک چکر لگا آئیں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ دل کے مریضوں کو جب وہاں لایا جاتا ہے تو انہیں وہیل چیئر پر بٹھا کر ہی ڈرپ لگا دی جا تی ہے اور مریض کے لواحقین باری باری اس ڈرپ کو ہاتھوں سے پکڑے کھڑے رہتے ہیں اور یہی صورتحال لاہور کے جنرل ہسپتال میں نیورو وارڈ میں دیکھنے کو ملتی ہے اور اگر ایک ایک کر کے صرف لاہور کے ہسپتالوں میں آنے والے بد قسمت مریضوں اور ان کو مہیا کی جانے والی سہولتوں اور ان کے علاج کی بات کی جائے تو کہیںسی ٹی سکین کی مشین نہیں تو کہیں ایکسرے کی سہولت نہیں۔ عوا م کو مہیا کئے جانے والے پانی کی بات تو ایک طرف ان ہسپتالوں کے سٹوروں سے مریضوں کو ادویات زائد المیعاد مہیا کی جاتی ہیں۔ ان کے پیکٹ‘ جن پر ان کی Expiry Date لکھی ہوتی ہے‘ اتار کر ضائع کر دیے جاتے ہیں۔ یہی حال ملک کے طول و عرض
میں پھیلے ہوئے تعلیمی اداروں کا ہے کہ ان کی حالت دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ انسانوں کیلئے نہیں بلکہ جانوروں کیلئے تعمیر کئے گئے ہیں۔ کیا حکومت وقت کی طاقتور شخصیات اس حقیقت کا سامنا کرنے کو تیار ہوں گی کہ اس وقت لاہور، قصور، ننکانہ، اوکاڑہ، ساہیوال، پاکپتن اور شیخوپورہ اضلاع کیلئے صرف لاہور میں ایک باقاعدہ کارڈیالوجی ہسپتال ہے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی حکومت کی بڑی بڑی باتیں کرنے والے اور میٹرو بس کی شان میں قصیدے پڑھنے اور گانے والے اور انہیں سن کر سر دھننے والے کیا اندازہ کر سکتے کہ دور دراز سے دل کے مریضوں کی لاہور پہنچنے تک کیا حالت ہوتی ہو گی۔ بہت سے تو راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ فیصل آباد اور ملتان میں میٹرو بس سروس کی بجائے اگر ان دو شہروں میں نئے ہسپتال، نئے سکول اور کالج قائم کئے جائیں ملک میں جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کینسر اور دل کے امراض کے ہسپتال قائم کئے جائیں اور وزیر آباد میں پرویز الٰہی دور میں تعمیر کئے جانے والے کارڈیالوجی ہسپتال کو مکمل کرتے ہوئے اسے عوام کیلئے کھول دیا جائے تو بہت سوں کا بھلا ہوگا۔ نئے چیف جسٹس کا تعلق وزیر آباد سے ہے۔ کیا وہ 23 دنوں میں اپنے آبائی علاقے کے لوگوں کو ان کا غصب کیا گیا یہ حق دلوانے کی کوشش کریں گے؟
کیا حکومت پنجاب یا مرکز میں بر سرِ اقتدار مسلم لیگ نواز کی حکومت اپنے ہی جاری کر دہ اکنامک سروے آف پاکستان کو ایک نظر دیکھنا گوارہ کریں گی؟ اگر وہ ایک نظر اکنامک سروے آف پاکستان کو دیکھ لیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ ملک بھر میں اس وقت ہسپتالوں کی کل تعداد 1142 ، ڈسپنسریز کی کل تعداد5500، بنیادی مراکز صحت کی کل تعداد5438اور رورل ہیلتھ سینٹرز کی کل تعداد669 ہے اب جیسا کے ہمارا ہر سیا ستدان اپنی تقریروں میں اور ٹی وی ٹاک شو میں دعوے سے پاکستان کی آبادی کو بیس کروڑ بتاتا ہے تو اندازہ کیجئے کہ صحت کی سہولیات کا تنا سب کیا ہو گا؟ ہماری دیہات کی آبادی ملک کے70 فیصد عوام پر مشتمل ہے۔ ان کیلئے بنیادی مراکز صحت کی تعداد5438 اور رورل ہیلتھ سینٹرز کی تعداد669 ہے اور پاکستان کی نواز حکومت کی جانب سے عوام کو صحت کی سہولیات مہیا کرنے کیلئے 114 بلین روپے رکھے گئے یعنی کل جی ڈی پی کا 0.4فیصد اس سے شہریوں کو دی جانے والی طبی سہولتوں کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
سائوتھ ایشین میگزین کی رپورٹ کے مطا بق راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پر خرچ کی جانے والی رقم کا ایک بہت بڑا حصہ کراچی میٹرو پروجیکٹ کیلئے مخصوص حصے سے ادا کیا گیا ہے‘ کراچی جو آبادی کے لحاظ سے راولپنڈی اور اسلام آباد سے پانچ گنا بڑا ہے۔ کیا سب سے پہلے میٹرو بس کی سہولت اسے نہیں ملنا چاہئے تھی؟ آپ پنجاب کے نہیں پاکستان کے حکمران ہیں اسی لئے ملک کے ترقیاتی فنڈز اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے 120 ارب روپے جہاں چاہتے ہیں خرچ کر رہے ہیں!!