تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     25-08-2015

اشرف المخلوقات

ہمیشہ وہ عقل و دانش کی بات کیاکرتا۔ اچھا بھلا پڑھا لکھا بندہ جو انسانی تاریخ اور جدید علوم پہ گہری نگاہ رکھتا تھا۔ ان اصولوں کو وہ بخوبی سمجھتا تھا ، جن کی بنیاد پر یہ کائنات رواں دواں ہے ۔ انسانی جسم، طبیعیات، کیمیا، فلکیات، ریاضی،انجینئرنگ ،سبھی کے بنیادی اصول اس نے پڑھ رکھے تھے ۔ اس نے ا نسانی دماغ کا مطالعہ کیا تھا۔ پھر وہ نینو ٹیکنالوجی جیسی جدید سائنس میں ہونے والی پیش رفت پر بھی نظر رکھتاتھا۔اسی لیے تو تحصیلِ علم کے لیے میں اس کے پاس جایا کرتا۔ اس پسِ منظر کے آدمی نے اس روز جب یہ کہا کہ بنیادی طور پر انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں تو میرا خون کھول اٹھا...ایسی جاہلانہ بات! حیرت اور صدمے سے میں اس کا منہ تکتا رہ گیا۔
میں نے اس سے یہ کہا :انسان اور جانور برابر نہیں ۔ کوئی جانور ستر نہیں ڈھانکتا۔ انسان تو خوش لباس ہے ۔ کوئی جانور کلام نہیں کرتا۔ انسان خوش کلام ہے ۔وہ اپنا مافی الضمیر ہی بیان نہیں کرتا بلکہ فصاحت کے موتی لٹاتا ہے ۔ وہ شاعری کرتاہے ۔وہ کائنا ت کو دیکھتا ہی نہیں ، اسے بیان بھی کرتا ہے ۔جانور بڑی کمتر ترجیحات پہ زندہ رہتاہے ۔ وہ خوراک اور افزائشِ نسل تک محدود ہے ۔
اس اثنا میں ، میں نے دیکھا کہ میری اس مدلل گفتگو پر پیہم وہ مسکرا رہا ہے ۔ میں برہم ہوا، آواز بلند ہونے لگی ۔
میں نے اس سے یہ کہا :ہزاروں سال سے انسان سیکھتا، سمجھتا ،
تحقیق کرتا آیا ہے...اور یہ سب وہ آئندہ نسل کو منتقل کرتاہے ۔ جو راز ایک انسان نے دریافت کیا ، گویا پوری انسانیت نے اسے جان لیا۔ طب کے میدان میں نہ صرف اس نے اپنے جسم میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا علاج ڈھونڈا بلکہ اس نے حیوانوں کو معالج مہیا کیے ۔ اس نے اس کرۂ خاک اور اس کائنات پہ غو ر و فکر کیا۔ اس نے اینٹ پہ اینٹ رکھی اور فلک شگاف عمارتیں اٹھائیں ۔ اس نے پہیہ بنایا، انجن ایجاد کیا۔ وہ وقت اور زمانے (Time and Space)میں برق رفتاری سے ایک سے دوسرے مقام پر پہنچنے لگا۔ اس نے ریاضی کے اصول سیکھے ، کرنٹ دریافت کیا۔ روشنی کی رفتار سے ، دنیا کے ایک سرے سے دوسرے تک ڈیٹا منتقل کیا۔ ساری انسانی نسل تحقیق اور علم کا باہم تبادلہ کرنے لگی ۔ آدمی خلا میں گیا ۔ وہ کائنات کو جانچنے لگا۔ 
یہاں پہنچ کر میں نے اس کی طرف دیکھا تووہ باقاعدہ ہنس رہا تھا۔
میں نے اس سے یہ کہا: مجھے تو یوں لگتاہے کہ تمہارے اندر کسی جانور کی روح حلول کر گئی ہے ۔ اپنی جہالت کو تم پوری انسانیت پہ منطبق کرنا چاہتے ہو ۔کس قدر گھنائونے ہو تم۔ کیا کوئی جانور ایٹم دریافت کرنے ، اسے توڑنے کا تصور بھی کر سکتا تھا۔ کس نے توانائی کے ذخائر دریافت کیے ۔کس نے توانائی کی ایک شکل کو دوسری میں تبدیل کیا ۔ زیرِ زمین مفید دھاتیں کس نے نکالیں ۔ کس نے پانی ، تیل او رایٹم کی قوّت سے فائدہ اٹھایا۔ یہ انسان ہی تو ہے ، جس کی بدولت یہ کرۂ ارض رات کو بھی جگمگاتاہے ۔ خون کی قسمیں کس نے دریافت کیں ۔ کس نے ایک سے دوسرے جاندار میں اعضا کی منتقلی (Transplantation)ممکن بنائی ۔ 
اس نے اپنی آنکھوں سے بہتا ہواپانی اپنے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا اور گویا ہوا: یورپ جائو اور جس خوش لباس انسان کی تم تعریف کر رہے ہو، اب اس کا جائزہ لو۔ خوش کلام انسان جب گالم گلوچ پہ اترتا ہے تو سماعت شرمسار ہوتی ہے ۔ جس انسان نے ایٹم کی قوّ ت دریافت کی، اس نے اپنے ہی ہم نسلوں پر جوہری ہتھیارپھینکے ۔ انسان نے جانوروں کو معالج فراہم کیے ۔ فقط اس لیے کہ ان کی افزائشِ نسل سے مستفید ہو۔ ان کا دودھ پیئے ، گوشت کھائے اور سواری کرے ۔ سب حیوانی نسلوں کا اس نے استحصال کیا۔ جب وہ ڈیٹا دنیا کے ایک سرے سے دوسرے تک منتقل کرنے لگا تو اس نے ایسے ایسے جرائم ایجاد کیے ، جن کا تصور بھی محال تھا۔ اس نے زیرِ زمین لوہا نکالا ، اس سے ٹینک اور میزائل بنائے اور خون بہایا۔ کائنات کو تو خیر اس نے کیا سمجھنا تھا، تیل ، کوئلہ ، گیس جلا کر ، جنگلات کاٹ کر اس نے کرۂ ارض کا نازک توازن بگاڑا؛حتیٰ کہ درجۂ حرارت بڑھنے لگا ۔ گلیشئر پگھلنے سے سمندر بلند ہونے لگے۔ دنیا بھر سے بیس ہزار سائنسدان امریکہ جمع ہوئے۔انہوں نے یہ اعلان کیا کہ مغربی انٹارکٹکا میں برف کے پہاڑ اب ٹوٹ کر رہیں گے ۔ عالمی سطح پر پانی بارہ سے سولہ فٹ بلند ہو گا ۔ دو صدیوں بعد جزائر پر واقع ممالک او رساحلی شہر ڈوبنا شروع ہو جائیں گے ۔
''انسان اشرف المخلوقات ہے‘ ‘میں نے چیخ کر کہا۔ ''وہ غو ر و فکر کرتاہے ‘‘۔ ''تمہاری اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں‘‘اس نے سر کھجا کر کہا ''غور و فکر کرنے والا انسان افضل ہے لیکن تمہارا کیا خیال ہے کہ یورپ کے ساحل پر لباس کی قید سے آزاد انسان اشرف المخلوقات ہے ؟ کیا ایٹم بم گرانے والا افضل ہے ؟ آج کا مسلمان، جسے علم ، تحقیق اور تدبّر سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ؟آج اس کرۂ خاک کے سات ارب آدمیوں میں سے کتنے ہیں ، جنہیں پیٹ سے آگے کی بھی کچھ سوجھتی ہے ۔ ‘‘
شدید غصے کے باوجود میں لاجواب ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اس نے یہ کہا ''بجا کہ آج کا انسان مادی طور پر دوسرے جانوروں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے لیکن کیا انسان نے اپنا دماغ خود بنایا یا یہ خالق کی عطا ہے؟۔اگر پیدائشی طور پر وہ دوسروں سے زیادہ ذہین واقع ہوا ہے تو اس میں اس کا اپنا کیا کمال ؟ میری نظر میں تو وہی کامیاب ہے ، جس کی عقل خدا تک رسائی حاصل کرتی ہے اور رفتہ رفتہ بتدریج وہ بہتر ترجیحات تک پہنچتا ہے ۔انسان اور جانور ایک طرح سے پید اہوتے ، ایک طرح بوڑھے ہوتے اور ایک ہی انداز میں مرتے ہیں ۔اس دوران محض اچھا کھانے یا مضبوط مسکن میں رہنے کی بنا پر کوئی دوسرے سے برتر نہیں کہلا سکتا۔ ‘‘
اس دن کے بعد دوبارہ میں اس کی طرف نہیں گیا۔ انسان اعلیٰ و افضل ہے ، اس میں شک و شبے کی گنجائش ہی نہیں ۔اب اگر اس جواں عمری میں وہ سٹھیا گیا ہے تو میرا اس میں کیا قصور۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved