تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     25-08-2015

جسٹس کاظم ملک کو سلام

طوفان اٹھّے تو تنکے اس کی راہ نہیں روکتے... اور شجر وہی سلامت رہتے ہیں، جن میں لچک ہو، جو جھک سکیں۔ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا عمل سب سے اچھا عمل ہے، اور ان کی تاویل شاید بدترین اندازِ فکر۔
وفاقی وزراء‘ جسٹس کاظم ملک پر برہم کیوں ہیں؟ انہیں متعصب کیوں کہا؟ کھسیانی بلّی کھمبا نوچے۔ دلائل کم پڑ جاتے ہیں تو شخصیت میں عیب تلاش کئے جاتے ہیں‘ جو ہدف ہو۔ کس قدر بودی باتیں معزز جج کے بارے میں کہی گئیں۔ کہا گیا کہ ذمہ دار الیکشن کمشن ہے تو امیدوار کو سزا کیوں دی گئی۔ یہ اس شرافت کا صلہ ہے‘ عدالت نے جس کا مظاہرہ کیا۔ بظاہر امیدوار ہی قصوروار تھا، وگرنہ الیکشن کمشن کے عملے کو کیا پڑی تھی کہ جعلی شناختی کارڈوں کو اصلی مانتا؟ کس چیز نے انہیں کائونٹر فائلوں پر دستخط کرنے سے روکا؟ فائدہ کسے پہنچا؟ اچھے جج شائستہ ہوا کرتے ہیں۔ شک کا فائدہ مدعا علیہ کو دیتے ہیں۔ یہ اخذ کرنا کیسے روا ہے کہ ایک ادارے کی غلطی کی سزا دوسرے کو دی گئی‘ یعنی امیدوار اور اس کی پارٹی کو۔ اگر وہ یہ قرار دیتے کہ بظاہر طاقتوروں کے ایما پر ایسا ہوا؟ نادرا کے چیئرمین نے کمال کیا کہ ایک کے بعد بن مانگے دوسری رپورٹ بھیجی۔ ازخود ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دھاندلی نہیں ہوئی... کس کی خواہش پر؟ 
11 مئی کی شب کو ناچیز نے کہا تھا کہ عمران خان‘ ایاز صادق سے ہار نہیں سکتے۔ عقلِ عام یہ بات کبھی مان نہیں سکتی۔ ان کی شخصیت میں کوئی کشش نہیں کہ ووٹر انہیں ترجیح دیں۔ کوئی قابل ذکر خدمات بھی نہیں۔ پھر یہ کہ قاف لیگ سے آنے والا پی ٹی آئی کا صوبائی اسمبلی کا امیدوار جیت گیا تو عمران خان کیسے ہار گئے؟ مان لیا کہ میاں اسلم گھلنے ملنے والے‘ خوش اخلاق آدمی ہیں مگر عمران خان کے مثبت نکات ان سے زیادہ ہیں۔ پشاور اور میانوالی میں وہ جیتے تو یہاں کیسے ہار گئے۔ اس آدمی سے جو کبھی ان کی پارٹی کا کارکن تھا۔ ایک بار میں نے ان سے پوچھا تھا کہ تحریک انصاف انہوں نے کیوں چھوڑی۔ ان کا جواب تھا: خان کو میں نے خط لکھا مگر جواب نہ ملا۔ اگر یہ بہانہ نہیں تو اور کیا ہے۔ نظریات سے اختلاف اور نہ کوئی اصولی مسئلہ۔ لیڈر کو جواب دینا چاہئے تھا۔ تعلق توڑنے میں اس طرح کے بہانے بچے کیا کرتے ہیں۔ چند ماہ ادھر میری پانچ سالہ پوتی اپنی ہم جولی سے اُلجھی تو اعلان کیا ''کٹی With This بچّی‘‘۔
جس معزز جج پر تعصب کا الزام لگایا گیا‘ ان کی شہرت اچھی ہے۔ میاں شہباز شریف نے انہیں پنجاب میں محکمۂ انسداد رشوت ستانی کا سربراہ بنانے کی پیشکش کی تھی۔ ظاہر ہے کہ نیک نامی اور حسنِ عمل کی بنا پر۔ نون لیگ کے طرز عمل نے اس زمانے کی یادیں تازہ کر دیں‘ جب اس نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا۔ حکمران پارٹی کا پیغام فی الجملہ یہ ہے کہ جو بھی ہماری راہ میں آئے گا تو اس کی مذّمت کی جائے گی۔ پیہم فتوحات کے بعد نون لیگ کی یہ پہلی بڑی شکست ہے۔ طویل عرصے کے بعد تحریک انصاف کی پہلی فتح۔ ظاہر ہے کہ اس موقع کو انہیں اپنے کارکنوں کی شکست خوردگی دور کرنے کے لئے استعمال کرنا تھا۔ سوکھے دھانوں پر پانی پڑا تو کچھ زیادہ ہی جشن منایا گیا۔ اس قدر برافروختہ ہونے کا مطلب کیا؟ نون لیگ تحریک انصاف کے مقابلے میں کہیں بڑی حقیقت اور کہیں بڑی سیاسی قوت ہے۔ جہانگیر ترین اور خواجہ آصف کی نشستوں پر بھی اگر نون لیگ کے خلاف فیصلے صادر ہوں تب بھی شریف خاندان کے اقتدار کو خطرہ نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس کی نفسیاتی بالاتری ختم ہو جائے گی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا ہو گا۔ اس کا علاج حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے میں ہے‘ جو سندھ کی بدعنوان اور پختونخوا کی ناتراشیدہ حکومت سے موازنہ کرکے سرفراز ہے۔ میاں شہباز شریف کے تجربے اور سیاسی اہلیت کا پرویزخٹک سے کیا مقابلہ؟
نون لیگ کے اخبار نویس بہت پریشان ہیں۔ نامعلوم کا خوف ازل سے آدمی کے ساتھ ہے۔ اس وقت جب جنگلوں اور ویرانوں میں وہ بے نوا تھا۔ شبوں کی تاریکی میں درندے دھاڑتے اور ہوائیں سرسرایا کرتیں۔ غیرمتوقع واقعات رونما ہونے کا اندیشہ آدمی کی سرشت میں ہے۔ مگر ایسا بھی کیا خوف؟ تجزیہ کاروں کو اپنے حواس سلامت رکھنے چاہئیں اور بلندی سے بات نہیں کرنی چاہئے۔ ایک صاحب تو ہم‘ بلوچستان پر لکھنے والوں سے بھی ناراض ہیں کہ کامیابی کی داد وفاقی حکومت کے لئے کیوں نہیں؟ بار بار انہیں داد دی ہے حضور!... اور بہت کھل کر۔ پرسوں شام ٹیلی ویژن پر عرض کیا کہ میاں محمد نواز شریف نے سیاسی طور پر بلوچستان میں بہت عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ حقدار مگر وہ بھی ہیں‘ جو میدان میں ہیں۔ ایک کی ستائش دوسرے کی تردید کیسے ہو گئی؟ اندر خوف چھپا ہے۔ 
فرمایا: این اے 122 پر صادر کئے گئے فیصلے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دوسرے حلقوں میں بھی گڑبڑ ہوئی۔ تو کیا یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف یہیں دھاندلی ہوئی؟ خواجہ سعد رفیق والے حلقے کے بعد اب 122 کے حقائق واشگاف ہونے کے بعد کسی بھی عاقل آدمی کا تاثر یہی ہو گا کہ دوسرے مقامات پر بھی ایسا ہوا ہو گا۔ دھاندلی کے باب میں دونوں پارٹیوں کا موقف توازن سے خالی ہے۔ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ہیرا پھیری نہ ہوتی تو وہ جیت جاتے۔ کس طرح جیت جاتے؟ ناقص امیدوار اور وہ بھی تاخیر سے چنے گئے۔ پارٹی تنظیم سے محروم اور دھڑے بندی کا شکار۔ اتنی زیادہ کہ راولپنڈی میں ان کے کارکنوں نے ایک دوسرے پر فائرنگ کی۔ پارٹی الیکشن میں پرلے درجے کی دھاندلی اور مالی بے ضابطگیاں اس کے سوا۔ اس پر مستزاد یہ کہ خود خان کے بقول 80 فیصد پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹ ہی نہ تھے۔ عدالتی کمشن نے بجا کہا کہ بے قاعدگیاں‘ اگر نہ بھی ہوتیں تو نتائج کم و بیش یہی ہوتے۔ اس کا مطلب مگر یہ نہیں کہ جہاں کہیں دھاندلی ہوئی، وہاں بھی سدّباب نہ کیا جائے۔ اصلاح کا عمل ایک تدریج کے ساتھ جاری رہنا چاہئے۔ اگر وہ عقلِ سلیم سے کام لیں‘ تحریک انصاف کو شریف کی حکومت اکھاڑ پھینکنے کی انتقامی خواہش سے دستبردار ہو جانا چاہئے۔ ان کی ناکامی کے اسباب اصلاً داخلی ہیں۔ پارٹی کی تنظیم اور کارکنوں کی تربیت پر توجہ نہ دی گئی تو آئندہ الیکشن میں بھی نتائج مختلف نہ ہوں گے۔ 
ریحام خان اگر جماعت کی انتخابی سیاست سے الگ ہو کر داخلی جھگڑے چکانے کی مہم پر نکلیں تو نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ پورے ملک کی خدمت کریں گی۔ یہ کام بہت تحمّل، منصوبہ بندی اور ریاضت چاہتا ہے۔ اول انہیں دشواری ہو گی لیکن اگر وہ کر گزریں تو یہ ایک عظیم کارنامہ ہو گا۔ ان کی زندگی کہیں زیادہ بامعنی ہو جائے گی۔
آدمی کا کردار اتنا ہی بڑا ہوتا ہے، جتنا بڑا اور اجلا خواب وہ دیکھ سکے۔ جتنا زیادہ اپنی شخصیت کو اعلیٰ مقاصد سے ہم آہنگ کر سکے۔ اللہ کی رحمت و برکت ان سوالوں کے ساتھ ہوتی ہے جو تمام لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ پھر جھگڑنے والوں میں ناراضی دور کرنا تو نہایت عالی شان کام ہے۔ سرکارؐ نے فرمایا: ''الصّلح خیر‘‘ مصالحت میں بھلائی ہے۔ تحریک انصاف کو اس پل صراط سے گزرنا ہے اور اسی میں اس کے مستقبل کا فیصلہ ہو گا۔
جج کاظم ملک خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی گئی؛ چنانچہ انہوں نے کمپیوٹر پر فیصلہ خود ٹائپ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں مزید، مضبوط نکات کا اضافہ کیا۔ اسی لئے تاخیر ہوئی۔ اگر یہ درست ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ ایسے ہی لوگ زمین کا نمک ہوتے ہیں۔ وہ معاشروں کی اخلاقی سربلندی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایک ایک زینہ طے کرتے ہوئے اقوام، اسی طرح سرخروئی کی منزل کو پا لیتی ہیں۔ پرویز رشیدوں کو زمانہ یاد نہیں رکھا کرتا۔
طوفان اٹھے تو تنکے اس کی راہ نہیں روکتے... اور شجر وہی سلامت رہتے ہیں، جن میں لچک ہو، جو جھک سکیں۔ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا عمل سب سے اچھا عمل ہے‘ اور ان کی تاویل شاید بدترین انداز فکر۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved