تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     27-08-2015

ایک خاتون ایک سپاہی

جنرل ضیاء کے دور سے ہماری ریاست خواتین کو حقوق سے محروم کئے جا رہی ہے۔آپ میں سے کتنے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی خواتین مغرب زدہ ہوتی ہیں، یا پھرکتنوں کا خیال یہ ہے کہ یہ اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین حقوق کی علمبرداری کے نام پہ اسی پرانے ایجنڈے کو لے کر چل رہی ہوتی ہیں؟اس ضمن میں گوگل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی یہ بات شاید اپوا اور ڈبلیو اے ایف (ویمن ایکشن فورم) کی خواتین سیاستدان اور ان جیسی دیگر تجربہ کار خواتین کو معنی خیز معلوم ہو کہ'' اس صورتحال سے نکلنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ایک نیا پراڈکٹ تخلیق کر لیا جائے۔گوگل کا ذہن ایسی طریق پہ سوچتا ہے۔مستقبل کی تخلیق شاذ ہی اختیار مندوں کے ہاتھ ہوتی ہے۔‘‘ اس بات سے اتفاق یا اختلاف کا آپ کو پورا حق حاصل ہے۔
جنرل ضیاء نے اگر بیگم زرّی سرفراز کا کہا سنا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ ہماری زندگی اس وقت مختلف ہوتی۔ بیگم زرّی سرفراز کا تعلق مردان سے تھا۔ وہاں وہ اپنے خاندان کی ملکیتی پریمئر شوگر ملز چلا رہی تھیں۔ وہ ایک سیاستدان ،ایک سماجی کارکن اور ایک انسان دوست خاتون تھیں۔ کوئی تیس برس قبل جب طالبان کا ظہور ہواتو بیگم زرّی سرفراز نے اسی وقت خطرے کا اظہار کر دیا تھا۔ انہوں نے عورتوں کے لئے یکساں حقوق کے ساتھ یکساں شہریوں کے طور پرزندگی گزارنے کی غرض سے تغیر برپا کر دینے والی سفارشات پیش کی تھیں؛تاہم خاص طور پر ڈبلیو اے ایف اور خواتین کے حقوق کی دیگر کارکنان سمیت ان کی آواز بھی دبا دی گئی ۔آج طالبان ایک حقیقت ہیں۔انہوں نے خواتین کو سر عام پھانسی پر لٹکایا ،چاردیواری میں قید رکھا ، قتل کیا، ا ن کے ہاتھ پاؤں توڑے اور کوڑے بھی مارے! آج نگاہیں بیگم زری سرفراز جیسی مجاہدات کو ڈھونڈتی رہ جاتی ہیں۔ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور شیری رحمن جیسی مثالیں بھی آج اسی طرح عنقا ہیں۔ مؤخر الذکر تو شاید کچھ عرصے تک پی پی پی کی قیادت سے معزول تھیں لیکن اب بڑے پر زور طریقے سے ان کی واپسی ہو گئی ہے۔
کئی برس پہلے اپوا (آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن) کی ایک کانفرنس میں ہم نے بیگم زرّی سرفراز سے ایک انٹرویو کی گزارش کی تھی۔ تاہم میڈیا میں ان کے بیانات کو جس طرح ''توڑ مروڑ‘‘ کر پیش کیا جاتا تھا ، اس سے وہ کچھ خوش نہیں تھیں۔ پھر ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ ہمارے رہنما جس قسم کے گھسے پٹے بیانات دیتے ہیں ان سے زیادہ کچھ کہنے کے لئے ہے بھی نہیں؛ لہٰذا وہ انٹرویو کبھی ہو نہیں سکا۔ اس کے ایک ماہ بعد اچانک ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی جگہ ہم نے ان کے بھائی عزیز سرفراز کا انٹرویو لیا اور ان سے پوچھا کہ ان کی بہن طالبان کے بارے میں کیا کہتی تھیں؟ عزیز صاحب کے مطابق ان کی بہن نے طالبان کے بارے میں بہت پہلے اس وقت ہی متنبہ کر دیا تھا جب جنرل ضیاء افغانستان کو روسیوں سے پاک کرنے کے لئے انہیں وہاں بھیج رہے تھے۔ زرّی سرفراز کہا کرتی تھیں کہ وہاں اپنا کام نمٹا کر یہ لوگ اپنی بندوقوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیں گے۔ ان عسکریت پسندوں نے طاقت کا مزا جو چکھ لیا ہے تو اب انہیں پاکستان کے دو پشتو بولنے والے قبائلی صوبوں سرحد اور بلوچستان پر بھی قبضہ چاہئے ہوگا۔اپنی یہ پیش گوئی انہوں نے پاکستانی حکمرانوں کے سامنے ایک بار نہیں بلکہ بار بار دہرائی تھی۔وہ سختی سے کہا کرتی تھیں کہ یہ کوئی مذاق کی بات نہیں! سٹیٹس آف ویمن کمیشن کی سربراہ کی حیثیت میں انہوں نے دیگر ترقی پسند خواتین کے ساتھ مل کر دو سال تک پاکستان کے طول و عرض میں ان خواتین کے انٹرویوز کئے تھے جن کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے؛ تاہم جنرل ضیاء نے ان کی سفارشات کو سرد خانے کی نذر کر دیا تھا ۔ یہ ان کا شرانگیز رویہ تھا۔ وہ ایک دہرا کھیل ان کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ ایک طرف تو انہوں نے بیگم زرّی سرفراز کو جولائی 1985ء میں نیروبی میں ہونے والی خواتین کے بارے میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں پاکستانی مندوبین کے وفد کی سربراہ نامزد کیا اور دوسری طرف جب اس کانفرنس کا آغاز ہونے جا رہا تھا تو یہاں پاکستان میں انہوںنے حدود آرڈیننس جاری کر دیا۔بیگم صاحبہ اس پہ سخت برانگیختہ تھیں۔ نیروبی کے لئے ان کے رخصت ہونے سے ذرا پہلے اسلام آباد میں جب ہم نے ان سے انٹرویو لیا تو ان کا کہنا تھا کہ ''میں کوئی ربر سٹیمپ نہیں ہوں‘‘! انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہماری جنگ اقوام متحدہ تک لے کر جائیں گی۔ ایسا انہوں نے پھر کیا بھی۔ روزنامہ ڈان کی رپورٹر کے حیثیت میں ہم نے اس کانفرنس کی رپورٹنگ کی تھی۔ہم دو سو بتیس پیراگرافوں پر مشتمل مستقبل کی ممکنہ حکمت عملیوں کی ایک دستاویز ہمراہ لائے تھے، لیکن جنرل ضیاء کے لئے اس کی قدر یہ تھی کہ اسے بھی کوڑے دان کی نذر کر دیا گیا۔تاہم بیگم صاحبہ نہ تو مایوس ہوئیں، نہ ان کے قدم اکھڑے اور نہ ہی ان کی عزم و ہمت پر کچھ اثر پڑا۔اس پختون عورت نے خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہدپھر بھی جاری رکھی۔ عزیز صاحب کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء کی متعصب اسلام پرستانہ انتہا پسندی اور خواتین پر مظالم سے پُر دور میں میری بہن ٹی وی پر آکر حدود آرڈیننس کے خلاف بولتی تھیں اور اپنے بد ترین ناقدین کا منہ بند کر دیا کرتیں۔ بیگم صاحبہ اپنے گھرکی سربراہ تھیں‘ کوئی باقاعدہ تعلیم انہوں نے حاصل نہیں کی تھی لیکن اس کے باوجود 1941ء میں جب ان کے والد خان بہادر سرفراز خان کا انتقال ہو ا تو خاندانی بزنس انہوں نے سنبھال لیا۔ عزیز سرفراز کہتے ہیں کہ آج ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے ، یہ سب انہی کی مہربانی ہے۔خاندان کے مالی معاملات انہی کے ہاتھ میں ہوتے تھے۔ ہر ماہ وہ ہمارے بھائی میر افضل خان، میری اہلیہ لیلیٰ، مجھے اور بچوں کو ہمارا حصہ دے دیا کرتی تھیں۔ وہ ہماری ماں جیسی تھیں۔ بیس برس کی عمر میں انہوں نے مردان میں پریمئر شوگر ملز کی ملکیت حاصل کی تھی، جسے انہوں نے بعد میں ایشیا کی سب سے بڑی انٹرپرائز میں سے ایک بنا دیا۔اپنے گھرانے کا مالی مستقبل محفوظ بنانے کے بعد انہوں نے سیاست کا رخ کیا۔اس میدان میں لیڈی عبد اللہ ہارون کی جہاندیدہ نگاہوں نے انہیں پہچانا، لہٰذا انہوں نے بیگم صاحبہ کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔لیڈی ہارون کو قائد اعظم نے خواتین کے امور کی سربراہی سونپی تھی۔ وہی 'زارو‘ کی ناصحِ خاص بنیں۔ عزیز سرفراز اپنی بہن کو پیار سے ''زارو‘ پکارتے تھے۔ وہ بیگم زرّی سے دس برس چھوٹے ہیں۔ اپنی بہن انہیں بے تحاشہ یاد آتی ہے۔ ان کے بڑے بھائی میر افضل خان کسی زمانے میں'زلفی‘ بھٹو کے قریبی دوست ہوا کرتے تھے۔تاہم پھر بھٹو صاحب نے جب ان کا کاروبار ان سے چھین کر اپنے کسی وزیر کو دینا چاہا توان میں ٹھن گئی۔ بعد میں میاں نواز شریف نے میر افضل خان کو شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبرپختونخوا) کا وزیر اعلیٰ بنادیا۔ میاں صاحب کے ساتھ بھی جب میر افضل خان کی نہ بنی تو وہ اے این پی سے جا ملے۔ عزیز صاحب کی اہلیہ لیلیٰ جو سر عبد اللہ ہارون کی بیٹی ہیں، اپوا کی صدر بھی رہی ہیں۔یہ تنظیم کسی زمانے میںمراعات یافتہ طبقے کی بزرگ خواتین کے باہمی میل جول کے وسیلے کی شہرت رکھتی تھی؛ تاہم لیلیٰ نے دن رات محنت کر کے اس تنظیم کے تاثر کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔
ایک معروف پاکستانی صحافی نے ایک بار ایک انگریزی روزنامے کے خطوط والے سیکشن میں چند سوالات کئے تھے۔ انہوں نے پوچھا تھا کہ ''خواتین کے ناموس کی پامالی کے لئے کیا طالبان کو واحد ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے؟ یا پھر پورا معاشرہ یکساں طور پر اس ذمہ داری میں شریک ہے؟سندھی وڈیروں، پنجابی چودھریوں، بلوچ سرداروں اور پختون خوانین کے ہاتھوں جن خواتین کی ناموس پامال ہوتی رہی ہے ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ 80ء کے عشرے میں نواب پور کے چودھریوں نے ایک عورت کو برہنہ کر کے سڑکوں پر اس کا جلوس نکالا تھا۔ اس واقعے کی ویڈیو بھی ہم نشر نہیں کر سکتے تھے۔ کراچی میں ایک پختون لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں؟ اس بیچاری لڑکی کو اپنے ساتھی سمیت ملک چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔ پانچ عورتوں کو زندہ درگور کرنے والے کو آج تک کوئی سزا دی گئی ہے؟کیا حکومت اور پارلیمان نے اس سینیٹر کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تھا؟ یا پارلیمان میں کم از کم اس کی کوئی مذمت ہوئی؟ اس کے علاوہ ایک وفاقی وزیرپر بھی یہ الزام لگا کہ اس نے ایک کم عمر لڑکی کی ناموس کو پامال کیا ہے۔ موصوف نے اس امر کی تردید کی ہے۔ ایک ہائی پروفائل خاتون کو بھی اس طرح بدنام کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایک سابق امریکی صدر کے ساتھ ان کی تصاویر ایک ہوائی جہاز سے گرائی گئیں۔سرعام کوڑے بھی یہاں مارے جا رہے ہیں، اور برہنہ کر کے جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔ تنازعات کی تحلیل کے لئے کم سن لڑکیاں بیچ دی جاتی ہیں ، اور قرآن کے ساتھ ان کے نکاح بھی پڑھا دئیے جاتے ہیں۔ گھریلو تشدد ان پہ الگ سے ہوتا ہے، جس دوران انہیں جلا بھی دیا جاتا ہے‘‘۔ ہمارے معاشرے کی عورت آج بھی اپنے تقدس کی جنگ لڑ رہی ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved