پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے، ہمارے جیسے تمام امن پسند شہری ، چاہتے ہیں کہ یہ دونوں ممالک اپنے تنازعات کو حل کرنے کے لیے کشمکش اور تصادم کی تاریخ کوایک طرف کرتے ہوئے سنجیدگی سے، افہام و تفہیم کے ساتھ، مسائل کا حل تلاش کریں۔ وہ اپنے رہنمائوں کو تصادم کی بجائے تعاون کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔چنانچہ دونوں ممالک کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز کی میٹنگ کے امکان سے ہمسایوں کے درمیان برف پگھلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ تاہم اُس وقت سب کو مایوسی کا سامنا کرناپڑاجب خبر آئی کہ یہ ملاقات منسوخ کردی گئی ہے۔میڈیا ہائوسز کے اینکرز، جو آج کل جارحیت پر مائل ہیں، نے فوراً ہی علاقائی قوم پرستی کے خنجر نکالنے اور ، پھر کیا تھا، معقولیت اور ہوشمندی کا خون ہونے لگا۔ الزام تراشی کے دریا بہہ نکلے، کان کے پردے پھاڑ دینے والے شور کے سیلاب میں عقل بیچاری خس و خشاک ۔ ایسے ماحول میں کسی مثبت پیش رفت کی توقع لگانا پانی سے مکھن حاصل کرنے مترادف ہے۔ تاہم امید کی جانی چاہیے کہ یہ جذبات وقتی ہوں گے اور آخرکا ر معقول رویے غالب آئیںگے۔
ایک بات طے ہے کہ اس شورشرابے کا فائدہ کسی کو نہیں ہوگا اور نہ ہی قوموں کے درمیان تنازعات خطابت سے طے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے معقولیت اور ٹھنڈے دل سے اپنا موقف پیش کرنے اور دوسرے کا موقف سننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کو تنازعات کو ہوا دینے کی بجائے باہمی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ اس وقت افغانستان اور مشرق ِو سطیٰ کے تبدیل ہوتے ہوئے حالات ان دونوں ممالک پر بھاری ذمہ داری بھی ڈالتے ہیں اور ان کے سامنے بہت سے امکانات کے دروازے بھی کھولتے ہیں۔ سب سے پہلے انہیں احساس ہونا چاہیے کہ وہ ریاستیں جو بنیادی طور پر ایک دوسرے کی دشمن ہوں، اُن کا بھی کوئی نہ کوئی مشترکہ مفاد ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو بھی اس ضمن میں استثنیٰ حاصل نہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیان اتنی دشمنی نہیں جتنی جرمنی اور فرانس کے درمیان تھی لیکن آج یہ دونوں یورپی ریاستیں دوسری جنگِ عظیم کی تباہی کو بھلا کر بہت آگے نکل چکی ہیں۔ یقینا ماضی کے زخم کریدتے رہنا عقل مندوں کوزیب نہیں دیتا۔
اس وقت اصل مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے سیاست دان، میڈیا اور دانشور ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے ہیں اور اسی بیانیے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ سرحد کے دونوں طرف عوام جذباتی ہیں، چنانچہ ایسے جوشیلے نعروں کی رومیں بہہ نکلتے ہیں۔ سرحد کے دونوں طرف بہت سی نیم سیاسی جماعتوں کے پاس بھارت؍ پاکستان دشمنی کے سواعوام کے سامنے رکھنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ ریاستوں کے درمیان تقسیم اور اختلافات پر بہت سیر حاصل بات ہوچکی ہے، الزامات لگ چکے، دھمکیاں دی جا چکیں ، متعدد جنگیں لڑی جاچکیں، سرحد پر مستقل کشیدگی کا سماں باندھ کر دیکھ لیا گیا، ایک دوسرے کو غیر ریاستی عناصر سے عدم استحکام کرنے کی کوشش بھی کرکے دیکھ لی گئی،تو جب ہر حربہ ناکام ہوچکا تو اب مل کر بیٹھ جائیں اور بات کرلیں۔
اس وقت پاکستان اور بھارت مل کر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے مشترکہ مفاد کے امکانات کیا ہیںاور اس سلسلے میں انہیں کن چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ مسائل دہشت گردی، غربت، مذہبی انتہا پسندی، سماجی ناہموار اور سکیورٹی کے مسائل ہیں۔ سب سے پہلے توانہیں دیکھنا چاہیے کہ ان کے سماجی معروضات کوافغانستان کی صورت حال متاثر کرتی ہے۔ افغانستان کے ہنگامہ خیز حالات تین عشروںسے جاری جنگوں کا نتیجہ ہیں۔کمزور اور غیر فعال مرکزی حکومت کی وجہ سے عدم استحکام اور افراتفری کا شکار افغانستان کسی کے لیے بھی بہتر نہیں۔ اس کا نہ تو پاکستان کو فائدہ ہوگا اور نہ ہی ہندوستان کو۔ چنانچہ ان کے درمیان ایک مشترکہ مفاد تو یہی ہے کہ وہ افغانستان میں استحکام لانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں ، اسے پراکسی جنگ کے لیے استعمال کرنا انتہائی تباہ کن ہوگا۔
افغانستان میں پھیلنے والی مذہبی انتہا پسندی نے پاکستان کو بہت زک پہنچائی ہے۔ اس وقت بھی خدشہ ہے کہ غنی حکومت کے کمزور پڑنے اور امریکہ کے تعاون میںکمی آنے سے انتہا پسنددوبارہ ابھر کر کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ اس وقت اس جنگ زدہ ملک سے ملے جلے اشارے آرہے ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا عمل حوصلہ افزا تھا لیکن وہاں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں حوصلہ شکن ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے لیے مل کر سوچنے کی بات یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندوں کے زور پکڑنے سے اگر پاکستان کا نقصان ہوگا تو اس سے بھارت کو بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ بھارت بھی افغانستان میں مفادات رکھتا ہے اور طالبان حکومت اُن مفادات کو زک پہنچائے گی۔ اس طرح ، پاکستان اور بھارت اس ایک ایجنڈے پر بات آگے بڑھا سکتے ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے افغانستان پاکستان اور بھارت کے لیے تعاون کی راہ ہموار کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ دودوہاتھ کرنے والا اکھاڑا بنتا جارہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کے ذریعے پاکستان اور بھارت مل کر وسطی ایشیائی ریاستوں کے توانائی کے ذرائع تک رسائی حاصل کرتے اور ان وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے باشندوں کی زندگی میں آسانیاں لائی جاتیں، لیکن اس کے لیے پاکستان اور بھارت کو اپنے سکیورٹی مفادات کی محدود عینک اتارنی ہوگی۔
مشرقِ وسطیٰ میں داعش جیسے عفریت کا سر اٹھانا بر ِ صغیر کے لیے مجموعی طور پر خطرے کی گھنٹی بجاچکا۔اس خطرے کا دائرہ افغانستان، پاکستان، بھارت سے لے کر بنگلہ دیش تک پھیلا ہوا ہے۔ ایران ، ترکی، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کوبھی اسی خطرے کا سامنا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ داعش کا فتنہ شکست سے دوچار ہوگا۔ اس کے باوجود کچھ خدشات ہیں کہ یہ بر ِ صغیر میں اپنی جڑیں پھیلا سکتا ہے کیونکہ اسے یہاں انتہا پسندوں کا تعاون خارج ازامکان نہیں۔ اس لیے بر ِ صغیر کی طاقتوں ، پاکستان اور بھارت، کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات پر اتفاق کرلیں کہ وہ مل کر داعش کے خلاف لڑیں گے اور اپنے شہریوں کاتحفظ کریں گے۔لیکن اگر وہ خطرات کو دیکھتے ہوئے بھی اپنے اپنے من پسند مورچوں میں دھنسے رہے تو دشمن کامیاب ہوجائے گا ۔