جس نابغہ روزگار نے اوفا کے مشترکہ اعلان سے کشمیر کا لفظ حذف کیا‘ اسے مظفرآباد لے جا کر‘ چوراہے میں کھڑا کر کے عوام کے سپرد کر دینا چاہیے کہ ''یہ ہیں وہ صاحب‘ جنہوں نے مشترکہ اعلان میں سے کشمیر کا لفظ نکالا اور اس کی بنیاد پر سکیورٹی کے مشیروں کے درمیان ہونے والی گفتگو منسوخ کر دی گئی۔‘‘ یہ معمولی بات نہیں۔ میں پہلے ہی دن سے کف افسوس مل رہا ہوں کہ ہم یہ کیا کر بیٹھے؟ پاک بھارت مذاکرات کے ایجنڈے سے‘ ہم نے کشمیریوں کو ہی باہر کیا۔ اس کی بنیاد پر بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے‘ ڈھٹائی سے اعلان کر دیا'' جب تک پاکستان کی جانب سے یقین دہانی نہیں کرائی جائے گی کہ اس کا وفد حریت کانفرنس کے رہنمائوں سے ملاقات نہیں کرے گا‘ مذاکرات نہیں کئے جائیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا ''قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات کا ایجنڈا صرف دہشت گردی سے متعلق امور پر مشتمل ہے۔ جس میں کشمیر کا معاملہ شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘ اللہ اللہ خیرسلا۔ پہلے بڑی چالاکی سے مشترکہ اعلان کو‘ محض دہشت گردی کے معاملات تک محدود کیا گیا اور پہلی ہی ملاقات سے قبل فرمان جاری کر دیا گیا کہ'' مذاکرات تو صرف دہشت گردی سے متعلقہ امور پر کئے جائیں گے۔ کشمیر کا معاملہ اس میں شامل نہیں ہے۔‘‘ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارے سفارتی ماہرین نے‘ کتنی مہارت سے پاکستان کو اس بنیادی تنازعے سے باہر کر دیا‘ جس پر ہمارے درمیان دو جنگیں ہو چکی ہیں۔ ایک لاکھ کے قریب بے گناہ کشمیری ‘ اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ بھارت ہمارے حصے کے پانیوں کو اپنی مٹھی میں کر چکا ہے اور ہمارے بابوئوں نے کتنی آسانی سے یہ سب کچھ نظرانداز کر کے‘ پاک بھارت مذاکرات کو صرف‘ دہشت گردی تک محدود کر کے رکھ دیا۔ میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ بھارت نے بڑی چالاکی سے تنازعہ کشمیر کو مذاکرات کے ایجنڈے سے نکال باہر کیا ہے اور ہم نے آئندہ کے لئے بھارت کے ہاتھ میںیہ اختیار دے دیا۔ وہ مذاکرات کے ہر موقع سے پہلے‘ کشمیر کا ذکر ایجنڈے سے نکالنے پر اصرار کرے گا اور دلیل دی جائے گی کہ ہمارے درمیان صرف دہشت گردی کا مسئلہ ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرے گا اور ہمارے سفارتی ماہرین کی موجودہ ٹیم باقی رہے گی‘ تنازعہ کشمیر کا قصہ خود ہی پاک ہو جائے گا۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم ہڑبڑا کر اٹھیں اور ہاتھ سے نکلتے ہوئے وقت کی دم پکڑ کر‘دہائی دیں کہ بھارت نے وعدہ خلافیوں اور چال بازیوں کے ذریعے‘ ہماری شہ رگ پر اپنی انگلیاں گاڑ دی ہیں۔ عالمی برادری ہمیں‘ اس کے چنگل سے نکالنے کے لئے‘ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں عالمی برادری نے ‘یہ ذمہ داری قبول کر رکھی ہے۔ بدقسمتی اور ہمارے حکمرانوں کی نالائقی سے‘ دوجنگیں ہوئیں۔ بھارت نے دونوں مرتبہ غلبہ حاصل کیا اور ہماری مجبوری کا فائدہ اٹھا کر یہ شرط منوا لی کہ تنازعہ کشمیر ہمارا دوطرفہ معاملہ ہے‘ جو ہم آپس میں مذاکرات کے ذریعے طے کریں گے۔ پہلی بار معاہدہ تاشقند میں‘ ہمارے فیلڈ مارشل صدر نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ شرط قبول کر لی۔ بھارت نے یہ بات کیسے منوائی؟ اس کی کہانی مضحکہ خیز بھی ہے اور دردناک بھی۔ اس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقارعلی بھٹو‘ کشمیر کے تنازعے کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے نکالنے پر رضامندی کے‘ احمقانہ فیصلے کی مخالفت کر رہے تھے۔ بھارت کے وزیراعظم‘ ہمارے دیوقامت فیلڈ مارشل کے سامنے‘ بڑی مختصر سی شخصیت کے مالک تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے ہندو کی روایتی عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا''مہاراج! میں عوام کے سینکڑوںنمائندوں کے سامنے جوابدہ ہوں۔ میں نے جس معاہدے پر بھی دستخط کئے‘ اس کے ایک ایک لفظ پر جواب دینا پڑے گا۔ جبکہ بھگوان کی کرپا سے‘ آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ یوں بھی معاملہ تو ہمارا آپس کا ہے۔ ہم اسے خود ہی نپٹا لیں گے۔ سلامتی کونسل نے اب تک ہمیں کیا دیا ہے؟‘‘ فیلڈ مارشل لہر میں آ گئے اور حکم صادر کر دیا ''ٹھیک ہے! ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔ اسے خود ہی طے کر لیں گے۔‘‘ ظاہر ہے‘ مکالمے اس طرح نہیں بولے گئے ہوں گے۔ مگر جو روایت سنی ہے‘ اس کے مطابق شاستری جی کا مدعا یہی تھا کہ اپنی بے بسی اور فیلڈ مارشل کے لامحدود اختیارات کا موازنہ کر کے‘ انہوں نے اپنی بات منوا لی۔ فیلڈ مارشل کا حکم ملتے ہی‘ وزیرخارجہ نے خود کو معاملات سے الگ کر لیا اور واپس وطن آ کر معاہدہ تاشقند کے خلاف زبردست عوامی مہم چلا دی۔ مگرکبوتر اڑ گیا تھا۔ 1971ء میں ہمیںبڑی شکست ہوئی اور ہم نے اپنے آپ کو مزید پھنساتے ہوئے‘ نئے معاہدے میںان الفاظ کا اضافہ کر دیا کہ ''کشمیر کا معاملہ دو طرفہ ہے۔ ہم اسے کسی عالمی فورم پر لے کر نہیں جائیں گے۔ ‘‘موقع اسی وقت ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ لیکن اصولی اور قانونی طور پر ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور یہ دونوں معاہدے جنگ جیتنے والی قوم نے‘ ہم پر زبردستی مسلط کئے تھے۔ آج بھی ہمارے پاس خارجہ امور کے اعلیٰ پائے کے ماہرین موجود ہیں۔ اگر ہم اپنا کیس لے کر دوبارہ سلامتی کونسل میں جائیں‘ تو ہو سکتا ہے کہ عالمی برادری ‘نئے حالات میں ہمارے موقف کو سمجھ لے۔ ہمارے کیس کے بنیادی نکات یہ ہو سکتے ہیں۔
-1 ہم نے مجبوری کی حالت میں جنگ جیتنے والے ملک کی شرائط پر یہ دونوں معاہدے کئے تھے اور دونوں فریقوں کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ہم تھوڑے ہی عرصے میں کوئی سمجھوتہ کر لیں گے۔اب ہمیں انتظار کرتے ہوئے50برس ہو گئے۔ لیکن بھارت نے ایک بار بھی اس موضوع پر سنجیدگی سے بات چیت نہیں کی۔ اس کے برعکس وہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ اس تنازعے کو فراموش کر دیا جائے۔
-2گزشتہ 70 سال سے کشمیر کے ایک کروڑ عوام بے یقینی‘ بدامنی اور پرخطرزندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لاکھوں مہاجرین اپنے گھروں سے محروم ‘ اذیت ناک زندگی گزاررہے ہیں۔ کشمیر کے ہندو ‘بھارت میں آج تک گھروںسے محروم ہیں اور لاکھوں مسلمان‘ پاکستان میں تکلیف دہ حالات سے گزر رہے ہیں۔ جب تک کشمیر کا تنازعہ حل نہیں ہوتا‘ کشمیر کے لاکھوں ہندو اور مسلمان اسی طرح خواری و زبوں حالی کی حالت میں رہیں گے۔ جوایک بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔
-3اگر ہم اس موضوع پر بھارت سے بات کرنا چاہتے ہیں ‘ تو وہ تیار نہیں ہوتا۔ تنازعے کو دوطرفہ قرار دے کرہم نصف صدی سے انتظار میں ہیں کہ یہ مسئلہ آپس میں حل ہوجائے۔ لیکن بھارت اس کا موقع نہیں دے رہا۔ہم نے اس معاملے کو دوطرفہ تسلیم کرتے ہوئے یہ نہیں کہا تھا کہ کیس ہم سلامتی کونسل سے واپس لے رہے ہیں۔ بھارت خود یہ معاملہ لے کر سلامتی کونسل میں گیا تھا۔ آج 70سال کے بعد یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ بھارت تنازعے کے حل کے لئے ‘ سلامتی کونسل میں نہیں گیا تھا۔ بلکہ وہ بدنیتی سے مہلت حاصل کر کے‘ کشمیر پر اپنے قبضے کو مستحکم اور مستقل کرنا چاہتا تھا۔
-4اب ہم مجبور ہیں کہ متاثرہ فریق کی حیثیت سے یہ معاملہ سلامتی کونسل میں پیش کریں اور عالمی برادری‘ کروڑوں انسانوں کو بے یقینی کی زندگی سے نجات دلانے کے لئے‘ یہ مسئلہ حل کرے۔
-5اب یہ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں بن چکے ہیں۔ اگر یہ تنازعہ حل نہ ہوا‘ تو خطے کا امن ہمیشہ خطرے میں رہے گا اور روایتی جنگ میں بھارت کی برتری‘ ہمیں مجبور کر دے گی کہ ہم اپنی سلامتی اور دفاع کے لئے آخری ہتھیار استعمال کریں۔ ہرچند یہ انسانیت کے لئے انتہائی تباہ کن اقدام ہو گا۔ مگر ہمیں مجبور کر کے‘ اس طرف دھکیلا جا رہاہے۔ اپنے خطے بلکہ اردگرد کروڑوں عوام کو ایٹمی تباہی سے بچائیں۔ ان بنیادوں پرعالمی برادری سے تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے مدد کی درخواست کی جائے۔ بھارت تمام وعدوں اور معاہدوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے ‘ کشمیر کے بڑے حصے پر غاصبانہ قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ وہ سلامتی کونسل میں کئے ہوئے اپنے تمام وعدوں سے منحرف ہو چکا ہے۔ ہمارے پاس آخری چارہ کار یہ ہے کہ ہم عالمی برادری سے مدد طلب کر کے‘ انسانیت کے بڑے حصے کو ایٹمی تباہ کاری کا نشانہ بننے سے بچائیں۔
میں قانونی ماہر نہیں لیکن چند ناپختہ سے خیالات پیش کر کے‘ درخواست کر رہا ہوں کہ عالمی قوانین کے پاکستانی ماہرین ‘ جو ہماری وزارت خارجہ کے غلامانہ ماحول کے اسیر نہ ہوں‘ وہ حب الوطنی اور کروڑوں انسانوں کی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ‘اس تنازعے کو فوری طور سے ایجنڈے پر لانے کا کیس تیار کریں اور کوشش کریں کہ بھارت ‘سلامتی کونسل میںکئے گئے وعدوں کی روشنی میں جلدازجلد یہ تنازعہ حل کرنے پر توجہ دے۔