تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     26-08-2015

رقص

میرے پاس ہر قسم کے مریض آیا کرتے ۔ پیدائشی ذہنی معذور،مسلسل پریشانی کے نتیجے میں حواس کھو بیٹھنے والے اور وہ بھی ، جنہیں زندگی کے کسی موڑ پر اچانک کوئی بڑا دھچکا (Shock)پہنچتا۔ان میں غبی اور ذہین،زندگی میں کامیابیاں سمیٹنے والے اور ناکام ، ہر طرح کے لوگ ہوا کرتے ۔ اس روز جب وہ لڑکے ایگور پاشا کو لے کر آئے تو پہلی نظر میں ، میں نے اسے انہی میں شمار کیا۔ بکھرے ہوئے بال، بڑھی ہوئی داڑھی اور شکنوں سے بھرا لباس لیکن بہرحال یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا کیس ثابت ہوا۔
اپنے باپ کی ذہنی حالت پر لڑکے غمزدہ تھے ۔میں انہی سے ماجرا دریافت کرنا چاہتا تھا لیکن مریض نے یہ کہا: ڈاکٹر صاحب! میری کہانی میرے سوا کوئی نہیں سنا سکتا ۔ میں ایگور پاشا1970ء میں ایک ممتاز سوویت گھرانے میں پیدا ہوا۔کم سنی ہی میں میرے باپ کو یہ احساس ہوا کہ اس کے ہاں ایک ہونہار بروا نے جنم لیا ہے۔ محض 9برس کی عمر میں وہ کاروباری معاملات میں مجھ سے مشورہ کیا کرتا۔ 13برس کی عمر میں ، میں ایک کامیاب سنار تھا۔ چند سال بعد میں نے تیل کھوجنے والی اپنی ذاتی کمپنی بنائی۔ ہر کاروبار میں ، میں نے دنیا بھر سے ایسے افراد ڈھونڈے ، جن کی آنکھوں میں غیر معمولی ذہانت کی چمک تھی ؛البتہ زمانہ ان کی صلاحیتوں سے لا علم تھا۔ میں واحد تھا، جس کے ہر کنوئیں سے تیل نکلا۔ میں ہر کام کو آخری درجے کی مہارت سے سرانجام دیا کرتا۔ میں perfectionistتھا۔ میرے کاروباری حریف میری چالاکی، غیر معمولی محنت اور بے رحمی کی تاب نہ لا سکے ۔ میں جہاں گیا، بڑے بڑوں کو دیوالیہ کیا۔سٹاک ایکسچینج میری مرضی سے نمو پاتی اور میرے اشارے پر ڈھے پڑتی ۔ سوویت یونین کے بعد امریکہ اور پھر یورپ کو میں نے کاروباری طور پر فتح کیا۔ مشرق سے مغرب تک میں کوس لمن الملک بجانے لگا۔ حکومتیں مجھ سے ڈرنے لگیں ۔ 
''یہ میری کامیابیوں کا ایک پہلو تھا‘‘اس نے کہا ''ذاتی زندگی بھی یہی تھی ۔ جسمانی طور پر میں ایک زور آور بھینسے کی مانند تھا۔ناواقف لوگ بھی مجھے دیکھ کر سہم جاتے ۔ میرا پالا ہوا گھوڑا ہمیشہ ریس جیت جاتا لیکن زیادہ شوق مجھے کتّوں کا تھا۔ شکار سے لے کر لڑائی تک ، میرے کتّے دنیا کے کسی ملک میں ،کبھی کسی نوعیت کا کوئی مقابلہ نہ ہارے ۔ ان میں اڈولف سب سے زیادہ خطرناک تھا۔ میں اسے لے کر تنِ تنہا جنگل میں نکل جاتا ۔ اڈولف تو جانور ہی تھا،اس وقت میں بھی ایک درندہ ہوا کرتا۔ 
یہ پچھلے موسمِ بہار کا واقعہ ہے ۔ میں اڈولف کے ہمراہ کراکن پائن جنگل میں تھا۔ تب میں نے وہ جھونپڑا نما گھر اور اس کے سامنے ایک لمبے قد والے آدمی کو محوِ عبادت دیکھا۔ میرا خون کھول اٹھا۔ میں ، میرا گھرانہ اور یہ پوری ریاست ملحد ہے ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اکیسویں صدی میں ایسے جاہل بھی کہیں بستے ہوں گے ۔ بے اختیار میں نے اڈولف کی رسّی ڈھیلی کر دی اور وہ اس کی طرف لپکا۔ درویش ٹس سے مس نہ ہوا۔ قریب تھا کہ اڈولف اس کی گردن دبوچ لیتا، جھونپڑے میں سے ایک سیاہ جنگلی کتا نکلا، جس کی پسلیاں میں گن سکتا تھا۔ اس سے پہلے کہ اڈولف اس کی طرف پلٹتا، اس نے پنجے کے ایک ہی وار سے اڈولف کی آنتیں عریاں کردیں ۔ 
