تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     26-08-2015

کشمیرپر حکومتی مؤقف کیا ہو؟

قائداعظم نے جب مسلمانوں کے لئے پاکستان مانگا تو ہندوئوں اور سکھوں کی مخالفت کا ساتھ دیتے ہوئے پنجاب کے انگریز گورنر نے ہندو اور سکھ لیڈروں کو یہ سبق پڑھایا کہ تم پنجاب کی تقسیم کی بات کرو، یہ بات مسٹر جناح کو پاکستان لینے کے مطالبے سے دستبردار کر سکتی ہے‘ جس میں 1941ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد 53فیصد سے زائد تھی‘ پاکستان بننا تھا، لیکن اچانک یہ مطالبہ سامنے آ گیا کہ پنجاب کو تقسیم کرو۔ آخرکار تقسیم کرتے ہوئے بھی ہندوستان کے انگریز وائسرائے مسٹرویول نے 7فروری 1946ء کو پنجاب کی حد بندی کرتے ہوئے واضح کیا کہ ''سندھ، شمال مغربی سرحدی صوبہ، برطانیہ کے زیرکنٹرول بلوچستان، راولپنڈی، ملتان اور لاہور ڈویژن لیکن امرتسر اور گورداسپور ضلع چھوڑ کر‘‘ یعنی پنجاب کی ناحق تقسیم کے بعد بھی مسلم اکثریتی لاہور ڈویژن پورا نہ ملا اور اس سے بھی گورداسپور اور امرتسر کو کاٹ دیا گیا‘ حالانکہ یہ دونوں مسلم اکثریتی علاقے تھے۔ جالندھر شہر‘ جس کی 59فیصد آبادی مسلمان پر مشتمل تھی‘ کو بھی پاکستان سے کاٹ دیا گیا۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا تاکہ بھارت کو کشمیر میں جانے کا راستہ دیا جا سکے اور وہاں کے مسلم اکثریتی علاقے یعنی وادیٔ کشمیر پر بھی بھارت کا قبضہ ہو سکے۔ جموں میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کر کے اور ہجرت پر مجبور کر کے جموں کو بھی ہندو اکثریت میں تبدیل کرنے کے ظالمانہ پروگرام پر عمل کیا گیا۔ یہ تھی سزا پاکستان مانگنے کی جو انگریز اور نہرو نے مل کر دی۔
کشمیر کے غیر متنازعہ خطے کو متنازعہ بنا کر پنڈت جواہر لال نہرو خود اقوام متحدہ میں گئے اور کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں پوری دنیا سے، برصغیر کے لوگوں سے اور کشمیریوں سے کہ یہاں رائے شماری کروا دی جائے گی اور حق خودارادیت دیا جائے گا۔ یہ وعدہ 1948ء میں ہوا تھا۔ 1965ء میں جب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوئی تو مذکورہ وعدے کو 17 سال ہو چکے تھے۔ مسلسل17 سال عہد کی خلاف ورزی ہوئی اور اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پرعمل نہ کروا سکی تو جنگ ہو گئی۔ یہ جنگ پاکستان نے بھی شروع کی تو پاکستان حق بجانب تھا‘ اس لئے کہ حقدار کو مسلسل حق نہ دیا جائے تو لڑ کر حق لینا اس کا حق سمجھا جاتا ہے اور یو این کے چارٹر میں بھی اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ جی ہاں! پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں جنگ کا آغاز کیاکیونکہ یہ متنازعہ علاقہ تھا لیکن بھارت نے یہاں لڑنے کے بجائے لاہور پر حملہ کر دیا۔ یہ مانے ہوئے بین الاقوامی بارڈرپر حملہ تھا اور یو این کے اصول کی واضح خلاف ورزی تھی۔ اس کے بعد جنگ کا اختتام ہوا تو تاشقند میں معاہدہ ہوا۔ امریکہ کی طرف سے ساتھ چھوڑنے کی وجہ سے پاکستان کو اس معاہد میں یہ شق تسلیم کرنا پڑی کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت باہمی طور پر حل کریں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس مسئلے کو عالمی ادارہ حل نہ کروا سکا، جنگ سے حل نہ ہوا، وہ دو دشمنوں کے درمیان کس طرح حل ہو گا؟ میں سمجھتا ہوں کہ امن کے علمبرداروں نے یہ شق شامل کرا کے آئندہ کی پاک بھارت جنگوں کا دروازہ کھول دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان دو جنگیں ہو چکی ہیں۔ 1971ء اور کارگل کی جنگ، اور آئے دن کی جھڑپیں معمول ہیں یعنی جنگ کا دروازہ عالمی طاقتوں نے کھول دیا اور یہ آج بھی کھلا ہے۔ 
پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں بھی بن چکی ہیں۔ ایٹمی طاقتیں بننے کے بعد ضرورت تھی کہ یو این کے پلیٹ فارم پر عالمی طاقتیں دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور فیصلہ کریں کہ دونوں متحارب ملکوں کے ایٹمی قوت بننے کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو دوبارہ یو این حل کرے، رائے شماری کروائے اور دونوں ملکوں کے درمیان امن کو یقینی بنائے کیونکہ اللہ نہ کرے اگر ایٹم بم چلتا ہے تو یہ دونوں ملک ہی نہیں بلکہ ایشیا تباہ ہو جائے گا اور صرف ایشیا ہی نہیں، تابکاری کا سرطان دنیا بھر کے انسانوں کو شکار کرے گا۔ لیکن افسوس کہ عالمی طاقتوں نے اپنا یہی فیصلہ برقرار رکھا کہ پاکستان اوربھارت مل کر اس مسئلے کو حل کریں۔
کیا یہ مضحکہ خیز بات نہیں کہ دو بندے کلہاڑیاں تھامے ایک دوسرے کو مارنے کے لئے تیار کھڑے ہوں اور اردگرد موجودطاقتور اور دانا لوگ یہ راگ الاپے جا رہے ہوں کہ یہ دونوں اپنا مسئلہ خود حل کریں؟۔ یہ رویہ انتہائی غیر منطقی اور غیر انسانی ہے۔ منطق، لاجک اور انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ دانا اور طاقتور لوگ دونوں کو ایک دوسرے سے دور ہٹائیں، دونوں کا مسئلہ حل کر دیں۔ اسی طرح عالمی طاقتوں کی ذمہ داری ہے کہ دونوںفریقین کو کشمیر سے دور ہٹائیں، رائے شماری کرائیں اور حق خودارادیت کی بنیاد پر مسئلہ حل کروائیں۔ اگر یہ طاقتور اور دانا لوگ ایسا نہیں کرتے تو ان کی دانائی مشکوک ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کہ یہ جانبدار ہیں۔ کمزور کو پٹتا دیکھنا چاہتے ہیں اور خونیں منظر ان کو بھلا لگتا ہے۔ یہ حقیقت ہے، کڑوی حقیقت ہے، مگر حقیقت بہرحال یہی ہے۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہئے؟ ہماری حکومت سے یہ غلطی ہو گئی کہ اوفا کی کانفرنس میں کشمیر کے مسئلے کو شامل نہیں کروایا۔ اب بھارت کہتا ہے کہ وہاں کشمیر کا ذکر نہیںہوا لہٰذا اب کشمیر کے بغیر بات ہو گی اور ہر موضوع پر ہو گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر پر نہیں ہو گی تو پھر موضوع رہ کیا جاتا ہے؟ کہ تمام موضوعات کشمیر ہی سے تو متعلق ہیں۔ ڈیم ہیں تو کشمیر سے متعلق ہیں، سیلاب اور دریائوں کا پانی ہے تو کشمیر سے متعلق ہے، اہل کشمیر پر ظلم ہے اور وہاں سات لاکھ فوج ہے تو کشمیر سے متعلق ہے۔ دہشت گردی جس بلا کا نام ہے اس پر بات کرنی ہے تو اس کا تعلق بھی کشمیر سے ہے۔ کیسی غیر حقیقی سوچ ہے کہ علامتوں پر تو بات کرو مگر جو اصل مرض ہے اس کا علاج مت کرو۔ جب اصل مرض کا علاج نہ ہو گا تو علامتوں کی دوائیں کھانے سے مریض ٹھیک نہیں ہو گا۔چنانچہ جو علامتوں پر ہی زور دیتا ہے وہ بدنیت ہے، مرض کو دور کرنا نہیں چاہتا۔ وہ دور بھی کیسے کرے کہ مرض اسی کا تو پیدا کردہ ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی وزارت خارجہ میدان میں آئے، دوست ملکوں سے بات کرے، کشمیر کے مسئلہ پر ہمارا ہر سفارتخانہ بھرپور کردار ادا کرے، کشمیری مظلوموں کے وفود بھیجے جائیں، اس مسئلہ کو دنیا میں دوستوں کی مدد کے ساتھ دوبارہ یو این میں لے جایا جائے۔ اگر یہ مسئلہ یو این سے حل نہ ہو کر باہمی حل کی طرف آ سکتا ہے تو باہمی حل سے حل نہ ہو کر دوبارہ یو این میں جا سکتا ہے۔ دوبارہ وہاں جانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے بس ایک عزم، حوصلہ اور بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ساتھ ساتھ ہم اپنے گھوڑے تیار رکھیں۔ آج پاکستانی قوم اپنے اندرونی مسائل سے نبٹ رہی ہے۔ بڑا مسئلہ حل ہو چکا ہے، ضرب عضب کی کاٹ باقی ماندہ اندرونی مسائل بھی اللہ کی مدد سے حل کر لے گی۔ یوں پوری قوم تیزی کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بنتی چلی جا رہی ہے۔ ہم جنگ نہیں چاہتے، امن چاہتے ہیں لیکن اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہمیں کمزور جان کر ہمارا حق دشمن نگل لینا چاہتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ 48ء، 65ء، 71ء اور کارگل کے سارے حساب اب کی ضرب مومن میں نہ صرف برابر ہوں گے بلکہ بہت سارا ادھار بھارت کو اپنے سر پر اٹھانا ہو گا۔ (ان شاء اللہ)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved