تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-08-2015

تو کیا ہو گا؟

مولانا فضل الرحمن‘ پاکستان کے بڑے بڑے مسائل چٹکی میں حل کر لیتے ہیں۔ایک ہی چھت کے نیچے ‘ ایک ہی سانس میں‘ دو متضاد موقف اختیار کر کے‘ باری باری ہر فریق کو خوش کر لیتے ہیں۔ جب نوازحکومت کی ضرورت تھی کہ عمران خان کو ''کٹ ٹو دی سائز‘‘ کیا جائے‘ تو مولانا کی خدمات حاصل کی گئیں۔ وہ اسی طرح کے غصے میں آئے ‘ جس کی ایک وفاقی وزیرنے کامیابی کے ساتھ نقل کی۔ مولانا کی ڈیوٹی لگی تھی کہ عمران خان جو کہ بڑھتے چلے آ رہے ہیں‘ انہیں الٹے قدموں واپس کر دیا جائے۔ مولانا نے اتنی غرّاتی ہوئی اصول پسندی دکھائی کہ ان کی آنکھیں لال ہو گئیں۔ بال کھڑے ہو گئے۔ ایڑیاں اوپر اٹھ گئیں اور عمران خان پر اس بری طرح سے برسے‘ جیسے پہاڑوں پر بارش برستی ہے۔ قومی اسمبلی کے ہال میں ہرطرف ندی نالے بہنے لگے اور مولانا کی تقریر کے الفاظ‘ آبشاروں کی طرح گر رہے تھے۔ یہاں مجھے مولانا کے غم و غصے کی ایک مثال دینی پڑے گی۔ کہتے ہیں کہ جب کوئی اداکار انتہائی کمال کی پرفارمنس دیتا ہے‘ تو لوگ اس کے ایکشن کو شوق سے دہراتے ہیں۔ سپیکر ایاز صادق کے کیس کا جب فیصلہ آیا‘ تو انہوں نے انتہائی تحمل‘ صبر اور وقار کے ساتھ سنا اور غیرمشروط طور پر کہہ دیا کہ وہ اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔ مجھے شک ہے کہ مولانا کہیں آس پاس کھڑے ہوں گے اور انہوں نے سرگوشی میں کہا ہو گا ''تحفظات۔ تحفظات۔ تحفظات۔‘‘ ایاز صادق صاحب نے‘ فوراً ہی یہ لفظ کیچ کرتے ہوئے فرما دیا کہ ''فیصلہ مجھے قبول ہے۔ لیکن میرے کچھ تحفظات ہیں۔‘‘ پاکستانی سیاست میں تحفظات کی یہ ترکیب اتنی مقبول ہوئی ہے کہ پہلے اسے صرف مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم استعمال کیا کرتے‘ اب سردار ایاز صادق بھی‘ اسی زلف کے اسیر ہوئے ؎
ہم ہوئے ‘تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
مولانا نے نے ''تحفظات‘‘ کو روزمرہ گفتگو کا حصہ بنا دیا ہے۔ گفتگو کسی کی ہو ‘مولانا اسے سنتے ہوئے ہر بات سے اتفاق کرتے جائیں گے‘ مگر آخر میں فرمائیں گے''ہمارے بھی کچھ تحفظات ہیں۔‘‘ سردار ایاز صادق‘ بہرحال ایک مہذب اور اعلیٰ تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے تحفظات کالفظ یوں بولا ‘ جیسے انگریز ''پلیز!‘‘ کہتے ہیں۔ 
لیکن جس وفاقی وزیرنے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے پر رائے زنی کی‘ وہ تو گویا جھولی میں پتھر بھر کے آئے تھے۔ ایک ایک پتھر نشانہ باندھ کر‘ انہوں نے جسٹس (ر) کاظم علی ملک کی طرف یوں پھینکا کہ لوگ احمد رضا قصوری کو بھول گئے۔فرق صرف اتنا تھا کہ قصوری صاحب کی آواز میں گھن گرج ہوتی ہے۔وزیرموصوف کا غم و غصہ دیدنی تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے مظہرشاہ کا مکالمہ ''اوئے! میں ٹبر کھا جاں‘ تے ڈکار نہ ماراں‘‘ اور آواز فردوس یا سلونی کی ہو۔ یہ فیصلہ ایاز صادق کے خلاف آیا تھا‘ غصے میں فردوس تلملا رہی تھی۔ بڑھک بھی کسی کسی کے منہ سے اچھی لگتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں میں سب سے اچھی بڑھک الطاف حسین یا خواجہ آصف لگاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ الطاف بھائی ‘جس کمرے میں بولتے ہیں‘ اس کے درودیوار ہلا دیتے ہیں اور خواجہ صاحب جب گرجتے ہیں‘ تو لرزتے بھی خود ہیں۔ 
بہرحال مولانا نے روٹھی ہوئی‘ ایم کیو ایم کو اتنی آسانی سے منا لیا‘ جیسے طیش میں آئے ہوئے مخالفین کو نوازشریف منا لیتے ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ دوسروں کا غصہ اتارنے میں نوازشریف کو زیادہ مہارت حاصل ہے یا مولانا فضل الرحمن کو؟ مولانا برسوں سے کشمیر کمیٹی کے سربراہ چلے آ رہے ہیں‘لیکن ان کی شہد جیسی میٹھی گفتگو‘ تنازعہ کشمیر میں ہمارے کام کیوں نہیں آ سکی؟ بھارتی لیڈر کتنے ہی بدتمیز کیوں نہ ہوں‘ الطاف بھائی کی طرح غیظ و غضب میں نہیں آتے۔ جب مولانا‘ الطاف بھائی کو اپنے شہد بھرے لہجے سے تسخیر کر لیتے ہیں‘ تو بھارتی لیڈروں کو اب تک کیوں نہیں کر سکے؟ جہاں تک میرے علم کا تعلق ہے‘ موجودہ بھارتی لیڈروں میں کوئی ‘روایتی برہمن جیسی میٹھی گفتگو نہیں کر سکتا۔ ایک واجپائی تھے‘ جو اب سیاست سے ریٹائر ہو کر‘ سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ کام ہمارے وزیراعظم نوازشریف نے حیرت انگیز مہارت سے کیا تھا۔ ان دونوں کی گفتگو میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ کس کے لہجے اور الفاظ میں مٹھاس زیادہ ہے؟ بدنصیبی سے پاکستان اور بھارت دونوں میں انتہاپسندوں کا زور ہے۔ دونوں ملکوں کے انتہاپسندوں کو‘ اپنے اپنے وزیراعظم کی شائستگی اور باتوں کی مٹھاس پسند نہیں آئی۔ خصوصاً ہمارے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویزمشرف تو بالکل ہی غصے میں آ گئے۔ جیسے سردار ایازصادق کی حمایت میں بولنے والے‘ ایک وفاقی وزیر آ ئے ہیں۔ جنرل مشرف نے آپے سے باہر ہو کر‘ اپنے جوانوں کو کارگل کی بلندیوں پر دھکیل دیا تھا اور بعد میں لاہور آ کر‘ نوازشریف سے التجائیں کرتے پائے گئے کہ وہ کلنٹن سے کہہ کر واجپائی سے میری جان چھڑائیں اور نوازشریف نے کسی قسم کے ''تحفظات‘‘ کا اظہار کئے بغیر‘ فوراً واشنگٹن کی راہ لی اور کارگل پر پھنسے ہوئے اپنے افسروں اور جوانوں کو واپسی کا راستہ لے کر دے دیا۔ 
یہ مثال مجھے کچھ جچی نہیں۔ کہاں نوازشریف اور واجپائی اور کہاں مولانا اپنے ''تحفظات‘‘ کے ساتھ؟ مولانا کی سیاست گری‘ پاکستان میں ہی چل سکتی ہے‘ بین الاقوامی سطح پر نہیں۔ ورنہ وہ آج تک کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کوئی نہ کوئی کرتب دکھا چکے ہوتے۔ مولانا کی دنیا بہت مختصر ہے۔ وہ اپنا کھیل ‘ انتخابی نشستوں پر کھیلتے ہیں‘ جس میںانہیں کامیابی ''بقدرِ اشکِ بلبل‘‘ ملتی ہے۔ البتہ دس بارہ نشستیں لے کر ‘وہ قومی اسمبلی میں آتے ہیں‘ تو نوازشریف کی جگہ خود شیر بن جاتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اصلی شیرسمیت ‘باقی ساری جماعتیں بھی‘ مولانا کے سامنے یوں بیٹھ جاتی ہیں‘ جیسے مدرسے کے طالب علم‘ اپنے استاد کے سامنے بیٹھتے ہیں۔ مثلاً مولانا سے دو بڑی جماعتوں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کو گزشتہ روز‘ آپ نے ٹی وی پر بیٹھے ہوئے دیکھا ہو گا۔ مولانا ایک جج کی طرح‘ اپنی کرسی پر براجمان تھے۔ مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کے وفود کے تمام اراکین‘ مودب بیٹھے‘ مولانا کی طرف دیکھ رہے تھے اور مولانا بڑے طمطراق سے‘ دونوں فریقوں کو سمجھانے میں یوں مصروف تھے‘ جیسے ان دونوں کے پاس اپنی کوئی سمجھ بوجھ نہیں۔ ورنہ سیاست تو وہ کھیل ہے‘ جس میں بھاری اکثریت رکھنے والا سیاستدان بھی‘ اسمبلی سے باہر بیٹھے سیاستدان کے گھر خود چل کر پہنچ جاتا ہے۔ بھٹو صاحب نے کسی مولانا فضل الرحمن بلکہ ان کے والد گرامی کو بھی ‘بیچ میں لانا مناسب نہیں سمجھا تھا‘ خود چل کر مولانا مودودی کے گھر آ گئے تھے۔ وہ سیاستدان ہی کیا؟ جو خود اپنے مخالفین کے ساتھ مکالمے کا راستہ نہ ڈھونڈ سکے۔ 
آج کے سیاستدان ہیں کہ اپنی حیثیت بھول کر‘ مولانا فضل الرحمن کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ چند روز کے دوران‘ ہمارے وزیراعظم نے کتنی ہی مرتبہ دوتہائی اکثریت سے زیادہ کی حمایت رکھنے کے باوجود‘ 13اراکین اسمبلی کے لیڈر سے مدد مانگی۔ پہلے عمران خان کے خلاف قرارداد لانے کے لئے۔ پھر عمران خان کو واپس اسمبلی میں لانے کے لئے۔ مولانا کو داد دینا پڑے گی کہ وہ ایک ہی سانس میں یہ دونوں کام کر گئے۔ عمران خان کو نکالنے کی قرارداد بھی پیش کر دی اور ضرورت پڑی ‘ توعمران خان کو واپس لانے کے لئے قرارداد واپس بھی لے لی۔ ہے کوئی ایسا ؟جو ہتھیلی پر سرسوں جما کر دکھا دے؟ مولانا کا اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر‘ تحریک انصاف کے اراکین کی واپسی کو خلاف آئین قرار دے دیا اور کہا کہ جو لوگ اسمبلی سے باہر چلے گئے‘ ان کی واپسی صریحاً آئین کی خلاف ورزی ہے اور ہم آئین کے خلاف نہیں جا سکتے۔ اس کے بعد خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ایم کیو ایم نے استعفے دے دیئے۔ تحریک انصاف کے استعفے تو متنازعہ تھے۔ ایم کیو ایم کے استعفے ‘آئینی شرائط کے عین مطابق تھے۔ مگر جب ان سے درخواست کی گئی کہ آپ آئین کے مطابق‘ استعفے دے کر اسمبلی سے باہر جانے والوں کو واپس لائیں‘ تومولانا کی سیاست گری کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جس طرح تحریک انصاف کی واپسی کے لئے وہ آئینی پوزیشن لے کر ڈٹے ہوئے تھے کہ ہم ان کی واپسی قبول نہیں کریں گے‘ اسی طرح قومی اسمبلی میں استعفے دے کر باہر نکلے ہوئے ایم کیو ایم کے اراکین کو واپس لانے کاسودا یا شاید وعدہ کر لیا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کل اگر نوازشریف‘ عمران خان کو اسمبلی سے باہر نکالنے کے لئے مولانا کی خدمات حاصل کر لیں‘ تو کیا وہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر پھر وہی تقریر فرمائیں گے کہ ''تحریک انصاف کو اسمبلی میں واپس لانا غیرآئینی تھا اور میں آئین کے خلاف نہیں جا سکتا۔ تحریک انصاف غیرآئینی طور پر اسمبلی میں واپس آئی ہے۔ اسے باہر نکالا جائے۔‘‘ اس سے بھی بڑا کمال یہ ہو گا کہ اگر مولانا کی جدوجہد کے نتیجے میں ایم کیو ایم واپس آ جائے اور مولانا اسے باہر نکالنے کا بیعانہ پکڑ لیں‘ تو کیا ہو گا؟
-----------------

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved