اصل موضوع پر کچھ کہنے سے پہلے ایک ضمنی اور ضروری بات۔ بعض اوقات میرے کچھ دوست آ کر مجھے کہتے ہیں‘ آج فیس بک پر فلاں صاحب نے آپ کے خلاف لکھا ہے۔ میں کہتا ہوں اگر خلاف لکھا ہے تو اس میں کون سی قیامت آگئی‘ میں ایک پبلک پراپرٹی ہوں‘ جو کچھ میں لکھتا اور کہتا ہوں اس پر رائے دینے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے‘ مخالف بھی اور موافق بھی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ موافق رائے ہی آپ کے مخالف ہوتی ہے کیونکہ موافق یا تعریفی رائے تو آپ کے راستے کی دیوار بن جاتی ہے جو آپ کو تبدیل ہونے اور آگے بڑھنے سے روکتی ہے کہ تعریف تو ایک ایسی آہنی ٹوپی ہے جو آپ کے سر پر رکھ دی جائے تو آپ کی نشوونما روک کر آپ کو دولے شاہ کا چوہا بنا کر رکھ دیتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے فیصل آباد سے ایک دوست! شاید ثناء اللہ ظہیر نے کہا تھا کہ آپ نے جس شاعر کی تعریف کردی‘ اس کے بعد اس نے اچھا شعر نہیں کہا! ظاہر ہے کہ یہ محض مذاق کی بات نہیں بلکہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے!
کل والے کالم میں میں نے جو کچھ عرض کیا تھا اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں نئے شعراء کو اس کام کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہوں جسے میں خود کرنا پسند نہیں کرتا‘ چند ماہ پہلے لاہور ہی کے ایک رسالے میں میری یہ غزل شائع ہوئی تھی:
کبھی انار درخت ہیں
کبھی شرار درخت ہیں
پو سی پھوٹ رہی ہے کیا
صبح آثار درخت ہیں
آسمان پر اُگے ہوئے
سدا بہار درخت ہیں
یہ انکار درخت ہیں
یا اقرار درخت ہیں
چھائوں دے رہے یہاں تک
دریا پار درخت ہیں
زرد ہیں اپنی خوشی سے
یا بیمار درخت ہیں
اپنے تو اس دھوپ میں
بس یہ چار درخت ہیں
دیتے ہیں سب کی خبر
کیا اخبار درخت ہیں
ایک قطار میں ظفرؔ
پانچ ہزار درخت ہیں
رسالے کے بعد کے شمارے میں محبی جمیل یوسف کا ایک مکتوب شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ شاعری ہے؟ اور یہ کہ ظفراقبال اگر اس غزل سے اپنا نام ہٹا کر بھیجتے تو کیا کوئی ایڈیٹر یہ غزل چھاپتا؟ یقینا نہ چھاپتا۔ بلکہ اگر جمیل یوسف اسے اپنے نام سے بھیجتے تو بھی کبھی نہ چھاپتا۔ البتہ میرے نام سے یہ غزل پورے ذوق و شوق سے چھاپتا کیونکہ میری ایک اتھارٹی ہے اور اتھارٹی بنی بنائی نہیں ملتی۔ بنانی اور کمانی پڑتی ہے۔
میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ یار لوگ عمر بھر ایک ہی طرح کی شاعری کیسے کرتے رہتے ہیں۔ بیشک آلو گوشت آپ کی پسندیدہ ترین ڈش ہو‘ لیکن کیا آلو گوشت ہر روز بھی کھایا جا سکتا ہے؟ مجھے تو اگر یہ ڈش ہر روز کھانی پڑ جائے تو میں چیخیں مارتا ہوا گھر سے ہی نکل جائوں‘ تاہم میں ان دوستوں کو آلو گوشت کھانے اور کھاتے چلے جانے سے منع بھی نہیں کرتا کہ وہ اگر اس ڈش پر لگے ہوئے ہیں تو موجیں کریں‘ میرا کیا لیتے ہیں‘ مجھے تو کبھی دال بھی بہت مزہ دیتی ہے۔ ایسی ہی ایک اور کاوش ملاحظہ ہو:
آنکھوں پار ستارہ تھا
کیا دُمدار ستارہ تھا
پیلا پیلا لگا مجھے
کچھ بیمار ستارہ تھا
کیسی گرد سے اٹا ہوا
ایک غبار ستارہ تھا
اندر کی بارش تھی کوئی
دھاروں دھار ستارہ تھا
آگے آگے تھا سب سے
خوش رفتار ستارہ تھا
پھلجھڑیاں سی پھوٹی تھیں
کوئی انار ستارہ تھا
رستا بھول گئے ہم بھی
اپنا یار ستارہ تھا
ڈوب گیا یا ٹوٹ گرا
ایسا پیار ستارہ تھا
چمکا نہیں ظفرؔ کچھ بھی
کیا بے کار ستارہ تھا
ایسی کئی اور بہت سی مثالیں دستیاب ہیں۔ بقول جناب جمیل یوسف اگر یہ واقعی شاعری نہیں ہے تو یہ موجودہ آلو گوشت شاعری سے نئی شاعری کے درمیان شاید کسی پل کا کام بھی دے جائے۔ مجھ سے نالاں اکثر دوستوں کو یہی شکایت ہے کہ میں اس طرح کی شاعری کیوں نہیں کرتا جیسی شاعری وہ کرتے ہیں‘ حالانکہ اگر میں ایسا کروں بھی تو اس کا فائدہ کیا ہوگا۔ گھر میں اگر دو کلاک لگے ہوں اور دونوں ایک ہی وقت دے رہے ہوں تو ایک ہی کافی ہے‘ دوسرے کی کیا ضرورت ہے۔ نیز یہ کہ آلو گوشت ٹائپ شاعری تو میں خود ٹنوں کے حساب سے کر چکا ہوں‘ کیا وہ میرے یا ان دوستوں کے لئے کافی نہیں جو ایسی شاعری کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ بہت زور لگا کر کہی گئی اور مضمون یا موضوع کے بوجھ تلے دبی اور کراہتی ہوئی شاعری سے مجھے الرجی ہے تو یہ میرا مسئلہ ہے دوسروں کا نہیں‘ کیونکہ میں دوسروں کے کام میں مداخلت کرنا نہ تو پسند کرتا ہوں اور نہ ہی اس پر خوامخواہ کُڑھتا رہتا ہوں۔
سو اپنے اس مطلع کے مطابق کہ ؎
چکراتا ہے سارا کچھ
میرا اور تمہارا کچھ
اگر یہ مجھے ایک جگہ ٹکے رہنے نہیں دیتا تو اس کی پریشانی مجھے ہونی چاہئے نہ کہ کسی اور کو‘ شعر میں پوری بات کہنا کبھی بھی مستحسن نہیں رہا بلکہ اب تو آدھی بات کہنے کا رواج بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے‘ حتیٰ کہ بات نہ کہنے میں جو مزہ ہے وہ آدھی میں بھی نہیں۔ یعنی آپ بس بات کے قریب سے ہو کر گزر جائیں‘ یعنی ؎
وہ کسی کے پاس رکنے اور ٹھہرنے میں کہاں
جو مزہ نزدیک سے ہو کر گزر جانے میں ہے
نیز‘ شاعری کا منصب اگر حسن کی تخلیق ہے تو یہ شعر میں سو طریقوں سے کی جا سکتی ہے جبکہ معنی کے علاوہ بھی شعر میں اور بہت کچھ ہوتا ہے‘ جس سے تخلیق حسن کے تقاضے جس حد تک بھی پورے ہوتے ہوں‘ ایک بھارتی نقاد کے بقول شعر وہ ہے جسے پڑھ یا سن کر آپ کے آنسو نکل آئیں۔ گویا شعر سے گلیسرین کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ سو‘ شعر اگر آپ کو رونے دھونے میں مبتلا کرنے کی بجائے کوئی خوشی مہیا کرے تو کیا اسے دائرہ شعر سے نکال دیا جائے؟
شاعری کا مزاج‘ موسم اور فیشن ہر دس بیس سال بعد خود ہی تبدیل ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی خصوصی تردد کرنا بھی نہیں پڑتا‘ کسی کو اچھا لگے یا برا ‘اور اگر کوئی اپنا حرف لکھتا ہے یا اپنی بات کرتا ہے تو اس پر رحم کھانے کی بجائے‘ بہتر ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور یہ اگر تخریب کاری ہے اور اس تعمیر کے خلاف ہے‘ جو بجائے خود ہی معرضِ سوال میں ہو تو آنے والا وقت خود جھوٹ سچ کو الگ الگ کر دیتا ہے۔
آج کا مقطع
میں ایک قطرے کو دریا بنا رہا ہوں‘ ظفر
اور اس کے بعد اسے میں نے پار کرنا ہے