بھارت جس انداز میں پاکستان کو مذاکرات کے ٹرک کی بتی دکھا کر دوڑا رہا ہے اس کی ایک وجہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو انتہا پسندی ہے اوردوسرا سبب خود پاکستان کے ایسے اقدامات ہیں جو کمزوری کا تاثر پیدا کر رہے ہیں۔اگر دشمن آپ کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر آپ کوپٹخنیاں دے رہا ہے تو اس پر رونے چلانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ وہ کونسے عوامل ہیں جو آپ کو اپنی قوت سے محروم کیے دیتے ہیں۔ کیا وزارت ِ خارجہ کے شاہ دماغ یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر روس کے شہر اوفا میں نواز شریف اور نریندر مودی قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات پر رضامند ہوتے ہیں اور ملاقات کاوقت آتے ہی بھارت مختلف حیلے بہانوں سے اس ملاقات کو بے فائدہ بنانا چاہتا ہے؟ بھارت کے ریاستی نظام میں طاقت کی تقسیم کو سمجھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ سرتاج عزیز کی کشمیری لیڈروں سے ملاقات پر بھارت کے اندر ایسا کوئی سیاسی دباؤ نہیں پیدا ہوا جس کے زیراثر حکومت ایک طے شدہ ملاقات کی منسوخی پر تیار ہوجائے۔ اس کے برعکس واقعات کی ترتیب سامنے رکھی جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کو تباہ کرنے کے لیے پہلے بھارت کی وزارتِ بیرونی امور کے ترجمان وکاس سوارپ نے سرتاج عزیز کو کشمیری لیڈروں نے نہ ملنے کا مشورہ دیا،پھر اس مشورے کو ایک سفارتی موقف بنایا گیا اور آخر میں وزیر خارجہ سشما سوراج کشمیریوں کو ''تیسرا فریق‘‘ قرارد ینے کی بے بنیاد منطق لے کر آگئیں۔ غالباً اس ڈرامے سے پاکستان کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ بھارت کو خطے کے امن کے لیے پاکستان کو راضی رکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی بلکہ پاکستان کو آئندہ بھارتی خوشنودی کا خیال رکھنا ہوگا۔ اگرچہ پاکستان کی طرف سے اپنے مؤقف پر ڈٹ جانے اور سرتاج عزیز کی طرف سے پاکستان میں 'را‘ کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ثبوت اقوام متحدہ لے جانے کے بیان نے صورت حال بدل دی ، لیکن یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ آخر بھارت کو وہ کونسی قوت میسر آگئی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب سے خراب تر کرنے پر تلا ہے؟
اس سوال کا جواب پاکستان کی قومی اسمبلی کی پاس کردہ ایک قرارداد میں پوشیدہ ہے۔ یہ قرارداد آج سے ٹھیک ساڑھے چار ماہ قبل سعودی حکومت کی مدد کی درخواست کے جواب میں منظور کی گئی تھی اور اس میں بتایا گیا تھا کہ یمن میں حوثی باغیوں کے مقابلے میں پاکستان سعودی عرب کو تنہا چھوڑ دے گا۔ اس قرارداد میں ایک آدھ ایسا نکتہ بھی تھا جس کے تحت عربوں کو حوصلہ دیا گیا تھا کہ جب کوئی بڑی مصیبت آئی تو ہم ان کے ساتھ ہی ہوں گے لیکن حکومت نے ان طاقت بخش نکات کا فائدہ اٹھانے کی بجائے غیر جانبداری کا راستہ اختیار کیا اور یمن کے معاملے سے خود کو الگ کرلیا۔ ایک آزمائے ہوئے دوست کو مصیبت میں چھوڑ کر غیر جانبداری اختیار کرلینا دراصل اس کی پشت میں خنجر گھونپنے کے مترادف تھا۔ سعودی عرب تو یہ زخم کھا کر خاموش ہوگیا لیکن عرب امارات کا ایک وزیر تو اس پر برسرِ عام چیخ ہی پڑا۔اس چیخ نے بھارت تک یہ پیغام پہنچا دیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسے ایشیائی دوست کی جگہ خالی ہوچکی ہے جو بوقتِ ضرورت عربوں کی مدد کرسکے۔ بھارت اگر اس صورت حال سے فائدہ نہ اٹھاتا تودرجۂ اول کا احمق قرار پاتا۔ خطے میں ہماری حماقت سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے قرارد اد کی منظور ی کے فوراً بعد بھارتی حکومت سرگرم ہوئی اور صرف چارماہ بعد نریندر مودی ''حاضر، حاضر‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے عرب امارات جا پہنچے جہاںعرب شیوخ انہیں مرحبا کہنے کے لیے دیدہ و دل فرش ِراہ کیے ہوئے تھے۔عرب امارات کے غیر سیاسی ماحول میں یہ انتہائی غیر معمولی بات تھی کہ مودی کو ایک سٹیڈیم میں ہندوستانی باشندوں کے مجمعے کے سامنے تقریر کرنے کا موقع دیا گیا جس میں انہوں نے نام لیے بغیر پاکستان کی بھد اڑانے کی کوشش کی۔ بھارتی وزیراعظم کو جلسہ کرنے کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ عرب امارات ایک ایسی جگہ بن سکتا ہے جہاں پاکستان کے دشمن خود کو محفوظ تصورکریںگے۔
جب قومی اسمبلی نے مذکورہ قرارداد منظورکی تھی تو اس خاکسار نے دنیا ٹی وی کے پروگرام ''خبریہ ہے‘‘ میں عرض کیا تھا کہ یہ قرارداد مشرقِ وسطیٰ میں بھارت کو وہ اہمیت دے دے گی جس کا کبھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا، لیکن'' غیر جانبداری ‘‘کے نقار خانے میں یہ آوازکوئی سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔اب جبکہ بھارت عرب امارات کے ساتھ پچھتر ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے کر چکا ہے تو شاید کوئی یہ سمجھ لے کہ ہم نے کیا کھویا ہے۔اگر سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہو تو اس سیلفی پر ایک نظر ڈال لیں جس میں نریندر مودی درمیان میں ہیں اور ان کے دائیں طرف شیخ نہیان مبارک النہیان کھڑے ہیں ۔وہی شیخ نہیان مبارک جو عرب امارات کے اہم ترین وزرا میں سے ایک ہیں، پاکستان کے گہرے دوست سمجھے جاتے ہیں اور ذاتی طور پر پاکستان میں سرمایہ کاری کواپنی اولین ترجیحات میں رکھتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں ہماری حماقت نے بھارت کو ایک نادر موقع دیا ہے کہ وہ خطے میں پاکستان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ایک قدم آگے بڑھ جائے اور ایسے حالات پیدا کرے جن سے پاکستان کی تنہائی کا تاثر پیدا ہو۔اگر بھارت اس میں کامیاب ہوجاتا ہے تو لا محالہ اس کے اثرات چین پاکستان اکنامک کاریڈور پر بھی پڑیںگے۔بھارتی کامیابی کی ابتدائی صورت تو ہمیں نظر آ رہی ہے، انتہائی صورت یہ ہوگی کہ چین اس منصوبے میں دلچسپی کم کردے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوگی تو گوادر کی اہمیت بھی وہ نہیں رہے گی جو آج ہے۔ اس کے علاوہ ایران سے عالمی پابندیوں کا ہٹنا بھی ایک ایسا عامل ہے جو بظاہر بھارت اپنے حق میں بآسانی استعمال کرسکتا ہے۔اس کے پاس یہ دلیل موجود ہوگی کہ پاکستان اپنی داخلی وجوہ کے باعث ایران کے خلاف کوئی فیصلہ کن اقدام نہیں کرسکتا جبکہ بھارت اس طرح کی کسی صورت حال میں واضح پالیسی اختیار کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ دوسری طرف ایران میں بندرعباس کی تعمیر میں مدد دے کر بھارت پہلے ہی اسے اپنی مٹھی میں کیے ہوئے ہے۔ خطے کے موجودہ حالات کو ذہن میںرکھیں تو سمجھا جاسکتا ہے کہ آخر بھارت کیوں پاکستان سے معاملات درست کرنے پر توجہ نہیں دے رہا۔
بھارت کی خطے میں مضبوطی کی وجہ اس کی اپنی قوت کے علاوہ ہماری کمزوری بھی ہے۔اس کمزوری کا باعث پاکستان کے پالیسی سازوں میں خارجہ امورکو صرف داخلی تناظر میں دیکھنے کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ یہ بات درست ہے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل کے وقت داخلی تقاضے مدنظر رکھے جاتے ہیں لیکن داخلی تقاضوںکے نام پر دوستوںکا ساتھ چھوڑ دینا، دشمنوں کی چالوں پر نظر نہ رکھنا اور ہر طرح کے بین الاقوامی کردار سے پہلو تہی کرنا شکست خوردگی کی علامت ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وزارت خارجہ میں یہ علامتیں بہت تیزی سے نمودار ہورہی ہے۔اگر ابو ظہبی، ریاض اور کابل ان علامتوںکی روشنی میں اپنی اپنی پالیسیاں بدل رہے ہیں تو نئی دلی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے میں پیچھے نہیں رہے گا۔