تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     28-08-2015

پاکستان کے لیے نیا ٹیکس ماڈل

دنیا کے بہت سے ممالک کے برعکس پاکستان میں ایف بی آر نے کبھی بہتر انداز میں خود اختیاری پروگرام شروع کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کے نتیجے میں انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد افسوس ناک حد تک، ایک ملین سے بھی کم ،جبکہ ودہولڈنگ ٹیکس کے دائرے میں آنے والے شہریوں کی تعداد پچاس ملین سے زائدہے۔ 2002ء سے، جب نیا انکم ٹیکس آرڈیننس2001ء نافذ ہوا، ایف بی آر 'یونیورسل سیلف اسسمنٹ سکیم ‘ ، جسے ٹیکس انٹیلی جنس سسٹم کی صورت میں آڈٹ کا جدید نظام چیک کررہا ہو ، نافذ کرنے میں بری طرح ناکام ہوا۔ چنانچہ موجودہ خود تشخیصی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کی بدولت عدم رپورٹنگ، آمدنی کی بابت غلط بیانی اور سیلز ٹیکس اور وفاقی ایکسائز ڈیوٹی ادا نہ کرنے کا رجحان پاکستان میں عام ہے۔ ٹیکس ادا کیے بغیر جمع کی گئی دولت پر کارروائی کرنے کی بجائے حکومت نے ہمیشہ ٹیکس چوری کے لیے نرم گوشہ رکھا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کالے دھن کو سفید کرکے معیشت میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے۔ 
ایف بی آر کی ناکامی کے دوپہلو ہیں۔۔۔ یہ اُن سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہا جن سے لازمی وصول کیا جانا تھا، چنانچہ کالے دھن سے وجود میں آنے والی ایک متوازی معیشت نے معاشرے کا دھڑن تختہ کردیا۔ دوسرے، یہ لوگوں کو اپنی مرضی سے، قومی جذبے کے تحت ٹیکس ادا کرنے کے لیے راضی نہ کرسکا۔ اس کی وجہ سے ایک طرف ناانصافی، احساسِ محرومی اور غربت بڑھتی ہے تو دوسری طرف چند لوگوں کے لیے پرتعیش زندگی مزید پرکشش ہو جاتی ہے۔ صرف ایک ادارے کی نااہلی سے معاشرے میں گہری ہوتی ہوئی طبقاتی لکیر قومی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ طے شدہ اہداف ، جو ویسے بھی پوٹینشل سے کہیں کم ہوتے ہیں، کو پورا کرنے میں ناکامی مالیاتی خسارے کو بڑھادیتی ہے۔۔۔ موجودہ مالی سال کے دوران خدشہ ہے کہ یہ خسارہ دوٹریلین روپے سے تجاوز کرجائے گا۔ 
یہ صورت ِحال سیاسی قیادت اور معاشی افسران کے فکری دیوالیہ پن کی عکاسی کرتی ہے۔ ٹیکس افسران کو فری ہینڈ دینے ، ٹیکس چوروں کو خوش کرنے کی پالیسی اور قومی دولت لوٹنے والوں اور کالے دھن کو سفید کرنے والوںکے لیے متعارف کرائی جانے والی مختلف سکیمیںملکی معیشت کے علاوہ معاشرے کے ہر شعبے پر انتہائی مضر اثرات مرتب کررہی ہیں۔ اسے استعمال کرتے ہوئے سیاسی وفاداریاں حاصل کرنے کی روایت عام ہے۔ اسی وجہ سے بڑے بڑے کاروباری افراد اور خاندان سیاست کو ایک پرکشش کھیل سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ کھیل قوم کو بہت مہنگا پڑتا ہے اور یہ قرضوںکی دلدل سے باہر آنے کے لیے ہاتھ پائوں مارتی دکھائی دیتی ہے لیکن بے سود۔ اس کی معیشت زیادہ تر آئی سی یو میں پڑی رہتی ہے، جبکہ اسے زندہ رکھنے کے لیے مصنوعی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ان حالات میں نہ تو سیاسی قیادت اور نہ ہی فنانس منسٹری چلانے والے نام نہاد ماہرین ٹیکس سسٹم کو بہتر خطوط پر استوار کرنے کا کوئی واضح منصوبہ رکھتے ہیں۔ 
یہ بات بارہاکہی جاچکی کہ ہمارا ریونیو پوٹینشل اُس سے کہیں زیادہ ہے جو ایف بی آر طے کرتا ہے۔ پوٹینشل کے مطابق ٹیکس وصول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایف بی آر کو متروک شدہ افسرشاہی کے چنگل سے نکال کر اسے ایک فعال اور خود مختاری ٹیکس باڈی کی شکل دے دی جائے تاکہ یہ پیشہ ور بنیادوں پر غیر دستاویزی معیشت کو ٹیکس کے دائرے میں لائے، ٹیکس گیپ کم ہواور منصفانہ ٹیکس کو تمام شعبوں تک پھیلایا جائے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ کالے دھن سے طاقت حاصل کرنے والے سیاست میں آکر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں، اور پھروہ اپنی آمدنی انتہائی کم ظاہر کرتے ہیں، اتنی کم جس سے کسی متوسط گھرانے کا بمشکل چولہا جل سکے۔ اس کے ساتھ ہی وہ خود کو جمہوریت اور عوام کے حقوق کے چمپئن کہلانا شروع کردیتے ہیں۔ اگر اُنہیں گرفت میں لانے کی بات کی جائے تو جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے اور ریاست کے وجود پر سوال اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اس ریاست کے قوانین کی کھلی پامالی کرتے ہیں لیکن ناقص نظام کی بدولت وہ قانون ساز بن جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو گرفت میں لانے اور ان کا کڑا احتساب کرنے کے لیے کسی طاقت ور اور خودمختار ادارے کی ضرورت ہے۔ مہذب معاشروں میں یہ احتساب عدالتوں اور عوا م کے ووٹوںسے ہوجاتا ہے لیکن ہم ابھی اس منزل سے دور ہیں۔ 
ٹیکسیشن کے عام تسلیم شدہ اصول فعالیت(مختص وسائل کو ضائع ہونے سے بچانا)، معاشی مساوات(زیادہ آمدنی والے افراد 
پر ٹیکس لگاکر کم آمدنی والے افراد کو سہولیات فراہم کرنا) اور موثر نظام(جس میں ٹیکس مشینری ہرقسم کے بیرونی دبائو سے آزاد ہو)کی تشکیل ہیں۔لیکن جب تمام ٹیکس انتظامیہ مجسم نااہلی، بدعنوانی اور نالائقی بن جائے تو پاکستان میں یہ اصول کیسے نافذ ہوسکتے ہیں؟ چنانچہ ان حالات میں پاکستان کو مکمل طور پر ٹیکس کا ایک نیا ماڈل درکا ر ہوگا۔۔۔ ایک ایسا ماڈل جو حکومت کے اخراجات اور عوام کو فراہم کی جانے والی سہولیات کے لیے وسائل فراہم کرسکے۔ ایسا کرنے سے ہمار ے قرضوں کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا۔ دراصل کسی بھی ریاست میں سماجی اورمعاشی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے ٹیکس سسٹم ایک فعال قوت کے طور پر کام کرتا ہے، لیکن ہمارے ہاں فنانس منسٹر ی کا تمام زور قرضوں کے حصول پرہوتا ہے، لیکن اس انتہائی اہم شعبے کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہمارے اکثر فنانس منسٹر غیر ملکی اداروںسے قرضے حاصل کرنے کو اپنی انتہائی کامیابی جتاتے ہوئے قوم سے تحسین کے طالب ہوتے ہیں۔ 
ٹیکس پالیسی کا بنیادی مقصد انتظامیہ اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے نجی ذرائع سے وسائل حاصل کرکے عوام کے استعمال میں لانا ہے۔ایک حقیقی پالیسی ایسے افراد کو سزا دیتی ہے جواپنے اثاثے چھپاتے ہوئے پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔ جمہوریت کا سب سے بڑا مقصد ایک ایسی حکومت قائم کرنا ہے جو طاقتور افراد سے وسائل لے کر معاشرے پر خرچ کرے۔ یہ دولت کی تقسیم کے دائرے کو پھیلاتے ہوئے نہ صرف عام شہری کو سہولیات فراہم کرتی ہے بلکہ معاشرے کے کمزور طبقوں ، جیسا بے سہار ا خواتین اور بچوں ، اقلیتوں ، بے روزگاروں اور خصوصی افراد کی نگہداشت کرتی ہے۔ہماری ٹیکس پالیسی میں یہ عناصر دور دور تک نہیں ملتے، چنانچہ ہم ایک فلاحی ریاست بننے کی منزل کے قریب تو کیا، اس سمت پیش رفت بھی نہیں کررہے ہیں۔ 
ایک نئے ٹیکس کے نظام کا نقطۂ آغاز موجودہ افسرشاہی پر مشتمل ٹیکس کے نظام کو ختم کرنا ہونا چاہیے۔ ایف بی آر کو چلانے کے لیے ایک خود مختار بورڈ آف ڈائریکٹرز کی خدمات حاصل کی جائیں، جیسا کہ اکثر ممالک میں ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارا ایف بی آر حکمران جماعت کے ہیڈکوارٹرسے چلایا جارہا ہے،حالانکہ اسے سیاسی اثر سے مکمل طور پر دور ہونا چاہیے۔ ایک آزاد اور خودمختار نیشنل ریونیواتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں سرکاری افسران کی بجائے جدید ٹیکس کے نظام اور طریقِ کار سے واقفیت رکھنے والے ماہرین ہوں۔ پاکستان میں یا تو امیر افراد ٹیکس ادا نہیں کرتے یا اپنے اثاثوں اور آمدنی کے مطابق ادا نہیں کرتے۔ اس کے نتیجے میں ریاست غربت زدہ اور متوسط افراد پر براہ راست بھاری ٹیکس لگا کر اپنے اخراجات پورے کرتی ہے ۔ اس سے معاشرے کے پہلے سے پسے ہوئے طبقے مزید دبائو میں آجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ یہ بات ان کالموں میں بارہا بہت وضاحت سے بتائی جاچکی ہے کہ ملک میں چھ ٹریلین محصولات کا پوٹینشل موجود ہے۔ اگر اس کا حصول ممکن ہوسکے تو حکومت کے لیے عوام کو صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور رہائش کی سہولیات فراہم کرنا ممکن ہوگا۔ ٹیکس کا موجودہ متروک شدہ نظام یہ مقصد پورا کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ اس کی تبدیلی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved