تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-08-2015

آخری سوال

میجر ایک دلچسپ آدمی ہے۔ آپ اس کے ساتھ بور تو ہو ہی نہیں سکتے۔ طبیعت میں جلدبازی ہے اور ہر کام میں پھرتی۔ پارہ سا بھرا لگتا ہے۔ متحرک اور سیماب صفت۔ گفتگو کا بھی یہی عالم ہے‘ ایک موضوع ختم ہوا اور دوسرا شروع۔ ایک سوال مکمل کیا اور دوسرا تیار۔ آپ نے جواب دینے میں ذرا تاخیر کی تو ادھر سے ایک جواب بھی ساتھ ہی آ جاتا ہے۔ میجر جب فوج سے ریٹائر ہوتا ہے تو ابھی جوان ہوتا ہے۔ برسوں گزرے میجر ریٹائر ہو کر برطانیہ آیا اور پھر یہیں کا ہوگیا۔ ابھی جوان ہے‘ دیکھنے میں بھی اور طبیعت کے حوالے سے بھی۔ سارا دن ساتھ رہیں تو بھی طبیعت میں تکدر پیدا نہیں ہوتا۔ میں میجر کے ساتھ خوش رہتا ہوں۔ میرے حساب سے میجر میں بس ایک خرابی ہے۔ وہ سوال بہت کرتا ہے ۔ مزید خراب بات یہ ہے کہ وہ عموماً اس موضوع پر زیادہ سوالات کرتا ہے جس میں اس کے پاس خود خاصی معلومات ہوتی ہیں۔ جس بات کا اسے علم نہ ہو اس بارے میں تو سوال کرنا اس کے نزدیک گناہ ہے۔ جس بات کا اسے سارا پتا ہو اس کی تصدیق کے لئے سوالات کرے گا اور جس بارے میں کچھ شکوک و شبہات ہوں اسے کنفرم کرنے اور خالی جگہیں پر کرنے کے لئے سوالات کرے گا۔
جتنی باتوں کا اسے پتا ہوتا ہے اس کے بارے میں سوال کرنے کا کوئی تک نہیں بنتا مگر بعض اوقات وہ دوسرے کو محض زچ کرنے کے لئے سوالات کرتا ہے۔ میرے ساتھ تو خیر ایسا معاملہ ہرگز نہیں مگر اسے شبہ ہے کہ میرے کچھ دوست خاصے باعلم اور باخبر ہیں۔ اسے گمان ہے کہ مجھے کچھ اندر کی باتوں کا پتا ہوتا ہے مگر میں جان بوجھ کر انجان بنا رہتا ہوں اور لاعلم ہونے کا ڈرامہ کرتا ہوں۔ میں جتنا یقین دلائوں کہ میرے دوست بھی میری طرح ویسے ہی کورے ہیں جیسے نظر آتے ہیں مگر میجر میری بات پر یقین کرنے کے بجائے مجھے ایسے ایسے لوگوں کے قصے سناتا ہے جو خود بڑے اندر کے آدمی تھے مگر ایسے انجان اور لاعلم بن کر برسوں تک اپنی پہچان چھپا کر اپنا کام کرتے رہے۔ پھر ساری کہانی سنا کر کہے گا‘ اچھا چھوڑو‘ تم نہیں بتانا چاہتے تو تمہاری مرضی‘ ہمیں آج نہیں تو کل پتا چل جائے گا‘ چیزیں دیر تک چھپی تھوڑی رہتی ہیں۔ چلیں کوئی اور بات کرتے 
ہیں۔ میں بھی تمہیں بہت سی باتیں نہیں بتاتا‘ ہر بات بتائی بھی نہیں جا سکتی اور بتانی بھی نہیں چاہئے۔ میں بے بسی سے مسکرا دیتا ہوں‘ وہ آگے سے اس سے بھی زیادہ زور سے مسکراتا ہے اور کہتا ہے‘ تم اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہونے کے بجائے لطف لیتے ہو‘ تم ایک کھچرے آدمی ہو۔ مجھے کبھی کبھی اس کی اس بے اعتباری پر غصہ آتا ہے۔ ایسے میں وہ ہمیشہ کہتا ہے کہ یار میں مذاق کر رہا تھا‘ تم سیریس ہوگئے ہو۔ مجھے پتا ہے کہ اسے یقین نہیں آیا مگر وہ بات کو بدمزہ کرنے کے بجائے خوشگوار موڑ دے کر ختم کرتا ہے اور پھر سوالات شروع کر دیتا ہے۔ درمیان میں اپنا تھیسس پیش کرتا ہے‘ اختلاف کرتا ہے‘ اپنی معلومات کے حوالے سے بندے کو گھیرتا ہے اور اس دوران چیزوں کے بہت سے پوشیدہ گوشے سامنے لاتا ہے۔ مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں رتی برابر تامل نہیں کہ میجر ایک ذہین‘ پڑھا لکھا‘ حاضر جواب اور بڑے تخلیقی ذہن کا آدمی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کھرا اور سادہ طبیعت شخص ہے۔ برطانیہ میں اس سے ملنا مسرت کا باعث ہوتا ہے۔
دو چار دن پہلے ملا تو سلام دعا کے بعد چھوٹتے ہی پوچھنے لگا‘ یہ مشاہداللہ کے ساتھ کیا ہوا؟ میں نے کہا‘ میجر یہ قصہ پرانا ہوگیا ہے‘ اب اس پر بات کرنے کا کیا فائدہ؟ سب کچھ تمہارے سامنے ہے۔ یہ واقعہ میرے پاکستان سے آنے کے کہیں بعد ہوا ہے۔ اس بارے میں میرا علم تو تم سے بھی کہیں کم ہے۔ تم باقاعدگی سے خبریں سنتے ہو‘ چار چھ آن لائن اخبار دیکھتے ہو‘ اپنے دفتر میں درجن بھر لوگوں سے بحث مباحثہ کرتے ہو‘ بھلا میں تم کو کیا بتا سکتا ہوں؟ میرا مبلغ علم اتنا ہے کہ مشاہداللہ نے ایک پنجابی محاورے کے مطابق زبان کی ''کھٹی‘‘ کھائی ہے‘ یعنی زبان کی کمائی کھائی ہے اور اب اسی زبان سے کھودی گئی کھائی میں جا پڑے ہیں۔ زبان کی کاٹ سے اپنے حریفوں کو ادھیڑا کرتے تھے۔ ٹی وی مذاکروں میں‘ ٹاک شوز میں اسی زبان کی تیزی کے زور پر مخالفوں کو ڈھیر اور بعض اوقات باقاعدہ اپنی بدزبانی سے حیران‘ پریشان اور بے زبان کرکے رکھ دیتے تھے۔ زبان کی تلوار کے زور پر ہمہ وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار حریفوں کے پرخچے اڑانے میں مصروف رہتے تھے۔ بنیادی طور پر انتھک ورکر تھے۔ ساری سیاسی تربیت جماعت اسلامی کی پی آئی اے میں مزدور تنظیم پیاسی میں رہ کر حاصل کی۔ آگے جانے کی لگن اور سمجھداری کے حسین امتزاج کے مالک تھے۔ ایک زمانہ تھا جب جماعت اسلامی کی ذیلی لیبر تنظیم نیشنل لیبر فیڈریشن (این ایل ایف) بڑی متحرک تھی اور پاکستان کے بڑے بڑے صنعتی اور دیگر اداروں میں اس کا طوطی بولتا تھا۔ ریلوے اور پی آئی اے میں اس کی سی بی اے یونینز تھیں۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ان کا زور تھا۔ واپڈا کے علاوہ تقریباً ہر بڑی لیبر یونین ان کی ہوتی تھی۔ تب مشاہداللہ پیاسی کے لیڈر تھے‘ سمجھدار تھے‘ ہوا کا رخ پہچانتے تھے۔ بہانہ مار کر جماعت والوں سے پھڈا ڈال لیا‘ پہلے ایک علیحدہ دھڑا بنایا‘ کافی عرصہ انہیں خوار کیا‘ دھڑے بندی سے جب پیاسی اچھی طرح برباد ہوگئی تو پھر یہ دکان بند کردی‘ تاہم ان کے دو بھائی پی آئی اے میں ہی رہے۔ مرحوم مقصود خان بتاتا تھا کہ انہیں سکوٹر پر سواری کرتے تو ایک عرصہ اس نے بچشم خود دیکھا۔ پھر میاں صاحب کو پیارے ہوگئے۔ جماعت اسلامی کی تربیت کے طفیل سیاسی ورکر کے طور پر کسی سے کم نہیں تھے۔ کراچی میں جن لوگوں نے مشکل دنوں میں میاں صاحب کا ساتھ دیا‘ مشاہداللہ ان میں نمایاں ہی نہیں بلکہ فرنٹ لائن پر تھے۔ اپنی زبان کے کوڑوں سے مخالفین کی چمڑیاں ادھیڑنے کی خوبی کے طفیل مسلم لیگ ن کے سیکرٹری اطلاعات بنے۔ مسلم لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد سینیٹر بنے ۔ اپنے بھائیوں کو پچھلی تاریخوں سے پی آئی اے میں ترقی دلوائی۔ ساجد اللہ خان کو گریڈ سات سے آٹھ میں اور راشد اللہ خان کو گریڈ آٹھ سے نو میں 2007ء سے ترقی دلوائی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ترقی کسی پروموشن بورڈ کے بغیر کی گئی۔ دونوں بھائیوں کا دعویٰ تھا کہ ان سے پہلے ناانصافی ہوئی ہے اور اب انصاف ملا ہے۔ انہیں پی پی پی کے دور میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
میجر کہنے لگا‘ میں نے تو ایک چھوٹا سا سوال کیا تھا تم نے ڈیڑھ گھنٹے کا بھاشن سنا مارا۔ میرا حوصلہ دیکھو‘ میں ان میں سے نوے فیصد باتیں جانتا تھا مگر میں نے تمہیں ایک لمحے کے لئے نہیں ٹوکا۔ کافی ساری باتیں غیر متعلق تھیں مگر میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا۔ پہلے تم میرے حوصلے‘ صبر اور قوت برداشت کی داد دو اور پھر ٹامی ٹٹو والا قصہ سنائو۔ جہاں تمہاری ا تنی ''بے فضول‘‘ گفتگو سنی ہے تھوڑی اور سہی۔ میں نے کہا لمبی گفتگو کی معذرت‘ مگر تم کب سے اتنے بامروت ہوگئے ہو کہ خاموشی سے بات سنتے رہو۔ درمیان میں روک دینا تھا۔ کہنے لگا‘ تم سے کونسی روز روز ملاقات ہوتی ہے۔ ویسے میں اس انتظار میں تھا کہ شاید اس دوران تم کوئی ایسی بات بتا دو جو اندر کی ہو مگر تم نے سوائے وقت ضائع کرنے کے اور کچھ نہیں کیا۔ اچھا اب ٹامی ٹٹو والا قصہ سنائو۔ میں نے کہا‘ یہ بڑا لطیفہ ہے۔ ٹامی نام کا ایک ٹٹو فوج میں باربرداری کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ اس کی قبر کا کتبہ اصل چیز ہے‘ جس پر لکھا تھا کہ'' اس جگہ ٹامی ٹٹو دفن ہے جس نے یونٹ نمبرچھپن میں نو سال تک باربرداری کا فریضہ سرانجام دیا۔ مرحوم نے اپنی نو سولہ فوجی سروس کے دوران بائیس سپاہیوں‘ گیارہ لیفٹیننٹوں‘ تیرہ کپتانوں‘ دو میجروں‘ چار کرنلوں‘ ایک بریگیڈیئر اور ایک جنرل کو دولتی ماری۔ مرحوم نے آخری دولتی چار جون انیس سو چوالیس کو ایک بارودی سرنگ کو ماری‘‘۔ اپنے مشاہداللہ خان کے ساتھ یہی ہوا ہے۔
میجر کہنے لگا‘ کیا اس کا بیان سچا تھا یا جھوٹا؟ میں نے کہا پتا نہیں۔ میجر بولا‘ اس نے ہوائی تو نہیں چھوڑی ہوگی‘ کچھ نہ کچھ تو بات ہوئی ہوگی‘ کوئی ٹیپ کا قصہ تو ہوگا۔ میں نے کہا‘ میجر تم ریٹائر ہوگئے ہو مگر عادتیں قبر تک چلتی ہیں۔ بھلا ٹیپ کا وجود کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟ وزیراعظم نے ایکشن لیا اور استعفیٰ طلب کرلیا۔ پرویز رشید نے ایسی کسی ٹیپ کے وجود سے ہی انکار کردیا اور کہا کہ نہ ایسی کوئی ٹیپ موجود ہے اور نہ ہی کہیں اس کے بارے میں کوئی بات ہوئی ہے۔ میجر کہنے لگا تو تمہارا خیال ہے مشاہداللہ خان نے ہوائی چھوڑی تھی؟ میں نے کہا ‘اس طرح سے ملتی جلتی بات خواجہ آصف نے بھی کہی تھی۔ تختہ الٹنے کی نہیں مگر جنرل ظہیرالاسلام کا نام لیا تھا۔ مشاہداللہ نے اس سے بڑھ کر بات کرنے کے چکر میں سیدھا تختہ الٹنے کی سازش کا انکشاف کر مارا۔ مشاہداللہ خواجہ آصف سے بڑھ کر انکشاف کرنے کے چکر میں مارا گیا۔ میجر ہنسا اور کہنے لگا‘ بھولے بادشاہ! بھلا کسی نے ماننا تھا کہ کوئی ٹیپ موجود ہے؟ اگر مان لیتے تو مارے جاتے کہ کس کی جرأت ہے کہ اوپر والوں کے فون ٹیپ کرے؟ اب ایکشن نہ لیں تو مصیبت اور مان لیں تو اس سے بڑی مصیبت۔ آگے کھائی پیچھے دیوار‘ کہاں جائیں؟ سو مشاہداللہ کو قربان کردیا گیا بلکہ صرف وزارت قربان ہوئی سینیٹری تو موجود ہے۔
پھر کہنے لگا‘ اچھا ایک سوال کا جواب بتائو‘ یہ بالکل آخری سوال ہے۔ میاں صاحب اس صورتحال پر بھائی لوگوں سے ناخوش ہیں‘ بھائی لوگ سیاستدانوں کے معاملات سے ناخوش ہیں۔ سیاستدان اور بیوروکریسی کرپشن کے خلاف اقدامات سے ناخوش ہے۔ طالبان اینڈ کمپنی آپریشن ضرب عضب سے ناخوش ہے۔ جنرل راحیل شریف نوازشریف سے زیادہ پاپولر ہیں۔ جمہوریت اس بات پر بھی ناخوش ہے۔ اب یہ سارا معاملہ کب تک چلتا رہے گا؟ میں نے کہا‘ میجر انشاء اللہ زندگی رہی تو پھر ملاقات ہوگی۔ اب اجازت دو۔ اللہ حافظ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved