ذوالفقار عادل نے اپنا مجموعۂ کلام بھیجتے وقت یہ تاکید بھی کی ہے کہ اس میں جو زائد چیزیں ہیں ان کی نشاندہی ضرور کردوں۔ فی الحال تو اس کتاب کے اندر جو کمی رہ گئی ہے‘ میں اس کی نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں۔ مثلاً انتسابات کا سلسلہ مزید طویل بھی ہو سکتا تھا تاکہ بہت سے خواتین و حضرات کی حق تلفی نہ ہوتی جو نانا شبیر احمد اور نانی اماں سے شروع ہوتا ہوا دادا حسن محمد‘ چچا ولایت علی‘ والد محترم رائو شوکت علی سے لے کر والدہ محترمہ تک پھیلا ہوا ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں کئی دیگر رشتے دار بھی بھگتائے جا سکتے تھے تاکہ حقوق العباد کا تقاضا بھی پورا ہو جاتا اور اس طرح کتاب کی ایک ایک غزل ان سب کے حصے میں آجاتی۔
اس کے بعد مضمون ''م۔ محبت‘ کاف۔ کہانی‘‘ میں چچا ولایت علی‘ لیاقت علی‘ دادا عیش محمد‘ ماموں شبیر کے علاوہ جن دوستوں کا بھگتاں کیا گیا ہے اور جن میں ظفر اقبال‘ استاد یٰسین خان ثاقب‘ قمر انصاری‘ فتح محمد شاہد‘ شاکر شجاع آبادی‘ سلیم اختر قریشی‘ منظور احمد منظور‘ رحمن حفیظ‘ ادریس بابر‘ طیب رضا‘ شاہین عباس‘ توصیف خواجہ‘ نوید صادق‘ اکبر ناصر خان‘ احمد فاروق‘ غافر شہزاد‘ منظر اعجاز منظر‘ طاہر سیمی‘ یونس ڈوگر‘ عبدالواحد خان‘ اطہر غنی‘ اعجاز احمد‘ اظہر چودھری‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ خالد احمد‘ ممتاز اطہر‘ فیصل عجمی‘ عباس تابش‘ سعود عثمانی‘ اختر عثمان‘ نجم عباس نقوی‘ احسن اختر‘ آصف علی قیصر‘ محمد ابوبکر‘ آصف شفیع‘ سلیم ساگر‘ محمود اعوان‘ عبدالرزاق ایزد‘ شاہد فرید‘ نبیل بابری‘ ارسلان ارشد‘ شکیل رانا‘ شعیب سلطان‘ شاہد جاوید‘ مرتضیٰ حبیب‘ وقاص بن نجیب‘ سلمان بسرا‘ اکبر معصوم‘ شناور اسحق‘ انعام ندیم‘ کاشف حسین غائر‘ شاہد ذکی‘ احمد رضوان‘ افضل گوہر‘ وقار احسن‘ منظور قریشی‘ شجاع الدین احمد‘ عطا اللہ‘ عمیر پیرزادہ‘ اجمل سراج‘ رساؔ چغتائی‘ آصف فرخی‘ محسن اسرار‘ احمد صغیر صدیقی‘ فراست رضوی‘ صابر وسیم‘ شاہنواز فاروق‘ سیما غزل‘ سائرہ غلام نبی‘ فہیم شناس کاظمی‘ سحر تاب رومانی‘ سلمان خواجہ‘ کاشف رضا‘ رفاقت حیات‘ خالد معین اور مقبول عابدی‘... واضح رہے کہ اس قطار میں کئی نام بار بار بھی آئے ہیں۔ اس کے علاوہ حصۂ نثر میں نوید صادق‘ شجاع الدین اور ظفر اقبال ظفر کے مضامین ہیں۔ مندرجہ بالا فہرست میں اگر کوئی دوست درج ہونے سے رہ گئے ہوں تو ذوالفقار عادل کی طرف سے میں معذرت خواہ ہوں۔
جو چیزیں اس خوبصورت کتاب میں نہیں ہونی چاہئیں تھیں‘ بارے ان کا بھی ذکر ہو جائے۔ مثلاً ایک شعر ؎
اجنبی کی حیثیت سے ذوالفقار عادل ہمیں
جانتے ہیں سب کے سب اس کارواں کے اجنبی
اس میں عادل کی ''ع‘‘ کہیں گم ہو گئی ہے اور اس کی بجائے ہمیں آدل ہی دستیاب ہوتا ہے جس طرح کئی بار محبی افتخار عارف‘ افتخار آرف ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایک اور شعر ہے ؎
سنتا ہو اگر کوئی تو عادل وہ در و بام
کہتے ہیں مری نقلِ مکانی کی کہانی
نقل مکانی صحیح نہیں‘ نقلِ مکاں ہونا چاہیے۔ اگرچہ یہ غلطی اکثر شعراء کر جاتے ہیں لیکن غلطی تو بہرحال غلطی ہے۔ پھر ایک شعر ہے ؎
ہر پڑائو پہ یُوں لگا عادلؔ
میں کسی قافلے میں ہوں شاید
پڑائو‘ گھائو‘ الائو‘ دائو وغیرہ ہندی کے الفاظ ہیں جن کا آخری حرف یعنی دائو وزن میں نہیں آتا یعنی پڑائو کو یوں کھینچ کر نہیں باندھ سکتے۔ ایک اور شعر ہے ؎
چھانی اک عمر خاک خوشی کی تلاش میں
ہونا تھا رزقِ خاک مجھے‘ ہو کے خوش ہوا
اس میں لفظ ''عمر‘‘ کی عین گُم کردی گئی ہے۔ اگر مصرعے میں سے ''اک‘‘ کا لفظ نکال دیا جائے تو تب مصرعہ وزن میں آئے گا اور عمر کی عین پورے اعلان کے ساتھ۔ ایک ا ور شعر ہے ؎
دل سے نکالے جا سکتے ہیں خوف بھی اور خرابے بھی
لیکن ازل ابد کو عادلؔ کون نکالے بستی سے
اس میں ازل اور ابد ایک ہی وزن پر ہیں یعنی خبر نظر کے وزن پر جبکہ یہاں ازل کو صبر اور حشر کے وزن پر باندھا گیا ہے جو غالباً درست نہیں۔
ذوالفقار عادل کے کئی اشعار کی تحسین میں پہلے کر چکا ہوں جو اس کتاب میں بھی شامل ہیں؛ تاہم ان میں سے اگر کسی کی تکرار بھی ہو جائے تو کوئی ہرج نہیں کہ عمدہ شعر کو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے...
دل سے گزر رہا ہے کوئی ماتمی جلوس
اور اس کے راستے کو کھلا کر رہے ہیں ہم
اک ایسے شہر میں ہیں جہاں کچھ نہیں بچا
لیکن اک ایسے شہر میں کیا کر رہے ہیں ہم
کب سے کھڑے ہوئے ہیں کسی گھر کے سامنے
کب سے اک اور گھر کا پتا کر رہے ہیں ہم
اک عمر اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہے
اک دوسرے کے خوف سے دیوار اور میں
خوش گمانی سے ہو گئے تصویر
ایک دیوار آ لگی ہم سے
یہ جو دریا کی خموشی ہے اسے
ڈوب جانے کی اجازت سمجھو
سوچا یہ تھا وقت ملا تو ٹوٹی چیزیں جوڑیں گے
اب کونے میں ڈھیر لگا ہے‘ باقی کمرہ خالی ہے
بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ہے آتشدان میں کیا کیا کچھ
موسم اتنا سرد نہیں تھا جتنی آگ جلا لی ہے
اوپر سب کچھ جل جائے گا‘ کون مدد کو آئے گا
جس منزل پر آگ لگی ہے‘ سب سے نیچے والی ہے
اس دریا کی تہہ میں عادلؔ ایک پرانی کشتی ہے
اک گرداب مسلسل اس کا بوجھ بڑھاتا رہتا ہے
جتنا اُڑا دیا گیا
اتنا غبار تھا نہیں
اشک اس دشت میں‘ اس آنکھ کی ویرانی میں
اک محبت کو بچانے کے لیے آتا ہے
خال و خد ساتھ چھوڑ دیتے ہیں
آئینہ دیکھتے رہا کیجے
عادلؔ اس رہداری سے البتہ کچھ گلدستے تھے
رُک رُک کر بڑھنے والوں کی پسپائی سے ختم ہوئے
ہم تو جلتے بھی نہیں ہیں عادلؔ
اور سایہ بھی نہیں کر سکتے
وہ سفینے کہاں گئے ہوں گے
ڈوبتے ڈوبتے خیال آیا
اک ذرا روشنی میں لائو اسے
دیکھتے ہیں‘ دیا بجھا کیوں ہے
شام کے وقت یہ کس نے عادلؔ
دن کا آغاز کیا ہے دل میں
آج لبریز ہوا جاتا ہے پیمانۂ صبر
عین اُس وقت کہ جب زخم ہیں بھرنے والے
کتاب کے شروع میں شاہد ندیم کے مضامین ہیں اور ادریس بابر کی جانب سے ایک خوبصورت اور منظوم عشرہ‘ ذوالفقار عادل کے لیے اندرونی فلیپ رسا چغتائی اور خاکسار کے قلم سے ہیں اور یہ تحفہ کتاب شہرزاد‘ کراچی نے چھاپی اور اس کی قیمت دو سو پچاس روپے رکھی ہے۔ سرورق زینی سعید کا تیار کردہ ہے۔
آج کا مطلع
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
ملیں گے اور پریشانی رہے گی