زندگی میں پہلی بار مجھے شکست سے واسطہ پڑا تھا۔ میرا وجود بری طرح لر ز رہا تھا۔میں بندوق کا وزن اٹھانے سے قاصر تھا۔ درویش میری طرف بڑھا ۔ اس نے مجھے خوش آمدید کہا۔ 
میں اپنے حواس میں نہیں تھا۔ میں نے لرزتی آواز میں اسے یہ کہایہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے اور یقینا میرے دشمنوں نے مجھے رسوا کرنے کے لیے تجھے یہاں بٹھا رکھا تھا۔ یقیناتیرا کتّا کسی خاص خطرناک نسل سے تعلق رکھتا ہے ۔ میں لوٹ کے آئوں گا ۔ میں بدلہ لوں گا۔ پھر میں بے ہوش ہو گیا۔ جب جب بھی میری آنکھ کھلتی ، اُسے تیمار داری میں مصروف پاتا۔ میں اسے خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیتا۔ وہ مسکراتا رہتا۔ اسی دوران اس نے یہ کہا: یقینا یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا، اس عظیم منصوبہ ساز کا، جو میرا مالک ہے ۔ میں نے اس سے یہ کہا کہ وہ مجھے اپنے آقا کے پاس لے چلے ۔ میں غلاموں سے نہیں لڑتا۔ اس نے کہا : تیرے چہرے پر اب جھریاں نمودار ہونے لگی ہیں ۔ تو میرے آقا سے جنگ لڑنے کے قابل نہیں ۔ اسی نے تو ایک نحیف کتے کے ہاتھوں تیرے سگِ خونخوار کو شکست دی ہے ۔ میں نے اس سے یہ کہا کہ میں نے ہمیشہ ہر کسی کو ہرایا ہے ۔ بڑی بڑی سلطنتیں میرے نام سے کانپتی ہیں ۔ اس نے کہا : تیری بادشاہی محدود ہے ۔ میرا مالک وہ ہے، جس نے ہائیڈروجن سے یہ تمام کائنات بنائی ۔ مجھے بنایا ،تجھے بنایا ہے ۔ہم دونوں کے کتوں کو تخلیق کیا۔ میں چیختا رہا۔ میں نے کہا : تم جھوٹے ، مکار ، خدا کا کہیں کوئی وجود نہیں ۔ میری اس بات پر وہ ہنس پڑتا۔ میں تڑپتا بلکتا رہتا۔ 
آخر میرے حواس بحال ہونے لگے ۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ میں پہلی بار اس ویرانے میں اچانک آیا تھا اور کسی کو بتائے بغیر۔ میرے دشمن اس بات سے بے خبر تھے ۔ پھر اڈولف ایک درجن کتوں سے تنہا لڑ سکتا تھا اور اسے شکست دینے والا ایک نحیف آوارہ کتا تھا۔ جھونپڑے کے سامنے لیٹ کر میں سورج کو طلوع ہوتا دیکھتا رہا۔ میں کائنات پہ غور کرنے لگا۔ تھا تو میں بے انتہا ذہین۔ میرا ذہن کڑیوں سے کڑیاں ملانے لگا۔ میں خود شناہی سے خدا شناسی تک پہنچا۔ مجھے کبھی کسی نے خدا کے بارے میں نہیں بتایا تھا اور میں نے کبھی موت کے بارے میں سوچا تک نہ تھا۔ پہلی بار میرا دل عبادت کی طرف مائل ہوا لیکن مجھے اس کا قرینہ نہ آتا تھا۔ بے خودی میں ، میں رقص کرنے لگا۔ 
وہ ہنستا رہا۔ اس نے کہا : آہستہ آہستہ تم عبادت سیکھ لو گے ۔ اس نے کہا کہ اس کی بکری بیمار ہے ۔ واپس جانے سے پہلے میں اس کے لیے دعا کروں ۔ میں شہر میں آیا۔ میرے مخالف مجھے دیکھ کر کانپ اٹھے ۔ میں نے ان سے یہ کہا : میں اپنے آپ میں نہیں ہوں ۔ میں فنا ہو چکا ہوں ۔ مجھے تو بس رقص کرنے دو۔ میری اولاد رشتے دار اکٹھے ہوئے۔ میں نے انہیں ساری بات بتائی۔ انہوں نے کہا کہ وہ بدلہ لیں گے ۔ میں نے کہا : جو رب کی رضا سے راضی ہو، اس سے بدلہ نہیں لیا جا سکتا۔ اب یہ سب مجھے پاگل سمجھتے ہیں ‘ میں انہیں دیوانہ سمجھتا ہوں ‘‘۔ 
لڑکے ساکت کھڑے تھے۔ ایگور پاشا کی طرح میری آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے ۔ میں نے اس سے یہ کہا : پاشا، میں بھی رقص کرنا چاہتا ہوں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved